سورة یونس - آیت 22

هُوَ الَّذِي يُسَيِّرُكُمْ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ ۖ حَتَّىٰ إِذَا كُنتُمْ فِي الْفُلْكِ وَجَرَيْنَ بِهِم بِرِيحٍ طَيِّبَةٍ وَفَرِحُوا بِهَا جَاءَتْهَا رِيحٌ عَاصِفٌ وَجَاءَهُمُ الْمَوْجُ مِن كُلِّ مَكَانٍ وَظَنُّوا أَنَّهُمْ أُحِيطَ بِهِمْ ۙ دَعَوُا اللَّهَ مُخْلِصِينَ لَهُ الدِّينَ لَئِنْ أَنجَيْتَنَا مِنْ هَٰذِهِ لَنَكُونَنَّ مِنَ الشَّاكِرِينَ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

وہی ہے جس نے تمہارے لیے زمین کی کشکی اور تری میں سیر و گردش کا سامان کردیا ہے، پھر جب ایسا ہوتا ہے کہ تم جہازوں میں سوار ہوتے ہو جہاز موافق ہوا پاکر تمہیں لے اڑتے ہیں، مسافر خوش ہوتے ہیں (کہ کیا اچھی ہوا چل رہی ہے) پھر اچانک ہوائے تند کے جھونکے نمودار ہوجاتے اور ہر طرف سے موجیں ہجوم کرنے لگتی ہیں اور مسافر خیال کرتے ہیں بس اب ان میں گھر گئے (اور بچنے کی کوئی امید باقی نہ رہی) تو اس وقت (انہیں خدا کے سوا اور کوئی ہستی یاس نہیں آتی وہ) دین کے اخلاص کے ساتھ خدا کو پکارنے لگتے ہیں، خدایا ! اگر اس حالت سے ہمیں نجات دے دے تو ہم ضرور تیرے شکر گزار ہوں گے۔

تفسیر فہم القرآن - میاں محمد جمیل ایم اے

فہم القرآن : (آیت 22 سے 23) ربط کلام : مشرک اور کافر کی فطرت خبیثہ کا ذکر۔ اس سے پہلی آیات میں مسئلہ شفاعت کے حوالے توحید بیان کی گئی۔ درمیان میں کفار کے عذاب کا مطالبہ کرنے پر انہیں ہلکی سی سرزنش کی گئی۔ اب پھر توحید کے دلائل دیے جاتے ہیں۔ مضمون کا ربط قائم کرنے اور سابقہ دلائل کے استحضار کے لیے ﴿ھُوَالَّذِیْ﴾ کے الفاظ استعمال فرمائے۔ اس اللہ کی ذات اور صفات ماننے کی دعوت دی جارہی ہے جو تمہیں خشکی اور سمندر میں چلاتا ہے۔ ذراغور کرو اور سوچو! کہ کتنے تمہارے جیسے انسان ہیں جن کی ٹانگیں ہیں مگر کسی بیماری کی وجہ سے چل نہیں سکتے، وجود ہیں مگر حرکت نہیں کرسکتے، روح ہے مگر زندگی سے بے زار ہوچکے ہیں۔ اسی طرح ملّاح اور کشتی موجود ہے۔ مگر بھنور میں پھنس چکی ہے۔ ملاح چپو پر چپو چلا رہا ہے لیکن کشتی بھنور سے نکلنے کی بجائے پھنستی چلی جارہی ہے۔ ملّاح مسافروں سے دعا کے لیے کہتا ہے۔ ان کو اپنی موت کا یقین ہوچلا ہے۔ جس وجہ سے شرک کے پردے ہٹ گئے اور دل نے شہادت دی کہ صرف اور صرف ایک رب کو پکارو۔ ہر مسافردل کی اتھاہ گہرائیوں، اور نہایت درماندگی کے ساتھ پکارنے لگا۔ اے زمین و آسمانوں کے مالک تیرا نہ کوئی ساجھی ہے اور نہ کوئی معاون۔ بس تو ہماری فریادکومستجاب کرکے ہمیں اس مصیبت سے نجات عطا فرما۔ آسمان سے آواز آتی ہے۔ جس میں نہ طعنہ ہے اور نہ کوئی جھڑک۔ ﴿اَمَّنْ یُّجِیْبُ الْمُضْطَرَّ اِذَا دَعَاہُ وَیَکْشِفُ السُّوْٓءَ وَیَجْعَلُکُمْ خُلَفَآءَ الْاَرْضِ ءَ اِلٰہٌ مَّعَ اللّٰہِ قَلِیْلاً مَّا تَذَکَّرُوْنَ﴾[ النمل :62] ” کون ہے جو لا چار کی دعا قبول کرتا ہے، جب وہ اسے پکارتا ہے اور تکلیف دور کرتا ہے اور تمہیں زمین میں جانشین بناتا ہے ؟ کیا اللہ کے ساتھ کوئی اور معبود ہے ؟ بہت کم تم نصیحت قبول کرتے ہو۔“ یہاں اسی صورت حال کی منظر کشی کی گئی ہے۔ اے لوگو جب تم کشتی پر سوار ہوتے ہو، ٹھنڈی اور موافق ہوائیں چلتی ہیں جو کشتی کے تیز چلنے میں مددگار ثابت ہوتی ہیں۔ تو تم خوش ہوتے ہو۔ یہاں روح پر ور منظر کا نقشہ پیش کرکے اللہ تعالیٰ اپنی بے پایاں رحمت کا ثبوت دے رہے ہیں۔ لیکن اس کے بعد یک دم ہوا کا دباؤ بڑھا جس نے بھونچال کی شکل اختیار کرلی خوشگوار فضاء کی جگہ بھنور نے لی اور مسافروں کو جان کے لالے پڑگئے ہر کوئی موت کو اپنے سامنے دیکھنے لگا۔ کشتی کے ملاح اور مسافروں کو یقین ہوگیا کہ ساحل تک پہنچنے کی کوئی صورت باقی نہیں ہے۔ تمام مسافر ادھر ادھر کے سہاروں اور باطل معبودوں کو چھوڑ کر اخلاص کے ساتھ صرف ایک اللہ کو پکارنے لگے ہر کسی نے دل ہی دل میں عہد باندھا کہ اگر اللہ تعالیٰ نے بچا لیا تو اس کے شکر گزار بندے بن کر زندگی بھر اسی کو حاجت روا، مشکل کشا سمجھیں گے۔ یہاں اخلاص سے پہلی مراد عقیدہ توحید کی طرف رجوع ہے جوں ہی کشتی کنارے لگی۔ مشرک اللہ سے کیے ہوئے عہد کو بھول گئے اب کوئی خواجہ خضر کو نجات دہندہ سمجھ رہا ہے اور کسی نے پیر عبدالقادر جیلانی کو دستگیر بنالیا ہے۔ ایسی پکار اللہ تعالیٰ کے ساتھ بغاوت اور اس کی پرلے درجے کی ناشکری ہے۔ جس کی واضح مثال 1965ء میں ہندوستان کے ساتھ جنگ میں دیکھی اور سنی گئی۔ سترہ دن کی جنگ میں پاکستان کے مردوزن صرف اور صرف اللہ سے مدد طلب کرتے رہے۔ اللہ تعالیٰ نے پاکستان کو ہندوستان پر کامیابی اور برتری عنایت فرمائی۔ جوں ہی جنگ ختم ہوئی تو ایک مکتب فکر کے علماء اور عوام نے کہانیاں بنانا شروع کردیں کہ فلاں محاذ پر فلاں بزرگ نے ہندوستان کے بم دپوچ کرشہر کو بچا لیا۔ 1971ء کی جنگ میں مشرقی پاکستان ہم سے الگ ہوا۔ نوے ہزار فوج کئی جرنیلوں سمیت ہندوستان کی غلام بنی۔ شکر گڑھ کا علاقہ ہندوستان کے قبضے میں چلا گیا۔ اس وقت کسی پیر، فقیر نے کیوں مدد نہ کی؟ عراق پر امریکہ نے مسلسل بمباری کی۔ جس میں پیر عبدالقادر شاہ جیلانی (رض) کے مزار کا ایک حصہ منہدم ہوا۔ نجف میں حضرت علی (رض) کے مرقد کا ایک حصہ بمباری کا نشانہ بنا۔ پوراعراق کئی سال سے اتحادی فوجوں کا نشانہ بنا ہوا ہے۔ نہ پیر جیلانی دفاع کرپائے اور نہ حضرت علی (رض) کسی کو بچا سکے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ اللہ کے سوا کوئی بھی مدد نہیں کرسکتا۔ کاش شرک کرنے والے بھائی اس حقیقت کو سمجھ جائیں۔ جس کے بارے میں فرمایا جارہا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی بادشاہی اور خدائی کو کچھ فرق نہیں پڑتا۔ لوگو! اس بغاوت کا تمہیں ہی نتیجہ بھگتنا پڑے گا۔ یاد رکھو یہ دنیا کی زندگی معمولی اور قلیل ہے بالآخر تم نے ہمارے پاس حاضر ہونا ہے ہم تمھیں بتائیں گے کہ تم دنیا میں کیا کچھ کرتے رہے ہو۔ عکرمہ بن ابوجہل کا واقعہ : مفسرین نے اس آیت کی تشریح کرتے ہوئے عکرمہ بن ابوجہل کا واقعہ نقل کیا ہے۔ جب مکہ فتح ہوا تو عکرمہ یہ سوچ کر بھاگ نکلا کہ مجھے کسی صورت بھی معافی نہیں مل سکتی۔ جدہ کی بندرگاہ پر پہنچا اور بیڑے میں سوار ہوا۔ لیکن اللہ کی قدرت کہ جوں ہی بیڑے نے ساحل چھوڑا تو وہ اتنے شدید بھنور میں پھنسا کہ ملاح اور مسافروں کو یقین ہوگیا کہ اب نجات کی کوئی صورت باقی نہیں ہے۔ مصیبت کی گھڑی میں ملاح نے مسافروں سے کہا کہ جب کبھی بیڑے کو ایسے طوفان کا واسطہ پڑتا ہے تو کسی اور کی بجائے صرف ایک اللہ کو پکارا جاتا ہے۔ اس لیے صرف ایک اللہ کے حضور فریادیں کرو اس کے سوا کوئی بیڑا پار لگانے والا نہیں۔ یہ بات حضرت عکرمہ (رض) کے دل پر اثر کرگئی اور اس نے سوچا کہ یہی تو ہمیں محمد (ﷺ) دعوت دیتا ہے لہٰذا اگر یہاں سے بچ نکلا تو میں حلقہ اسلام میں داخل ہوجاؤں گا چنانچہ حضرت عکرمہ (رض) حلقہ اسلام میں داخل ہوئے اور باقی زندگی اسلام اور رسول محترم کے ساتھ اخلاص کے ساتھ گزاری اور جنت کے وارث بنے۔ تفصیل کے لیے کسی مستند سیرت النبی (ﷺ) کتاب کا مطالعہ فرمائیں۔ (عَنْ اَبِیْ ذَرِّ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ () فِیْمَا یَرْوِیْ عَنِ اللّٰہِ تَبَارَکَ وَتَعَالٰی اَنَّہُ قَالَ یَا عِبَادِیْ اِنِّیْ حَرَّمْتُ الظُّلْمَ عَلٰی نَفْسِیْ وَجَعَلْتُہُ بَیْنَکُمْ مُحَرَّمًا فَلَا تَظَالَمُوْا یا عِبَادِیْ کُلُّکُمْ ضَآلٌّ اِلَّا مَنْ ھَدَیْتُہُ۔۔ یَا عِبَادِیْ لَوْ اَنَّ اَوَّلَکُمْ وَاٰخِرَکُمْ وَاِنْسَکُمْ وَجِنَّکُمْ کَانُوْا عَلٰی اَتْقٰی قَلْبِ رَجُلٍ وَّاحِدٍ مِّنْکُمْ مَّا زَادَ ذَالِکَ فِیْ مُلْکِیْ شَیئًا یَا عِبَادِیْ لَوْ اَنَّ اَوَّلَکُمْ وَاٰخِرَکُمْ وَاِنْسَکُمْ وَجِنَّکُمْ کَانُوْا عَلٰی اَفْجَرِ قَلْبِ رَجُلٍ وَّاحِدٍ مِّنْکُمْ مَّا نَقَصَ ذَالِکَ مِنْ مُّلْکِیْ شَیْئًا)[ رواہ مسلم : باب تحریم الظلم] ” حضرت ابوذر (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول معظم (ﷺ) نے فرمایا‘ اللہ تبارک وتعالیٰ فرماتا ہے۔ میرے بندو! میں نے ظلم کو اپنی ذات پر حرام کیا اور تمہارے درمیان بھی ظلم ناجائز قرار دیا ہے۔ اس لیے ایک دوسرے پر ظلم نہ کیا کرو۔ میرے بندو! تم میں سے ہر ایک گمراہ ہے ماسوا اس کے جس کو میں ہدایت سے سرفراز کروں۔۔ میرے بندو! تمہارے تمام اگلے پچھلے‘ جنّ وانس سب سے زیادہ متّقی انسان کے دل کی طرح ہوجائیں تو یہ میری سلطنت میں ذرّہ بھر اضافہ نہیں کرسکتے۔ میرے بندو! تمہارے اگلے پچھلے جنّ وانس سب سے بدترین فاسق وفاجر انسان کے دل کی طرح ہوجائیں تو یہ میری حکومت میں کچھ نقص واقع نہیں کرسکتے۔“ مسائل : 1۔ اللہ ہی خشکی اور تری میں نجات دینے والا ہے۔ 5۔ مصیبت کے وقت مشرکین بھی اللہ تعالیٰ کو پکارتے ہیں۔ 2۔ مشکل دور ہوتے ہی مشرک اللہ کو بھول جاتے تھے۔ 6۔ کسی شخص کی سرکشی اللہ کا کچھ نہیں بگاڑ سکتی۔ 3۔ دنیاکا سازو سامان چند روزہ ہے۔ 7۔ ہر ایک نے اللہ کے حضور پیش ہونا ہے۔ 4۔ اللہ تعالیٰ ہر کسی کو اس کے اعمال سے آگاہ فرمائے گا۔ تفسیر بالقرآن : اللہ تعالیٰ کو ہر حال میں اخلاص کے ساتھ پکارنا چاہیے : 1۔ مشرک جب کسی مشکل میں گھر جاتے ہیں تو خالصتاً اللہ کو پکارتے ہیں۔ ( یونس :22) 2۔ لوگو اللہ کی خالص عبادت کرو۔ (الزمر :3) 3۔ مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں اللہ کیخالص عبادت کروں۔ (الزمر :11) 4۔ جب مشرکین کشتی پر سوار ہوتے ہیں خالصتاً اللہ کو پکارتے ہیں۔ (العنکبوت :65) 5۔ مومنو! اللہ کو اخلاص کے ساتھ پکارو اگرچہ کفار کے لیے یہ ناپسند ہی کیوں نہ ہو۔ (المومن :14) 6۔ اللہ ہمیشہ زندہ ہے اس کے سوا کوئی الٰہ نہیں صرف اسی کو پکارو (المومن :65)