لَقَدْ جَاءَكُمْ رَسُولٌ مِّنْ أَنفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ مَا عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُم بِالْمُؤْمِنِينَ رَءُوفٌ رَّحِيمٌ
(مسلمانو) تمہارے پاس (اللہ کا) ایک رسول آگیا ہے جو تم ہی میں سے ہے، تمہارا رنج و کلفت میں پڑنا اس پر بہت شاق گزرتا ہے، وہ تمہاری بھلائی کا بڑا ہی خواہشمند ہے، وہ مومنوں کے لیے شفقت رکھنے والا رحمت والا ہے۔
فہم القرآن : ربط کلام : منافقین کا بار بار بد عہدی کرنا، ہر موقع پر سازشیں کرنا اور نبی اکرم (ﷺ) کی مجالس میں آنکھوں آنکھوں میں ایک دوسرے کو اشارے کرنا۔ ایک سے ایک بڑھ کر بدتمیزی اور برا عمل تھا۔ اس کے باوجود نبی اکرم (ﷺ) ان کے ساتھ بردباری و درگزر کا مظاہرہ فرماتے رہے جس کی یہاں شاندار الفاظ میں تعریف کی گئی اور آپ کو خراج تحسین سے نوازا گیا ہے۔ جہاں تک مخلص مسلمانوں کا معاملہ ہے رسول کریم (ﷺ) ان کے ساتھ اس قدر کرم فرما اور خیر خواہ تھے کہ آپ اپنے ساتھیوں کی تکلیف کو ان سے بڑھ کر اپنی تکلیف سمجھتے اور صبح و شام اس فکر میں رہتے کہ لوگوں کو کس طرح اصلاح اور فلاح کے راستے پر گامزن کیا جائے۔ آپ (ﷺ) کے حلم اور بردباری کا عالم یہ تھا کہ آپ اپنے ساتھیوں کی غلطیوں سے صرف نظر فرماتے اور ان کی کوتاہیوں کو معاف کردیا کرتے تھے۔ جہاں تک آپ کی ہمدردی اور خیر خواہی کا تعلق ہے۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو طبعاً اور فطرتاً ہمدرد اور خیر خواہ پیدا فرمایا تھا۔ مزید یہ کہ آپ نے دنیا کی مشکلات اور مصائب کو براہ راست دیکھا اور اپنے آپ پر برداشت کیا تھا ابھی دنیا میں تشریف نہیں لائے تھے کہ والد گرامی کا سایہ سر سے اٹھ گیا۔ تقریباً چھ سال کے ہوئے تو والدہ ماجدہ مدینہ کے سفر کے دوران انتقال کر گئیں۔ آٹھ سال کے ہوئے تو مشفق اور مہربان دادا جناب عبدالمطلب دنیا سے کوچ کر گئے۔ اس طرح چھوٹی عمر میں آپ نے وہ صدمات برداشت کیے جس کے تصور سے کلیجہ دہل جاتا ہے۔ ان حالات میں جوں جوں عمر مبارک جوانی کے قریب پہنچی تو آپ (ﷺ) ہر وقت اس سوچ و بچار میں رہتے کہ لوگوں کی اصلاح اور فلاح کے لیے کون سا راستہ اختیار کرنا چاہیے۔ جب چالیس سال کے ہوئے تو حالت یہ ہوگئی کہ کئی کئی دن تک غار حرا میں بیٹھ کر سوچا کرتے کہ آخر یہ بگڑی ہوئی قوم کس طرح راہ راست پر آئے گی۔ ایک دن غار حرا میں اسی سوچ و بچار میں بیٹھے تھے۔ کہ اللہ کا آخری پیغام آپہنچا۔ جس کا آغاز اس طرح ہوا کہ اللہ کے نام سے ابتدا کیجیے جس نے انسان کو ایک لوتھڑے سے پیدا کیا ہے۔ (العلق : 1۔2) آپ جب یہ پیغام لے کر سوئے قوم آئے تو پھر تئیس سال تک اسی غم اور کام میں زندگی گزاردی۔ لوگوں کی اصلاح کی خاطر بڑے بڑے مصائب اٹھائے، مشکلات کا سامنا کیا، طائف میں پتھر کھائے یہاں تک کہ حق اور سچ کی خاطر گھر بار اور وطن چھوڑنا پڑا۔ مدینہ پہنچنے کے بعد منافقوں کی سازشوں اور کفار کے ساتھ بدر، احد، خندق، مکہ اور تبوک کے محاذوں پر معرکے ہوئے، عزیزو اقرباء کی قربانیاں پیش کیں، کاروبار اور ہر قسم کا نقصان اٹھایا مگر لوگوں کی خیر خواہی اور ان کے ساتھ ہمدردی کرنے میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہ کیا۔ آپ سراپا ہمدرد اور خیر خواہ تھے اس لیے اللہ تعالیٰ نے آپ کو رحمۃ للعالمین کے خطاب اور روف و رحیم کے القاب سے نوازا ہے۔ یہاں ہم آپ کی ہمدردی اور خیر خواہی کے تین واقعات کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔ ” حضرت عائشہ (رض) بیان کرتی ہیں کہ رسول محترم (ﷺ) کو وحی کی ابتدا نیند میں سچے خوابوں سے ہوئی۔ آپ جو بھی خواب دیکھتے وہ صبح کی روشنی کی مانند سامنے آجاتا۔ پھر آپ تنہائی پسند ہوگئے اور غار حرا میں تنہائی میں وقت گزارنے لگے۔ وہاں آپ عبادت میں مشغول رہتے۔ اپنے اہل وعیال کے پاس واپس آنے سے پہلے آپ کئی کئی راتیں وہاں گزارتے۔ اس عرصہ کے لیے سامان خورد ونوش ساتھ لے جاتے۔ سامان ختم ہونے پر حضرت خدیجہ (رض) کے پاس آتے۔ وہ پھر پہلے کی طرح سامان آپ کے ساتھ کر دیتیں۔ حتّٰی کہ غار حرا میں وحی کا نزول شروع ہوا۔ جبرائیل (علیہ السلام) تشریف لائے اور فرمایا ” پڑھیے“ آپ نے جواب دیا میں پڑھنا نہیں جانتا۔ آپ فرماتے ہیں کہ جبریل (علیہ السلام) نے مجھے پکڑ کراتنا دبایا کہ مجھے سخت تکلیف ہوئی۔ پھر اس نے مجھے چھوڑ دیا اور کہا ” پڑھیں“۔ آپ نے جواب دیا میں پڑھنا نہیں جانتا۔ پھر اس نے دوسری بار اسی طرح زور سے دبایا۔ جس پر میں نے سخت تکلیف محسوس کی۔ پھر چھوڑ دیا اور کہا ” پڑھیں“۔ میں نے جواب دیا میں پڑھنا نہیں جانتا۔ پھر اس نے مجھے دبوچ لیا اور تیسری بار زور سے دبایا، یہاں تک کہ مجھے بہت تکلیف کا سامنا کرنا پڑا۔ پھر اس نے مجھے چھوڑ دیا اور کہا ” پڑھیں! اپنے رب کے نام سے جس نے انسان کی تخلیق کی جمے ہوئے خون کے ایک لوتھڑے سے۔ پڑھیے اور آپ رب بڑا کریم ہے۔ جس نے قلم کے ذریعہ علم سکھایا۔ انسان کو وہ علم دیا جسے وہ نہیں جانتا تھا۔“ چنانچہ رسول اللہ (ﷺ) اس وحی کے ساتھ واپس لوٹے آپ کا دل گھبرا رہا تھا۔ آپ (ﷺ) حضرت خدیجہ (رض) کے پاس آئے اور ان سے فرمایا، مجھے کمبل اوڑھا دو۔ چنانچہ انہوں نے آپ کو کپڑا اوڑھا دیا یہاں تک آپ سے خوف کی کیفیت دور ہوگئی۔ پھر آپ نے حضرت خدیجہ (رض) کو سارا ماجرا کہہ سنایا اور فرمایا، مجھے اپنی جان کا خطرہ ہے۔ انہوں نے تسلی دی کہ ہرگز نہیں۔ اللہ کی قسم ! اللہ تعالیٰ آپ کو کبھی رسوا نہیں کرے گا۔ آپ صلۂ رحمی کرتے ہیں، سچی بات کہتے ہیں، دوسروں کے بوجھ اٹھاتے ہیں، محتاج کی خبر گیری کرتے ہیں، مہمان کو کھاناکھلاتے ہیں اور مصیبت زدہ اور ضرورت مند کی مدد کرتے ہیں۔ بعد ازاں خدیجہ (رض) آپ کو ورقہ بن نوفل کے پاس لے گئیں، جو خدیجہ (رض) کے چچا زاد بھائی تھے۔ انہوں نے ورقہ سے کہا، اے میرے چچا کے بیٹے! اپنے بھتیجے کا معاملہ سنیے۔ چنانچہ ورقہ نے آپ سے دریافت کیا، اے میرے بھتیجے! تجھے کیا نظر آتا ہے؟ رسول اللہ (ﷺ) نے اسے تمام واقعہ کہہ سنایا۔ ورقہ نے کہا، یہ تو وہی فرشتہ ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے موسیٰ (علیہ السلام) پر وحی دے کر بھیجتا تھا۔ اے کاش! میں تمہارے عہد نبوت میں جوان ہوتا اور کاش! میں اس وقت زندہ ہوتا جب تمہاری قوم تمہیں نکال دے گی۔ رسول اللہ نے پوچھا، کیا وہ مجھے نکال دیں گے؟ ورقہ نے کہا، ہاں ! کیوں کہ جب بھی کسی کو رسالت سے نوازا گیا تو اس کے ساتھ دشمنی کی گئی۔ اور اگر میں اس دن تک زندہ رہا، جب لوگ تمہیں نکالیں گے، تو میں تمہاری بھر پور معاونت کروں گا۔ اس کے بعد ورقہ بن نوفل زیادہ دیر زندہ نہ رہے اور آپ پر وحی کا سلسلہ کچھ عرصہ کے لیے منقطع رہا۔“ [ رواہ البخاری : باب کیف کان بدء الوحی] (عَنْ عُرْوَۃُ أَنَّ عَائِشَۃَ (رض) زَوْجَ النَّبِیِّ (ﷺ) حَدَّثَتْہٗ أَنَّہَا قَالَتْ للنَّبِیِّ (ﷺ) ہَلْ أَتَی عَلَیْکَ یَوْمٌ کَانَ أَشَدَّ مِنْ یَوْمِ أُحُدٍ قَالَ لَقَدْ لَقِیْتُ مِنْ قَوْمِکِ مَا لَقِیْتُ، وَکَانَ أَشَدُّ مَا لَقِیْتُ مِنْہُمْ یَوْمَ الْعَقَبَۃِ، إِذْ عَرَضْتُ نَفْسِیْ عَلَیْ ابْنِ عَبْدِ یَالِیْلَ بْنِ عَبْدِ کُلاَلٍ، فَلَمْ یُجِبْنِیْ إِلَی مَآ أَرَدْتُ، فَانْطَلَقْتُ وَأَنَا مَہْمُومٌ عَلٰی وَجْہِی، فَلَمْ أَسْتَفِقْ إِلاَّ وَأَنَا بِقَرْنِ الثَّعَالِبِ، فَرَفَعْتُ رَأْسِیْ، فَإِذَا أَنَا بِسَحَابَۃٍ قَدْ أَظَلَّتْنِی، فَنَظَرْتُ فَإِذَا فیہَا جِبْرِیلُ فَنَادَانِی فَقَالَ إِنَّ اللَّہَ قَدْ سَمِعَ قَوْلَ قَوْمِکَ لَکَ وَمَا رَدُّوا عَلَیْکَ، وَقَدْ بَعَثَ إِلَیْکَ مَلَکَ الْجِبَالِ لِتَأْمُرَہُ بِمَا شِئْتَ فیہِمْ، فَنَادَانِی مَلَکُ الْجِبَالِ، فَسَلَّمَ عَلَیَّ ثُمَّ قَالَ یَا مُحَمَّدُ، فَقَالَ ذَلِکَ فیمَا شِئْتَ، إِنْ شِئْتَ أَنْ أُطْبِقَ عَلَیْہِمِ الأَخْشَبَیْنِ، فَقَال النَّبِیُّ (ﷺ) بَلْ أَرْجُوْ أَنْ یُخْرِجَ اللَّہُ مِنْ أَصْلاَبِہِمْ مَنْ یَعْبُدُ اللَّہَ وَحْدَہُ لاَ یُشْرِکُ بِہِ شَیْئًا) [ رواہ البخاری : کتاب بدأ الخلق، باب اذا قال أحدکم آمین والملائکۃ فی السماء ] ” عروہ کہتے ہیں نبی (ﷺ) کی زوجہ حضرت عائشہ (رض) بیان کرتی ہیں۔ انہوں نے نبی (ﷺ) سے عرض کیا، کیا آپ پر احد سے بھی زیادہ سخت دن آیا ہے، آپ نے فرمایا عائشہ میں نے تیری قوم سے پایا ہے جو پایا ہے اور سب سے زیادہ سختی عقبہ والے دن پائی۔ جب میں نے اپنی دعوت ابن عبد یا لیل بن عبدکلال پر پیش کی۔ اس نے میری خواہش کے برعکس جواب دیا۔ میں انتہائی افسردہ چہرے کے ساتھ واپس ہوا۔ میرا غم ہلکا نہ ہوا تھا کہ میں قرن ثعا لب میں آگیا میں نے اپنا سر اٹھایا تو ایک بادل کو سایہ کیے ہوئے پایا میں نے دیکھا اس میں جبرائیل (علیہ السلام) تھے اس نے مجھے آواز دی اور کہا اللہ تعالیٰ نے آپ کی قوم کے جواب کو سن لیا ہے جو انہوں نے دیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کی طرف پہاڑوں کے فرشتے کو بھیجا ہے اگر آپ ان کو جو حکم دینا چاہیں دیں۔ مجھے پہاڑوں کے فرشتہ نے آواز دی اس نے مجھے سلام کہتے ہوئے کہا اے محمد (ﷺ) ! آپ ان کے متعلق جو کہنا چاہتے ہیں کہیں اگر آپ چاہتے ہیں تو میں ان پر دو پہاڑوں کو ملادوں۔ نبی (ﷺ) نے فرمایا میں امید کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ ان کی پشت سے ایسے لوگوں کو پیدا فرمائے گا جو ایک اللہ کی عبادت کرنے والے اور شرک نہ کرنے والے ہوں گے۔“ (ہِنْدَ بْنِ أبِیْ ہَالَۃَ یَصِفُ لَنَا رَسُوْلَ اللَّہِ (ﷺ) قَالَ ہِنْدٌ فِیْمَا قَالَ کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (ﷺ) مُتَوَاصِلُ الأحْزَانِ، دَائِمُ الْفَکْرَۃِ، لَیْسَتْ لَہٗ رَاحَۃٌ، وَلاَ یَتَکَلَّمُ فَیْ غَیْرِحَاجَۃٍ، طَوِیْلُ السُّکُوْتِ، یَفْتَتِحُ الْکَلَامِ وَیَخْتِمُہٗ بَأَشْدَاقِہِ لِا بِأطْرَافِ فَمِہِ وَیَتَکَلَّمُ بِجَوَامِعِ الْکَلَمِ، فَصْلاً، لَا فُضُوْلَ فِیْہِ وَلَا تَقْصِیْرِ، دَمَثاً لَیْسَ بالجَافِیْ وَلَا بالْمَہِیْنِ، یُعَظِّمْ النِعْمَۃِ وَإنْ دَقَتْ، لَایَذُمُّ شَیْئاً، وَلَمْ یَکُنْ یَذُمُّ ذَوَاقاً مَا یُطْعِمُ وَلَا یَمْدَحُہُ، وَلَا یُقَامُ لِغَضَبِہِ إذَا تَعَرَّضَ لِلْحَقِّ بِشَیْءٍ حَتّٰی یَنْتَصِرُ لَہٗ، لَا یَغْضِبُ لِنَفْسِہِ، وِلَا یَنْتَصِرُ لَہَا سَمَاحَۃً وَإذَا أشَارَ أشَارَ بِکَفِّہِ کُلِّہَا، وَإذَا تَعَجَّبَ قَلْبُہَا، وَإذَا غَضِبَ أعْرَضَ وَأشَاحَ، وَإذَا فَرحِ غَضَّ طَرْفَہٗ، جَلَّ ضِحْکَہٗ التَبَسُّمُ، وَیَفْتِرَ عَنْ مَثَل حَبِّ الغَمَامِ) [ الرحیق المختوم] ” ہند بن ابی ہالہ رسول اللہ (ﷺ) کے اوصاف بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں رسول محترم (ﷺ) پیہم غموں سے دوچار تھے، غور و فکر کرنے والے تھے، آرام طلب نہیں تھے بغیر ضرورت کے کلام نہ کرتے کم گو، آپ کلام شروع کرتے اور اس کا اختتام جبڑوں کے ساتھ کرتے، زبان کی نوک سے نہیں اور آپ جامع گفتگو کرتے مناسب وقفے کے ساتھ اس میں فضول اور ناقص گفتگو نہ ہوتی، نرم خو تھے، جفاجو اور حقیر نہ تھے، آپ چھوٹی نعمت کو بھی بڑا سمجھتے، کسی چیز کی مذمت نہ کرتے اور آپ کسی کھانے کے ذائقے کی مذمت نہ کرتے، نہ اسے کھاتے اور نہ اس کی تعریف کرتے، اور آپ غضب ناک نہ ہوتے مگر جب حق کا معاملہ آتا تو آپ بدلہ لیتے، اپنے لیے غصے میں نہ آتے اور نہ بدلہ لیتے، نرمی فرماتے اور جب اشارہ کرتے تو پورے ہاتھ سے اشارہ کرتے۔ اور جب تعجب کرتے تو اسے الٹ دیتے اور جب ناراض ہوتے اعراض کرتے اور پھر جاتے اور جب خوش ہوتے تو اپنی نگاہ کو جھکالیتے، آپ کا ہنسنا تبسم سے ظاہر ہوتا جب ختم ہوجاتا جیسے بادل چھٹ جاتا ہے۔“ مسائل : 1۔ رسول اکرم (ﷺ) اپنی امت کے لیے رحمت بنا کر بھیجے گئے۔ 2۔ رسول معظم (ﷺ) اپنی امت کے لیے بہت فکر مند رہتے تھے۔ 3۔ رسول معظم (ﷺ) نہایت اعلیٰ اخلاق کے مالک تھے۔ 4۔ رسول کریم (ﷺ) کو اپنے ساتھیوں کی تکلیف بڑی گراں گزرتی تھی۔ 5۔ رسول محترم (ﷺ) اپنے ساتھیوں کے ساتھ نرمی کرنے، رحم فرمانے والے تھے۔ تفسیر بالقرآن : نبی اکرم (ﷺ) کے اوصاف حمیدہ کی ایک جھلک : 1۔ نبی اکرم مومنوں کے ساتھ شفیق و مہربان ہیں۔ (التوبۃ:128) 2۔ ہم نے آپ کا ذکر بلند کیا ہے۔ (الانشراح :4) 3۔ ہم نے آپ کو جہان والوں کے لیے رحمت بنا کر بھیجا ہے۔ (الانبیاء :107) 4۔ ہم نے آپ کو جہان والوں کے لیے بشیر اور نذیر بنا کر بھیجا ہے۔ (سبا :28) 5۔ ہم نے آپ کو دعوت دینے والا اور روشن چراغ بنا کر بھیجا ہے۔ (الاحزاب :46) 6۔ آپ تمام انسانوں کے نبی ہیں (الاعراف :158) 7۔ آپ خا تم المرسلین نبی ہیں۔ ( الاحزاب :40) 8۔ آپ رسولوں میں سے ہیں، اور آپ صراط مستقیم پر گامزن ہیں۔ (یٰس : 3۔4)