وَلَقَدْ أَهْلَكْنَا الْقُرُونَ مِن قَبْلِكُمْ لَمَّا ظَلَمُوا ۙ وَجَاءَتْهُمْ رُسُلُهُم بِالْبَيِّنَاتِ وَمَا كَانُوا لِيُؤْمِنُوا ۚ كَذَٰلِكَ نَجْزِي الْقَوْمَ الْمُجْرِمِينَ
اور تم سے پہلے کتنی ہی امتیں گزر چکی ہیں جب انہوں نے ظلم کی راہ اختیار کی تو ہم نے انہیں (پاداش عمل میں) ہلاک کردیا، ان کے رسول ان کے پاس روشن دلیلوں کے ساتھ آئے تھے مگر اس پر بھی وہ آمادہ نہ ہوئے کہ ایمان لائیں (تو دیکھو) مجرموں کو اسی طرح ہم ان کے جرموں کا بدلہ دیتے ہیں۔
فہم القرآن : (آیت 13 سے 14) ربط کلام : حد سے گزر جانے والوں اور جرائم کا وطیرہ اختیار کرنے والوں کا تذکرہ کرنے کے بعد ان کی سزا بیان کی جارہی ہے۔ جن لوگوں نے گناہوں کو فیشن اور جرائم کو وطیرہ بنا لیا ہو اور وہ اللہ تعالیٰ کی مقرر کی ہوئی حد سے آگے گزر جائیں تو اللہ تعالیٰ ایسے مجرموں کی ضرور گرفت کرتا ہے۔ یاد رہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے ہاں ظالموں اور مجرموں کی ایک حد مقرر کر رکھی ہے جب حد عبور کرنے سے دنیا کا نظام درہم برہم ہونا شروع ہوجاتا ہے تب اللہ تعالیٰ نے ایسے لوگوں کو تباہی کے گھاٹ اتار دیا۔ حالانکہ ان کے پاس رسول بھیجے گئے جنہوں نے روشن اور ٹھوس دلائل کے ساتھ انہیں راہ راست پر لانے کی بے پناہ کوششیں فرمائیں۔ جب وہ کسی طرح بھی ہدایت کو ماننے کے لیے تیار نہ ہوئے تو پھر اللہ تعالیٰ نے انہیں تہس نہس کردیا۔ ظلم سے مراد اللہ تعالیٰ کے ساتھ کفرو شرک کرنا اور لوگوں پر مظالم ڈھانا ہے۔ قرن کی جمع قرون ہے جس کے اہل علم نے تین معنی کیے ہیں۔ (1) ایک نسل۔ (2) سو سال۔ (3) کسی قوم کے اقتدار کا مخصوص دور۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے ان کی دوسری نسل یا کسی اور قوم کو اس سرزمین کا خلیفہ بنایا۔ تاکہ وہ انہیں بھی آزمائے اور دیکھے کہ وہ کیا کردار ادا کرتے ہیں۔ یہاں مخاطب کی ضمیر لاکرہر دور کے انسانوں کو متنبہ کیا ہے کہ تم آزمائش گاہ میں ہو اور تمہارا رب تمہارے اعمال کو دیکھ رہا ہے۔ لہٰذا ہوش سے کام لو اور نیک بن کر رہو۔ دنیاکی تاریخ کا مطالعہ کیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ ایک قوم کے بعد دوسری قوم نے کس طرح اس کی جگہ سنبھالی حالانکہ ظالموں کے بارے میں کوئی تصور بھی نہیں کرسکتا تھا۔ کہ ان کے جورو استبداد سے لوگوں کی جان چھوٹ جائے گی۔ لیکن جب اللہ کا فیصلہ صادر ہوا تو وہ اس طرح نَسْیًا مَنْسِیًِا ہوئے کہ کوئی ان کی مدد کرنے اور ان کو یاد کرنے والا نہ تھا۔ (عَنْ عَبْدِاللّٰہِ ابْنِ عُمَرَ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (ﷺ) اَلَا کُلُّکُمْ رَاعٍ وَکُلُّکُمْ مَسْئُوْلٌ عَنْ رَعِیَّتِہٖ فَالْاِمَامُ الَّذِیْ عَلَی النَّاسِ رَاعٍ وَھُوَ مَسْئُوْلٌ عَنْ رَعِیَّتِہٖ وَالرَّجُلُ رَاعٍ عَلٰی اَھْلِ بَیْتِہٖ وَھُوَ مَسْئُوْلٌ عَنْ رَعِیّتِہٖ وَالْمَرْأَۃُ رَاعِیَۃٌ عَلٰی بَیْتِ زَوْجِھَا وَوَلَدِہٖ وَھِیَ مَسْئُوْلَۃٌ عَنْھُمْ وَعَبْدُ الرَّجُلِ رَاعٍ عَلٰی مَالِ سَیِّدِہٖ وَھُوَ مَسْئُوْلٌ عَنْہُ اَ لَا فَکُلُّکُمْ رَاعٍ وَکُلُّکُمْ مَسْئُوْلٌ عَنْ رَّعِیَّتِہٖ) [ رواہ البخاری : باب الْمَرْأَۃُ رَاعِیَۃٌ فِی بَیْتِ زَوْجِہَا ] ” حضرت عبداللہ بن عمر (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول معظم (ﷺ) نے فرمایا کہ خبردار! تم سب ذمہ دار ہو۔ تم سب سے تمہارے ماتحت لوگوں کے بارے میں پوچھا جائے گا۔ لوگوں کا امیر ذمہ دار ہے‘ اس سے عوام کے بارے میں سوال ہوگا۔ گھر کا فرد اعلیٰ اپنے گھر والوں کے بارے میں جواب دہ ہے‘ اس سے اس کے گھر والوں کے متعلق پوچھا جائے گا۔ عورت اپنے خاوند کے گھر اور اس کی اولاد کی نگران ہے‘ اس سے ان کے بارے میں سوال ہوگا۔ آدمی کا غلام اپنے آقا کے مال کا محافظ ہے‘ اس سے اس کے متعلق سوال ہوگا۔ خبردار! تم میں سے ہر ایک شخص نگران ہے اور ہر ایک سے اس کے ما تحت کے بارے میں پوچھا جائے گا۔“ مسائل : 1۔ اللہ نے لوگوں کی ظلم کی وجہ سے ان کو ہلاک کیا۔ 2۔ کچھ لوگ واضح دلائل دیکھ کر بھی ایمان نہیں لاتے۔ 3۔ اللہ تعالیٰ کسی قوم کی طرف رسول مبعوث کرنے سے پہلے اس کو عذاب نہیں دیتا۔ 4۔ ظالم قوم کی جگہ اللہ دوسری قوم لے آتا ہے۔ 5۔ اللہ تعالیٰ ہر ایک کے اعمال پر نظر رکھے ہوئے ہے۔ تفسیر بالقرآن : خلافت اور اس کی ذمہ داریاں : 1۔ پھر ہم نے زمین میں ان کے بعد تمہیں خلافت دی تاکہ ہم دیکھیں تم کیسے عمل کرتے ہو۔ (یونس :14) 2۔ اگر اللہ چاہتا تو تمہیں لے جاتا اور تمہارے بعد کسی اور کو خلیفہ بنا دیتا۔ (الانعام :133) 3۔ میرا رب تمہارے سوا کسی اور کو خلافت دے دے تو تم اس کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے۔ (ہود :57) 4۔ عنقریب تمہارا رب تمہارے دشمن کو ہلاک کردے گا اور تمہیں زمین کی خلافت عطا کرے گا۔ (الاعراف :139) 5۔ اللہ نے مومنین اور عمل صالح کرنے والوں کے ساتھ خلافت کا وعدہ فرمایا ہے۔ (النور :55)