سورة یونس - آیت 31

قُلْ مَن يَرْزُقُكُم مِّنَ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ أَمَّن يَمْلِكُ السَّمْعَ وَالْأَبْصَارَ وَمَن يُخْرِجُ الْحَيَّ مِنَ الْمَيِّتِ وَيُخْرِجُ الْمَيِّتَ مِنَ الْحَيِّ وَمَن يُدَبِّرُ الْأَمْرَ ۚ فَسَيَقُولُونَ اللَّهُ ۚ فَقُلْ أَفَلَا تَتَّقُونَ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

(اے پیغمبر) ان لوگوں سے پوچھو وہ کون ہے جو تمہیں آسمان و زمین کی بخشائشوں کے ذریعہ روزی دیتا ہے؟ وہ کون ہے جس کے قبضۃ میں تمہارا سننا اور دیکھنا ہے؟ وہ کون ہے جو زندہ کو مردہ سے نکلتا ہے اور مردہ کو زندہ سے؟ اور پھر وہ کون ہے جو تمام کارخانہ ہستی کا انتظام کر رہا ہے؟ وہ (فورا) بول اٹھیں گے کہ اللہ، پس تم کہو، اگر ایسا ہی ہے تو پھر تم (انکار حق کے نتیجہ سے) ڈرتے نہیں؟

تفسیرفہم قرآن - میاں محمد جمیل

فہم القرآن : (آیت 31 سے 33) ربط کلام : مشرکین کو ان کے شرک کے بارے میں قیامت کے دن سوال ہوگا لیکن دنیا میں بھی ان سے سوال کیا جاتا ہے۔ ان کے پاس نہ قیامت کو اپنے شرک کا جواب ہوگا اور نہ دنیا میں جواب دے سکتے ہیں۔ اس سے پہلے رکوع میں اللہ تعالیٰ نے اپنے مشکل کشا ہونے کے دلائل دیئے تھے۔ جس کا اقرار مشرک صرف سمندری سفر میں بھنور میں پھنسنے کے وقت کرتے تھے۔ یہی مشرک اور مواحد کے درمیان فرق ہے۔ مشرک جب اپنے مشکل کشاؤں سے مایوس ہوجاتا ہے تب خالصتاً ایک اللہ کو پکارتا ہے، مواحد ہر حال میں ایک اللہ کو پکارتا ہے۔ اب توحید کے وہ دلائل دیے جاتے ہیں۔ جن کا مشرک ہر حال میں اقرار کرتے ہیں۔ چنانچہ رسول محترم (ﷺ) اور ہر مواحد کو کہا گیا ہے کہ آپ ان سے سوال کریں کہ زمین و آسمان سے تمہیں کون رزق دینے والا ہے؟ پھر ان سے پوچھیں کس نے تمہیں سننے کے لیے کان، دیکھنے کے لیے آنکھیں عطا فرمائیں ؟ کون ہے جو زندہ سے مردہ اور مردہ سے زندہ کو پیدا کرتا ہے؟ پھر پوری کائنات کے نظام کو سنبھالنے اور چلانے والا کون ہے؟ اس کے جواب میں کہتے ہیں کہ صرف اللہ ہی سب کچھ کرنے اور کائنات کا نظام چلانے والا ہے۔ ان سے پوچھیں پھر تم کیوں نہیں اللہ سے ڈر کر شرک و کفر چھوڑتے؟ لوگو! یہ ہے تمہارا ” اللہ“ اس کو چھوڑ کر کسی اور کی عبادت کرنا یا کسی کو اللہ کی ذات کے ساتھ کسی اعتبار سے شریک بنانا گمراہی کے سوا کچھ بھی نہیں۔ پھر کیوں زیادتی کرتے ہو۔ توحید فطرت کی آواز ہے۔ اس لیے انسان کو اس کا اقرار کیے بغیر چارہ نہیں رہتا۔ یہی وجہ ہے کہ ہر دور کا مشرک توحید کے ٹھوس اور واضح دلائل کے سامنے خاموش ہوجاتا ہے۔ یہی حالت مکہ کے مشرکین کی تھی جب ان سے اللہ تعالیٰ کے خالق، مالک، رازق اور قادر مطلق ہونے کے بارے میں سوال کیا جاتا تو وہ برملا اس کا اقرار اور اظہار کرتے تھے۔ یہاں ان کے اقرار کا ذکر کیا گیا ہے۔ لیکن مشرکین کا یہ اقرار لاجواب ہونے کی صورت میں ہے۔ ایمان لانے کی نیت سے نہیں کیونکہ مشرک حقیقتاً اللہ تعالیٰ کی ذات اور اس کی صفات کا منکر ہوتا ہے۔ اس لیے مشرک کو کافر بھی کہا گیا ہے۔ تفسیر بالقرآن : مشرک اللہ تعالیٰ کی ہستی کا اقرار کرتا ہے : 1۔ مشرک سے سوال کیا جائے کہ آسمان و زمین سے رزق کون دیتا ہے کہتے ہیں اللہ ہی رزق دیتا ہے۔ (یونس :31) 2۔ مشرکین سے پوچھا جائے مخلوق کو پیدا کرنے والا کون ہے؟ جواب دیتے ہیں اللہ ہی پیدا کرنے والا ہے۔ (یونس :33) 3۔ اگر ان سے پوچھا جائے کہ زمین و آسمان کا خالق کون ہے؟ کہتے ہیں اللہ ہی ہے۔ (الزمر :38) 4۔ مشرکوں سے پوچھاجائے سات آسمانوں اور عرش عظیم کا مالک کون؟ جواباً کہتے ہیں، اللہ ہی ہے۔ (المومنون : 86۔87) 5۔ اگر ان سے پوچھا جائے کہ ہر چیز پربادشاہت کس کی ہے ؟ جواب دیتے ہیں اللہ کی ہے۔ (المومنون : 88۔89) 6۔ یقیناً اگر تو ان سے پوچھے کہ کس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا اور سورج اور چاند کو مسخر کیا ؟ تو وہ ضرور کہیں گے کہ اللہ نے، فرمائیں پھر کہاں سے بہکائے جا رہے ہیں۔ (العنکبوت :61)