قُلْ هَلْ مِن شُرَكَائِكُم مَّن يَبْدَأُ الْخَلْقَ ثُمَّ يُعِيدُهُ ۚ قُلِ اللَّهُ يَبْدَأُ الْخَلْقَ ثُمَّ يُعِيدُهُ ۖ فَأَنَّىٰ تُؤْفَكُونَ
(اے پیغمبر) ان سے پوچھو : کیا تمہارے ٹھہرائے ہوئے شریکوں میں کوئی ایسا ہے جو خلقت کی پیدائش شروع کرے اور پھر اسے دہرائے؟ تم کہو یہ تو اللہ ہے جو ابتدا میں پیدا کرتا ہے پھر اسے دہرائے گا، پس غور کرو تمہاری الٹی چال تمہیں کدھر کو لے جارہی ہے؟
فہم القرآن : (آیت 34 سے 36) ربط کلام : گزشتہ سے پیوستہ توحید کے دلائل اور مشرکین سے سوالات جاری ہیں۔ اب باطل معبودوں کے بارے میں براہ راست پوچھا جارہا ہے کہ تمہارے معبودان باطل میں سے کون ہے جس نے ابتدا میں اس کائنات کو پیدا کیا اور پھر اسے دوبارہ وجود بخشے گا؟ ظاہر ہے اس کا جواب نفی میں تھا اور ہمیشہ اس کا جواب نفی میں ہی رہے گا۔ لہٰذا نبی اکرم (ﷺ) کو حکم ہوا کہ آپ بےدھڑک فرمائیں کہ اللہ ہی نے انھیں پہلی مرتبہ بغیر نمونے کے پیدا فرمایا اور وہی دوبارہ انھیں پیدا کرے گا۔ جب اللہ تعالیٰ کو ان کا خالق اور دوبارہ پیدا کرنے والا مانتے ہو تو پھر کہاں بھٹکے پھرتے ہو؟ جب پیدا کرنے والا اور تمہیں اپنے ہاں لوٹانے والا بھی ایک اللہ ہی ہے۔ پھر تمہارے معبودان باطل کہاں سے آٹپکے اور ان کا کیا اختیار ہے۔ جس بنا پر تم انہیں حاجت روا، مشکل کشا اور داتا و دستگیر کہتے ہو۔ مزید برآں سوال یہ ہے کہ تمہارے معبودوں میں کوئی ہے جو تمہاری حق کی طرف راہنمائی کرسکے۔ یہ بات بھی بالکل واضح ہے کہ پتھر، مٹی اور لکڑی کے بت ہدایت کی راہنمائی نہیں کرسکتے۔ نہ فرشتے اور جنات اور نہ ہی سورج، چاند، ستارے ہدایت کا راستہ دکھا سکتے ہیں۔ جہاں تک انبیاء اور اولیاء کا تعلق ہے۔ صراط مستقیم کی طرف رہنمائی تو کرسکتے ہیں مگر کسی کو ہدایت پر گامزن نہیں کرسکتے۔ جب وہ فوت ہوگئے تو ان کا تعلق دنیا سے ٹوٹ گیا۔ اب وہ بھی کسی کی رہنمائی اور مدد نہیں کرسکتے۔ لہٰذا صرف اللہ ہی ہے جو ہدایت کی رہنمائی کرتا ہے اور اس پر چلنے کی توفیق دیتا ہے۔ اب بتاؤ جو ہدایت کی طرف رہنمائی کرے اس کی اتباع اور حکم ماننا چاہیے یا جو کسی کی رہنمائی کرنے کی بجائے خود رہنمائی کا محتاج ہو۔ اس کی اتباع کرنی چاہیے۔ ذرا سوچو کہ تم کیسے فیصلے کرتے ہو؟ ظاہر ہے۔ پیروی تو اس کی کرنی چاہیے جو ہدایت کی راہنمائی کرتا ہے اور خود ہدایت والا ہے۔ درحقیقت تم محض فرسودہ خیالات، صرف سنی سنائی باتوں اور اپنے وہم و گمان کے پیچھے لگے ہوئے ہو۔ لیکن یاد رکھو کہ اللہ جانتا ہے جو کچھ تم کررہے ہو۔ ظن کا معنی وہم و گمان، اٹکل پچو اور شک کے ہیں۔ البتہ عربی میں کبھی ظن، یقین کے معنوں میں بھی استعمال ہوتا ہے۔ لیکن یہاں اس کا معنی اٹکل پچو اور وہم و گمان ہے۔ ( عَنْ أَبِیْ ہُرَیْرَۃَ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (ﷺ) لِعَمِّہِ عِنْدَ الْمَوْتِ قُلْ لاَ إِلَہَ إِلاَّ اللّٰہُ أَشْہَدُ لَکَ بِہَا یَوْمَ الْقِیَامَۃِ فَأَبَی فَأَنْزَلَ اللّٰہُ ﴿إِنَّکَ لاَ تَہْدِی مَنْ أَحْبَبْتَ﴾۔۔ الآیَۃَ) [ رواہ مسلم : کتاب الایمان] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (ﷺ) نے اپنے چچا ابو طالب کو موت کے وقت کہا لا الہ الا للہ کہہ دو ! میں قیامت کے دن اس بات کی گواہی دوں گا۔ لیکن اس نے انکار کردیا اس وقت اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی : آپ اسے ہدایت نہیں دے سکتے جس کے لیے آپ ہدایت پسند کریں۔“ مسائل : 1۔ معبودان باطل میں سے کوئی بھی مخلوق کو پہلی بار پیدا کرنے اور دوبارہ لوٹانے پر قادر نہیں ہے۔ 2۔ اللہ ہی نے مخلوق کو پیدا کیا وہی اس کو دوبارہ وجود بخشے گا۔ 3۔ مشرکین کے شریکوں میں کوئی ایسا نہیں جو حق کی طرف رہنمائی کرسکے۔ 4۔ اللہ تعالیٰ حق کی طرف رہنمائی کرتا ہے۔ 5۔ حق کی طرف رہنمائی کرنے والا ہی پیروی کا حقدار ہوتا ہے۔ 6۔ جس کو خود راستے کا علم نہیں وہ دوسرے کو کیا راستہ دکھلائے گا۔ 7۔ شرک کا عقیدہ عدل و انصاف کے اصولوں کے خلاف ہے۔ 8۔ اللہ تعالیٰ لوگوں کے افعال کو جاننے والا ہے۔ تفسیر بالقرآن : اللہ کی تخلیق میں کوئی شریک نہیں : 1۔ کیا تمہارے شرکاء میں سے کوئی ایسا ہے جس نے مخلوق کو پیدا کیا ہے۔ (یونس :34) 2۔ یہ اللہ کی پیدا کردہ مخلوق ہے جو تمہارے معبودوں نے پیدا کیا ہے وہ دکھلاؤ۔ (لقمان :11) 3۔ کیا تم ان کو اللہ کا شریک بناتے ہو جنہوں نے کسی چیز کو پیدا نہیں کیا۔ (الاعراف :191) 4۔ جن کو تم اللہ کے سوا پکارتے ہو انہوں نے کوئی چیز پیدا نہیں کی وہ خود پیدا کیے گئے ہیں۔ (النحل :20) 5۔ جن کو تم نے اللہ کے سوا معبود بنالیا ہے انہوں نے کوئی چیز پیدا نہیں کی بلکہ انہیں پیدا کیا گیا ہے۔ (الفرقان :3) 6۔ کہہ دیجیے جنہیں تم اللہ کے سوا پکارتے ہو مجھے دکھاؤ انہوں نے کون سی چیز پیدا کی ہے۔ (الاحقاف :4) 7۔ کیا یہ لوگ بغیر کسی کے پیدا ہوگئے یا خود اپنے خالق ہیں۔ (الطور :35) 8۔ کیا تم ان کے پیدا کرنے والے ہو یا اللہ تعالیٰ پیدا کرنے والا ہے۔ (الواقعۃ:59)