وَإِذْ يَرْفَعُ إِبْرَاهِيمُ الْقَوَاعِدَ مِنَ الْبَيْتِ وَإِسْمَاعِيلُ رَبَّنَا تَقَبَّلْ مِنَّا ۖ إِنَّكَ أَنتَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ
اور (پھر دیکھو وہ کیسا عظیم الشان اور انقلاب انگیز وقت تھا) جب ابراہیم خانہ کعبہ کی نیو ڈال رہا تھا اور اس معیل بھی اس کے ساتھ شریک تھا (ان کے ہاتھ پتھر چن رہے تھے اور دل و زبان پر یہ دعا طاری تھی) اے پروردگار ! ہمارا یہ عمل تیرے حضور قبول ہو ! بلاشبہ تو ہی ہے جو دعاؤں کا سننے والا اور (مصالح عالم کا) جاننے والا ہے
فہم القرآن : (آیت 127 سے 128) ربط کلام : حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اور حضرت اسماعیل (علیہ السلام) کا بانی کعبہ ہونے کا مزید ثبوت کیونکہ باقاعدہ بیت اللہ کا حج انہی کے زمانے سے شروع ہوا اور انہی پر مناسک حج اتارے گئے تھے۔ تاریخ عالم میں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو یہ بھی اعزاز حاصل ہے کہ وہ بانئ کعبہ کے نام سے مشہور ہیں اس اعزاز پر فخر کرنے کی بجائے اپنے رب کے سامنے حضور قلب اور عجز کے ساتھ فریاد کر رہے ہیں اے رب کریم! تیرے گھر کی تولیّت اور تعمیر محض تیرے فضل و کرم کا نتیجہ ہے۔ ورنہ ہماری کیا حیثیت کہ ہم تیرے گھر کی تعمیر اور خدمت کا اعزاز پائیں۔ ہماری التجا ہے کہ اسے دنیا میں سکون کا گہوارہ‘ مرکزہدایت اور لوگوں کی عقیدت و احترام کا مرجع بنادے اور ہماری طرف سے دنیا و آخرت میں یہ معمولی اور ناچیز محنت تیرے حضور شرف قبولیت پائے۔ نیکی کا حقیقی معیار اور مقام یہ ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے حضور منظور ہوجائے۔ تکمیل کعبہ کے بعد عظیم باپ اور اس کے کریم بیٹے نے مل کر یہ دعائیں بھی کیں کہ بارِ الٰہ! ہمیں ہمیشہ اپنا تابع فرمان رکھنا اور ہماری اولادبھی آپ کی تابع فرمان رہے تاکہ ہمارے بعد اس مشن کی پشتیبانی کرتے رہیں اور یہ سلسلۂ ہدایت قیامت تک قائم و دائم رہے۔ اس کے ساتھ ہی انہوں نے بیت اللہ کی حاضری کے آداب اور حج کے مناسک کی راہنمائی کے لیے درخواست پیش کرتے ہوئے یہ بھی فریاد کی کہ اے ہمارے خالق و مالک ! ہم پر ہمیشہ اپنے کرم کی توجہ فرماناکیونکہ تیری نظر کرم اور مہربانی سے ہی ہماری خطائیں معاف اور دنیاوآخرت میں سرخروئی حاصل ہوگی۔ بے شک آپ توبہ قبول کرنے والے اور نہایت مہربان ہیں۔ تاریخ کعبۃ اللہ : ﴿إِنَّ اَوَّلَ بَیْتٍ وُّضِعَ للنَّاسِ لَلَّذِیْ بِبَکَّۃَ مُبٰرَکًاوَّ ھُدًی لِّلْعٰلَمِیْنَ﴾ [ آل عمران :96] ” بے شک سب سے پہلی عبادت گاہ جو انسانوں کے لیے تعمیر ہوئی۔ وہ مکہ مکرمہ میں ہے اس کو خیر وبرکت دی گئی ہے اور اہل دنیا کے لیے مرکز ہدایت بنایا گیا ہے۔“ حافظ ابن حجر عسقلانی {رض}نے فتح الباری شرح جامع صحیح بخاری میں ایک روایت ذکر کی ہے جس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ بیت اللہ کی سب سے پہلی اساس حضرت آدم (علیہ السلام) کے ہاتھوں رکھی گئی اور اللہ کے فرشتوں نے ان کو اس جگہ کی نشاندہی کی پھر طوفان نوح اور ہزاروں سال کے حوادث نے اس کو بے نشان کر دیاتھا۔ (عَنْ عَبْد اللَّہ بن عَمْرو {رض}مَرْفُوعًا : بَعَثَ اللَّہ جِبْرِیل إِلَی آدَم فَأَمَرَہُ بِبِنَاءِ الْبَیْت فَبَنَاہُ آدَم، ثُمَّ أَمَرَہُ بالطَّوَافِ بِہِ وَقِیلَ لَہُ أَنْتَ أَوَّل النَّاس وَہَذَا أَوَّل بَیْت وُضِعَ للنَّاسِ ) [ شرح فتح الباری : ج 10، ص146] ” حضرت عبداللہ بن عمرو بیان مرفوع روایت بیان کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت جبرائیل (علیہ السلام) کو آدم (علیہ السلام) کے پاس بھیجا اور انہیں بیت اللہ بنانے کا حکم دیا۔ حضرت آدم (علیہ السلام) نے بیت اللہ کی تعمیر کی، پھر انہیں طواف کا حکم ہوا اور ان سے کہا گیا تو لوگوں میں سے سب سے پہلا ہے اور یہ پہلا گھر ہے جو لوگوں کے لیے تعمیر کیا گیا ہے۔“ مسائل : 1۔ نیکی قبول ہونے کی دعا کرنا چاہیے۔ 2۔ اللہ تعالیٰ نیتوں کو جانتا اور ہر بات کو سننے والا ہے۔ 3۔ اپنے اور اولاد کے لیے مسلمان رہنے کی دعا کرتے رہنا چاہیے۔ 4۔ اللہ تعالیٰ سے حج کی توفیق مانگنا چاہیے۔ 5۔ اللہ تعالیٰ تو بہ قبول کرنے والا، نہایت ہی شفیق و رحیم ہے۔ تفسیر بالقرآن : بیت اللہ کی فضیلت : 1۔ بیت اللہ کی نشاندہی اللہ تعالیٰ نے فرمائی۔ (الحج :26) 2۔ دنیا میں سب سے پہلے تعمیر ہونے والا گھر بیت اللہ ہے۔ (آل عمران :96) 3۔ بیت اللہ کو ابراہیم و اسماعیل {علیہ السلام}نے تعمیر کیا۔ (البقرۃ:127) 4۔ بیت اللہ کی زیارت ہر صاحب استطاعت پر فرض ہے۔ (آل عمران :97)