إِنَّ اللَّهَ اشْتَرَىٰ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ أَنفُسَهُمْ وَأَمْوَالَهُم بِأَنَّ لَهُمُ الْجَنَّةَ ۚ يُقَاتِلُونَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ فَيَقْتُلُونَ وَيُقْتَلُونَ ۖ وَعْدًا عَلَيْهِ حَقًّا فِي التَّوْرَاةِ وَالْإِنجِيلِ وَالْقُرْآنِ ۚ وَمَنْ أَوْفَىٰ بِعَهْدِهِ مِنَ اللَّهِ ۚ فَاسْتَبْشِرُوا بِبَيْعِكُمُ الَّذِي بَايَعْتُم بِهِ ۚ وَذَٰلِكَ هُوَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ
بلاشبہ اللہ نے مومنوں سے ان کی جانیں بھی خرید لیں اور ان کا مال بھی، اور اس قیمت پر خرید لیں کہ ان کے لیے بہشت (کی جاودانی زندگی) ہو، وہ (کسی دنیوی مقصد کی راہ میں نہیں بلکہ) اللہ کی راہ میں جنگ کرتے ہیں، پس مارتے بھی ہیں اور مرتے بھی ہیں، یہ وعدہ اللہ کے ذمہ ہوچکا (یعنی اس نے ایسا ہی قانون ٹھہرا دیا) تورات انجیل اور قرآن (تینوں کتابوں) میں (یکساں طور پر) اس کا اعلان ہے اور اللہ سے بڑھ کر کون ہے جو اپنا عہد پورا کرنے والا ہو؟ پس (مسلمانو) اپنے اس سودے پر جو تم نے اللہ سے چکایا خوشیاں مناؤ اور یہی ہے جو بڑی سی بڑی فیروز مندی ہے۔
فہم القرآن : ربط کلام : منافق اور مخلص مسلمان کے کردار میں فرق۔ منافق کفرو نفاق چھوڑنے کے لیے تیار نہیں ہوتا جبکہ مخلص مسلمان اپنے رب کی رضا جوئی کے لیے اپنی جان کو ہتھیلی پر لیے پھرتا ہے۔ یہاں نہایت ہی اچھوتے انداز میں منافق اور مسلمان کے کردار کا موازنہ پیش کیا جارہا ہے۔ منافق دنیا کے لیے اپنا ایمان اور غیرت داؤ پر لگا دیتا ہے اس کے مقابلے میں مومن اپنے خالق و مالک کی رضا کی خاطر مال، عزت و اقبال، اقتدار اور اختیار یہاں تک کہ اپنی جان بھی قربان کردیتا ہے۔ مومن کے اسی کردار کی تعریف کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مومنوں سے ان کی جانوں اور مالوں کے عوض جنت کا سودا کر رکھا ہے۔ مومن اس کے حصول کے لیے ہر چیز قربان کرنے اور بڑی سے بڑی دشمنی مول لینے کے لیے تیار ہوتے ہیں۔ یہاں تک کہ وہ اللہ کے حکم پر اللہ کے دشمنوں کو قتل کرتے ہیں اور ان کے ہاتھوں شہید بھی ہوتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے جہاد اور ایثار کے بدلے جنت دینے کا وعدہ کر رکھا ہے۔ جس کا تذکرہ تورات، انجیل اور قرآن مجید میں پایا جاتا ہے۔ یہ اللہ کا وعدہ ہے یاد رکھو کہ اللہ تعالیٰ سے بڑھ کر کوئی اپنے وعدہ پورا کرنے والا نہیں ہے۔ لہٰذا اے مجاہدو اور مومنو! اس سوداگری پر خوش ہوجاؤ۔ یہی سب سے بڑی کامیابی ہے۔ دنیا میں اس کامیابی کا صلہ یہ ہے کہ اگر مسلمان کامیاب ہوں تو نہ صرف اللہ تعالیٰ کا دین سر بلند ہوتا ہے بلکہ مسلمانوں کی عزت و اقبال میں اضافہ اور انہیں کفار پر غلبہ اور اقتدار حاصل ہوتا ہے۔ آخرت میں غازیوں اور شہیدوں کو اس قدر اعلی مقام پر فائز کیا جائے گا کہ جنتی بھی ان کی طرف حسرت کی نگاہ سے دیکھا کریں گے امام قرطبی (رض) نے اپنی تفسیر میں نبی اکرم (ﷺ) کے ہاتھ پر انصار کی بیعت عقبہ کا ذکر کرتے ہوئے نقل کیا ہے کہ جب انصار کا وفد حج کے موقع پر بیعت کررہا تھا۔ عقبہ پہاڑ کے حصہ کو کہا جاتا ہے یہاں عقبہ سے مراد منیٰ میں جمرہ عقبہ کے ساتھ پہاڑ کا وہ حصہ جہاں نبوت کے گیا رہویں سال چھ آدمیوں نے بیعت کی تھی جیسے بیعت عقبہ کہا جاتا ہے۔ اس میں حضرت عبداللہ بن رواحہ (رض) نے نبی کریم (ﷺ) سے عرض کی کہ اللہ کے رسول ہمیں اپنی بیعت کی شرائط بتلائیں آپ نے فرمایا اللہ کے لیے یہ عہد کرو کہ صرف اسی کی عبادت کرو گے اس کے ساتھ کسی کو شریک نہیں بناؤ گے اور میری حفاظت اس طرح کرو گے جس طرح اپنے مال وجان کی کرتے ہو۔ ابن رواحہ نے عرض کی کہ اللہ کے رسول ہمیں اس کے بدلے میں کیا ملے گا؟ آپ (ﷺ) نے فرمایا کہ تمہیں اس کے بدلے اللہ جنت عطا فرمائے گا یہ سنتے ہی انصار نے بیک زبان ہو کر کہا کہ ہمیں یہ سودا منظور ہے ہم جیتے جی یہ بیع ٹوٹنے نہیں دیں گے۔ امام رازی (رض) نے یہاں ایک خاص نقطہ اٹھایا ہے۔ فرماتے ہیں کہ چیز وہ خریدی جاتی ہے جو خریدار کے پاس نہ ہو اللہ تعالیٰ تو ہر چیز کا خالق اور مالک ہے پھر خریداری کا کیا معنی؟ امام محترم (رض) خود ہی اس کا جواب دیتے ہیں کہ یہ اللہ تعالیٰ کی کرم نوازی ہے کہ مومن کو دی ہوئی چیز اس سے لیتے ہوئے بھی اس کا بدلہ عنایت کرتا ہے۔ (عَنْ اَنَسٍ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (ﷺ) مَا مِنْ اَحَدٍ یَدْخُلُ الْجَنَّۃَ یُحِبُّ اَنْ یَّرْجِعَ اِلَی الدُّنْیَا وَلَہٗ مَا فِی الْاَرْضِ مِنْ شَیْئٍ اِلَّا الشَّھِیْدُ یَتَمَنّٰی اَنْ یَّرْجِعَ اِلَی الدُّنیَا فیُقْتَلَ عَشْرَ مَرَّاتٍ لِمَا یَرٰی مِنَ الْکَرَامَۃِ)[ رواہ مسلم : کتاب الامارۃ، باب فضل الشھادۃ فی سبیل اللّٰہ] ” حضرت انس (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول مکرم (ﷺ) نے فرمایا، جنت میں داخل ہونے کے بعد کوئی بھی شخص دوبارہ دنیا میں آنا پسند نہیں کرے گا۔ اگرچہ اسے دنیاکی تمام چیزیں بھی دی جائیں۔ مگر شہید آرزو کرے گا کہ وہ دنیا میں جائے اور دس بار شہید کیا جائے۔ کیونکہ وہ عزت و شرف دیکھ چکا ہوتا ہے۔“ (أول ما یہراق من دم الشہید یغفر لہ ذنبہ کلہ إلا الدین )[ حدیث رقم : 2578، فی صحیح الجامع ] ” پہلے قطرہ خون سے شہید کے قرض کے سوا سب گناہ معاف کردیے جاتے ہیں۔“ (عَنْ سَلْمَانَ الْفَارِسِیِّ قَالَ سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ (ﷺ) یَقُوْلُ رِبَاطُ یَوْمٍ وَلَیْلَۃٍ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ خَیْرٌ مِّنْ صِیَامِ شَہْرٍ وَّ قِیَامِہٖ وَاِنْ مَّاتَ جَرٰی عَلَیْہِ عَمَلُہٗ الَّذِیْ کَانَ یَعْمَلُہٗ وَاُجْرِیَ عَلَیْہِ رِزْقُہٗ وَاَمِنَ الْفَتَّانَ) [ رواہ مسلم : باب فضل الرباط فی سبیل اللہ] ” حضرت سلمان فارسی (رض) بیان کرتے ہیں میں نے نبی گرامی (ﷺ) سے سنا کہ آپ فرمارہے تھے اللہ کے راستے میں ایک دن اور رات کا پہرہ دینا ایک مہینہ کے روزوں اور قیام سے بہتر ہے اگر وہ فوت ہوجائے تو اس کا عمل برابر جاری رہتا ہے اسے رزق دیا جاتا ہے اور وہ قبرکے فتنہ سے محفوظ رہتا ہے۔“ مسائل :1۔ اللہ تعالیٰ نے جنت کے بدلے مومنوں کی جانوں اور مالوں کو خرید لیا ہے۔ 2۔ اللہ کے ساتھ سودا کرنے والوں کو عظیم خوشخبری دی گئی ہے۔ 3۔ انسان کی جان اور مال اللہ تعالیٰ کی امانت ہے۔ 4۔ اللہ کے راستے میں قتال کرنا اللہ تعالیٰ سے تجارت کرنا ہے۔ 5۔ اللہ تعالیٰ مومنین کی آزمائش کرتا ہے۔ تفسیر بالقرآن :مجاہدین کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے وعدے : 1۔ مجاہدین کے ساتھ اللہ نے جنت کا وعدہ فرمایا ہے۔ (التوبۃ:111) 2۔ مومنین میں سے مجاہد اور غیر مجاہد برابر نہیں ہوسکتے۔ (النساء :95) 3۔ اللہ نے مجاہدین کو بیٹھنے والوں پر فضیلت دی ہے۔ (النساء :95) 4۔ اللہ کی راہ میں جہاد کرنے والے اللہ کی رحمت کے امید وار ہیں۔ (البقرۃ:218) 5۔ اللہ کی راہ میں مال و جان سے جہاد کرنے والوں کے لیے اچھائیاں اور کامیابی ہے۔ (التوبۃ:88) 6۔ اللہ نے مجاہدین کے ساتھ بلند درجات کا وعدہ فرمایا ہے۔ (النساء :96) 7۔ ایمان لانے والوں، ہجرت کرنے والوں اور اللہ کی راہ میں جہاد کرنے والوں کے لیے مغفرت اور رزق کریم ہے۔ (الانفال :74)