مَا كَانَ لِأَهْلِ الْمَدِينَةِ وَمَنْ حَوْلَهُم مِّنَ الْأَعْرَابِ أَن يَتَخَلَّفُوا عَن رَّسُولِ اللَّهِ وَلَا يَرْغَبُوا بِأَنفُسِهِمْ عَن نَّفْسِهِ ۚ ذَٰلِكَ بِأَنَّهُمْ لَا يُصِيبُهُمْ ظَمَأٌ وَلَا نَصَبٌ وَلَا مَخْمَصَةٌ فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَلَا يَطَئُونَ مَوْطِئًا يَغِيظُ الْكُفَّارَ وَلَا يَنَالُونَ مِنْ عَدُوٍّ نَّيْلًا إِلَّا كُتِبَ لَهُم بِهِ عَمَلٌ صَالِحٌ ۚ إِنَّ اللَّهَ لَا يُضِيعُ أَجْرَ الْمُحْسِنِينَ
مدینہ کے باشندوں کو اور ان اعرابیوں کو جو اس کے اطراف میں بستے ہیں لائق نہ تھا کہ اللہ کے رسول کا (دفاع میں) ساتھ نہ دیں اور پیچھے رہ جائیں اور نہ یہ بات لائق تھی کہ اس کی جان کی پروا نہ کر کے محض اپنی جانوں کی فکر میں پڑجائیں، اس لیے کہ اللہ کی راہ میں انہیں جو مصیبت بھی پیش آتی وہ ان کے لیے ایک نیک عمل شمار کی جاتی، ہر پیاس جو وہ جھیلتے ہر محنت جو وہ اٹھاتے ہر مخمصہ جس میں وہ پڑتے ہر وہ قدم جو وہاں چلتا جہاں چلنا کاروں کے لیے غیظ و غضب کا باعث ہوتا اور وہ ہر وہ چیز جو وہ (مال غنیمت میں) دشمنوں سے پاتے (یہ سب کچھ ان کے لیے عمل نیک ثابت ہوتا، کیونکہ) اللہ نیک کرداروں کا اجر کبھی ضائع نہیں کرتا۔
فہم القرآن : (آیت 120 سے 121) ربط کلام : غزوہ تبوک سے پیچھے رہنے والوں کی توبہ قبول کرتے ہوئے آئندہ کے لیے مسلمانوں کو ہدایت فرمائی کہ اب کے بعد ہرگز ایسا نہیں ہونا چاہیے کہ رسول معظم (ﷺ) جہاد کا حکم دیں، یا بنفس نفیس نکلیں تو اے مسلمانو! تمھارے لیے جائز نہیں کہ تم آپ سے پیچھے بیٹھے رہو۔ اس آیت سے ثابت ہوتا ہے کہ جب خلیفہ وقت جہاد کا اعلان عام کردے تو پھر جہاد فرض عین ہوتا جاتا ہے۔ اس سے پیچھے رہنا سنگین ترین جرم ہوگا۔ جس کی خلیفۂ وقت کوئی بھی سزا تجویز کرسکتا ہے۔ جس طرح نبی معظم (ﷺ) نے تبوک سے پیچھے رہنے والوں کی تادیب کی تھی۔ اس لیے حکم صادر ہوا کہ جب نبی معظم جہاد کے لیے نکلیں تو کسی شہری اور دیہاتی کو پیچھے نہیں رہنا چاہیے۔ اور نہ ہی انھیں اپنے آپ کو نبی (ﷺ) کی ذات سے مقدم سمجھنا چاہیے۔ اس سے یہ بات بھی ثابت ہوتی ہے کہ بعض معرکے ایسے ہونے چاہییں جن میں مسلمانوں کے حکمران کو کمانڈر انچیف کا کردار ادا کرنا چاہیے۔ تاکہ قوم میں انتہا درجے کا جوش و جذبہ پیدا ہو۔ اس کے ساتھ جہاد کی مشکلات گنوائیں ہیں تاکہ مجاہد ذھنی، جسمانی طور پر اور ہر طرح کے اسلحہ سے لیس ہو کر میدان کارزار میں اتریں۔ درج ذیل مشکلات میں سے کوئی ایک یا بیک وقت تمام کی تمام مشکلات پیش آسکتی ہیں۔ بھوک، پیاس، تھکان اور ہر قسم کی جسمانی مشقت، جنگ میں مشکل مراحل کا آنا، دشمن کے ساتھ آمنا سامنا اور ہر وقت ٹکراؤ کا خطرہ، گھمسان کا آن پڑنا۔ مالی وسائل کی کمی۔ ان مشکلات کے باوجود جہاد کرنا ہے اس کے بدلے مجاہد کو ہر قدم پر بہترین اجر سے نوازا جائے گا۔ اللہ تعالیٰ چھوٹی سے چھوٹی نیکی اور خدمت کا اجر ضائع نہیں کرتا۔ (عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ (رض) عَنِ النَّبِیِّ (ﷺ) قَالَ لَغَدْوَۃٌ فِیْ سَبِیْلِ اللَّہِ أَوْ رَوْحَۃٌ خَیْرٌ مِنَ الدُّنْیَا وَمَا فِیْہَا) [ رواہ البخاری : کتاب الجہاد، باب الغدوۃ والروحۃ فی سبیل اللہ] ” حضرت انس بن مالک (رض) نبی (ﷺ) سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا صبح یا شام اللہ تعالیٰ کی راہ میں لگانا دنیا و مافیھا سے بہتر ہے۔“ (عن عَبْد الرَّحْمَنِ بن جَبْرٍ (رض) أَنَّ رَسُول اللَّہِ (ﷺ) قَالَ مَا اغْبَرَّتْ قَدَمَا عَبْدٍ فِی سَبِیل اللَّہِ فَتَمَسَّہُ النَّارُ) [ رواہ البخاری : کتاب الجہاد والسیر، باب من اغبرت قدماہ فی سبیل اللّٰہ] ” حضرت عبدالرحمن بن جبر (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (ﷺ) نے فرمایا جو قدم اللہ تعالیٰ کی راہ میں غبار آلود ہوئے ہوں انہیں آگ نہیں چھوئے گی۔“ (عَنْ الْبَرَاءِ یَقُوْلُ أَتَی النَّبِیّ (ﷺ) رَجُلٌ مُقَنَّعٌ بالْحَدِیْدِ فَقَالَ یَا رَسُوْلَ اللَّہِ أُقَاتِلُ وَأُسْلِمُ قَالَ أَسْلِمْ ثُمَّ قَاتِلْ فَأَسْلَمَ ثُمَّ قَاتَلَ، فَقُتِلَ، فَقَالَ رَسُوْلُ اللَّہِ (ﷺ) عَمِلَ قَلِیلاً وَأُجِرَ کَثِیرًا) [ رواہ البخاری : کتاب الجہاد، باب عمل صالح قبل القتال] ” حضرت براء (رض) بیان کرتے ہیں ایک زرہ پوش آدمی رسول اللہ (ﷺ) کے پاس آیا اس نے کہا اے اللہ کے رسول ! میں لڑائی کروں اور اسلام لاؤں آپ نے فرمایا اسلام لاؤ، پھر لڑائی کرو، وہ اسلام لایا، پھر لڑائی کی پس وہ شہید ہوگیا آپ نے فرمایا اس نے عمل تھوڑا کیا ہے اور اجر زیادہ پا گیا۔“ (عَنْ اَبِیْ ہُرَیْرَۃَ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (ﷺ) مَثَلُ الْمُجَاہِدِ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ کَمَثَلِ الصَّائِمِ الْقَائِمِ الْقَانِتِ بِاٰیٰتِ اللّٰہِ لَا یَفْتُرُ مِنْ صِیَامٍ وَّلَا صَلٰوۃٍ حَتّٰی یَرْجِعَ الْمُجَاہِدُ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ) [ رواہ مسلم : کتاب الامارۃ، باب فضل الشہادۃ فی سبیل اللّٰہ] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم (ﷺ) نے فرمایا، اللہ کے راستے میں جہاد کرنے والا اس شخص کی طرح ہے، جو مسلسل روزے رکھتا ہے اور اللہ کی آیات کے ساتھ قیام کرتا ہے۔ نفلی روزے اور نماز میں کوتاہی نہیں کرتا۔ حتی کہ اللہ کے راستے میں جہاد کرنے والا مجاہد واپس لوٹ آئے۔“ مسائل : 1۔ مسلمان جو نیکی کا کام کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ اسے بہترین اجردیتا ہے۔ 2۔ اللہ کی راہ میں بھوک پیاس برداشت کرنا اور کفار کے خلاف جہاد کرنا اجر عظیم کا باعث ہے۔ تفسیر بالقرآن : اللہ تعالیٰ بہترین اجر دینے والا ہے : 1۔ اللہ نیک لوگوں کو ان کے اعمال کا بہترین صلہ دے گا۔ (التوبۃ:121) 2۔ اللہ صابر لوگوں کو ان کے صبر کی بہترین جزا دے گا۔ (النحل :96) 3۔ اللہ نیکوں کو ان کے اعمال سے بہتر جزا دے گا۔ (العنکبوت :7) 4۔ اللہ اپنے فضل سے مزیداجر عطا کرے گا۔ (النور ؛38) 5۔ ایمان لانے والوں، نماز قائم کرنے والوں اور زکٰوۃ دینے والوں کے لیے اللہ کے ہاں اجر ہے۔ (البقرۃ:277) 6۔ ہم ان کے اعمال سے انہیں بہتر صلہ عطاکریں گے۔ (النحل :97) 7۔ ہم ایمان لانے والوں کو ان کا اجر دیں گے۔ (الحدید :27) 8۔ صبر کرنے والوں کو بغیر حساب کے اجر دیا جائے گا۔ (الزمر :10)