هُوَ الَّذِي جَعَلَ الشَّمْسَ ضِيَاءً وَالْقَمَرَ نُورًا وَقَدَّرَهُ مَنَازِلَ لِتَعْلَمُوا عَدَدَ السِّنِينَ وَالْحِسَابَ ۚ مَا خَلَقَ اللَّهُ ذَٰلِكَ إِلَّا بِالْحَقِّ ۚ يُفَصِّلُ الْآيَاتِ لِقَوْمٍ يَعْلَمُونَ
وہی ہے جس نے سورج کو چمکتا ہوا بنایا اور چاند کو روشن اور پھر چاند کی منزلوں کا اندازہ ٹھہرا دیا تاکہ تم برسوں کی گنتی اور حساب معلوم کرلیا کرو، اللہ نے یہ سب کچھ نہیں بنایا ہے مگر حکمت و مصلحت کے ساتھ ان لوگوں کے لیے جو جاننے والے ہیں وہ (اپنی قدرت و حکمت کی) دلیلیں کھول کھول کر بیان کردیتا ہے۔
فہم القرآن : (آیت 5 سے 6) ربط کلام : پچھلی آیت میں مرنے کے بعد جی اٹھنے کی یہ دلیل دی تھی کہ وہ ذات تمہاری موت کے بعد تمہیں اٹھائے گی جس نے ابتدا میں تمہیں پیدا کیا اب شمس و قمر کے حوالے سے موت کے بعد اٹھنے اور اللہ تعالیٰ کے اقتدار اور اختیار کی دلیل سنو۔ وہی ایک ذات ہے جس نے زمین و آسمان اور انسان کو پیدا کیا۔ وہی ذات ہے جس نے سورج کو روشنی دی اور چاند کو چاندنی عطا فرمائی۔ سورج کی روشنی ہلکی سرخ اور تیز گرم ہوتی ہے۔ چاند کی روشنی سفید ٹھنڈی اور پر کشش ہوتی ہے۔ جس وجہ سے کچھ فصلیں سورج کی تیز روشنی میں اور کچھ فصلیں چاند کی پر کشش روشنی میں تیار ہوتی ہیں۔ دنیا کو دونوں قسم کی روشنی کی ضرورت تھی۔ جس کا دائمی انتظام کردیا گیا ہے۔ چاند اور سورج دو ہیں۔ لیکن خبر واحد کی لائی گئی جس میں اشارہ ہے کہ تم چاند کے حساب سے اپنے معاملات متعین کرو۔ اسی لیے مسلمانوں کی تقویم کی بنیاد چاند پر رکھی گئی ہے۔ پھر ان کی منازل متعین کیں جن پر یہ دن رات سفر کرتے ہیں۔ اے لوگو! جن کے مطابق تم اپنی زندگی کا حساب و کتاب اور دینی معاملات کو چلاتے ہو جس طرح کہ رمضان کے روزے، حج کی ادائیگی، صبح و شام کی نمازوں کا وقت یہ تمام امور شمسی حساب کی بجائے قمری حساب کی بنیاد پر مقرر اور ادا کیے جاتے ہیں۔ ایک معمولی عقل رکھنے والا انسان غور کرے تو اسے معلوم ہوجائے گا۔ کہ اللہ تعالیٰ کے سوا اس نظام کو کوئی پیدا کرنے والا اور چلانے والا نہیں۔ جب چاند اور سورج جیسے عظیم سیارے رات اور دن کا لامحدود نظام اللہ تعالیٰ کی قدرت اور قبضہ میں ہے اور وہی رات دن کو ایک دوسرے کے پیچھے لاتا ہے۔ کبھی رات طویل تر ہوجاتی ہے اور کبھی دن رات کے وجود کو چھوٹا کردیتا ہے۔ کبھی یوں بھی ہوتا ہے کہ رات اور دن وقت کے اعتبار سے یکساں ہوجاتے ہیں۔ اسی نظام کے مطابق ہی انسان کی زندگی ہے۔ پہلے چھوٹا ہوتا ہے پھر جوان ہو کر بھرپور صلاحیتوں کا پیکر بن جاتا ہے۔ آخر عمر میں بچوں کی طرح کمزور اور دوسروں کا محتاج ہوجاتا ہے۔ اسی طرح کبھی تندرستی کبھی بیماری کبھی خوشحالی اور تنگدستی ساتھ ساتھ چلتے ہیں۔ گویا کہ شمس و قمر کا غروب اور طلوع ہونا۔ زندگی اور موت اور جی اٹھنے کی واضح دلیل ہے۔ اسی طرح یہ اس بات کی واضح اور ٹھوس دلیل ہے کہ اللہ تعالیٰ انسانوں کی موت کے بعد انہیں زندہ کرنے پر قادرہے اور ان سے حساب ضرور لے گا۔ (اِنَّ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ لاَ یَخْسِفَانِ لِمَوْتِ اَحَدِ وَلاَ لِحَیَاتِہٖ وَلَکِنَّھُمَا اٰیَتَانِ مِنْ اٰیَات اللّٰہِ (وَفِیْ رِوَایَۃٍ یُخَوِّفُ بِھَا عِبَادَہٗ)۔)[ رواہ البخاری : کتاب الصلٰوۃ، باب قول النبی (ﷺ) ] ” سورج اور چاند کو کسی کی موت و زیست سے گر ہن نہیں لگتا بلکہ یہ تو اللہ تعالیٰ کی نشانیوں سے دو نشانیاں ہیں، ان کے ذریعہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو ڈراتا ہے۔“ مسائل : 1۔ سورج کو ضیاء اور چاند کو چاندنی اللہ تعالیٰ نے عطا کی ہے۔ 2۔ سورج اور چاند کی منازل اللہ تعالیٰ نے مقرر فرمائی ہیں۔ 3۔ چاند اور سورج کی گردش اس لیے مقرر کی گئی کہ لوگ اس سے ایام، ماہ اور سال کا حساب لگائیں۔ 4۔ اللہ تعالیٰ جاننے والوں کے لیے اپنی نشانیاں کھول کر بیان کرتا ہے۔ 5۔ رات اور دن کا مختلف ہونا اللہ کی نشانیوں میں سے ہیں۔ 6۔ آسمانوں و زمین کی تخلیق اللہ کی نشانیوں میں سے نشانیاں ہیں۔ تفسیر بالقرآن :لیل و نہار کی گردش اللہ تعالیٰ کی قدرت کی نشانیاں ہیں : 1۔ دن اور ات کے مختلف ہونے اور زمین و آسمان کی پیدائش میں نشانیاں ہیں۔ (یونس :6) 2۔ آسمانوں و زمین کی پیدائش، دن اور رات کی گردش، سمندر میں کشتیوں کے چلنے، آسمان سے بارش نازل ہونے، بارش سے زمین کو زندہ کرنے، چوپایوں کے پھیلنے، ہواؤں کے چلنے اور بادلوں کے مسخر ہونے میں نشانیاں ہیں۔ (البقرۃ :164) 3۔ آسمانوں و زمین کی پیدائش اور دن رات کے مختلف ہونے میں نشانیاں ہیں۔ (آل عمران :190) 4۔ رات اور دن کے مختلف ہونے، آسمان سے رزق اتارنے میں عقل والوں کے لیے نشانیاں ہیں۔ (الجاثیۃ:5)