خُذْ مِنْ أَمْوَالِهِمْ صَدَقَةً تُطَهِّرُهُمْ وَتُزَكِّيهِم بِهَا وَصَلِّ عَلَيْهِمْ ۖ إِنَّ صَلَاتَكَ سَكَنٌ لَّهُمْ ۗ وَاللَّهُ سَمِيعٌ عَلِيمٌ
(اے پیغمبر) ان لوگوں کے مال سے صدقات قبول کرلو، تم قبول کر کے انہیں (بخل و طمع کی برائیوں سے) پاک اور (دل کی نیکیوں کی ترقی سے) تربیت یافتہ کردو، نیز ان کے لیے دعائے خیر کرو، بلا شبہ تمہاری دعا ان کے دلوں کے لیے راحت و سکون ہے، اور اللہ (دعائیں) سننے والا اور (سب کچھ) جاننے والا ہے۔
فہم القرآن : (آیت 103 سے 104) ربط کلام : چھپے ہوئے منافقوں کے بیان کے بعد ان مسلمانوں کا ذکر جو معقول عذر نہ رکھنے کے باوجود غزوہ تبوک سے پیچھے رہ گئے تھے۔ نیز اس میں بھی اشارہ پایا جاتا ہے کہ اگر منافق بھی اخلاص کے ساتھ توبہ اور صدقہ کریں تو اللہ تعالیٰ ان کی توبہ قبول کرنے اور صدقہ منظور فرمانے والا ہے۔ اس سے پہلے منافقوں کے گھناؤنے کردار اور مخلص مسلمانوں کے درجات اور مقام کا ذکر فرمایا۔ ان کے بعد عملی منافقوں کو بخشش کی امید دلانے کے بعد ان مسلمانوں کا ذکر شروع ہوتا ہے۔ جنہوں نے تبوک کے موقع پر سستی کا مظاہرہ کیا تھا۔ چھپے ہوئے منافقوں کے بیان کے معاً بعد سستی کے مرتکب حضرات کا ذکر ایک طرح کی سرزنش ہے مزید یہ کہ انھیں دوسرے کہہ کر پکارا گیا ہے۔ جس میں واضح طور پر بیگانگی کا تصور پایا جاتا ہے۔ لیکن یہ لوگ اپنے ایمان میں نہایت مخلص تھے اور اسلام لانے کے بعد ان کا کردار بےداغ تھا۔ محض بشری سستی کی بنا پر عساکر اسلام سے پیچھے رہ گئے تھے۔ اس بنا پر انھوں نے جھوٹے عذر بہانے بنانے کی بجائے اپنی غلطی کا اعتراف کیا۔ اور خودہی اپنی سزا تجویز کی کہ اپنے آپ کو مسجد کے ستونوں سے جکڑ لیا۔ کہ جب تک نبی کریم (ﷺ) ہمیں نہ کھولیں تادم مرگ اسی طرح اپنے آپ کو جکڑے رکھیں گے۔ جن کے بارے میں فرمایا گیا ہے کہ ان کے نیک اعمال بھی ہیں اور برے بھی۔ برے اعمال سے مراد جہاد کا حکم سننے کے باوجود سستی دکھانا یہاں تک کہ لشکر اسلام سے پیچھے رہ جانا اور پیچھے رہنے والے منافقوں کی تقویت کا باعث بننا۔ تاہم اپنے ایمان میں مخلص تھے۔ اس لیے اعلان ہوا۔ کہ بہت جلد اللہ تعالیٰ ان پر مہربان ہوگا۔ چنانچہ چند دنوں کے بعد ان کی توبہ قبول ہوئی۔ توبہ قبول ہوتے ہی ان لوگوں نے نبی اکرم (ﷺ) کی خدمت میں سارا مال پیش کرتے ہوئے درخواست کی کہ اے اللہ کے حبیب (ﷺ) یہ مال قبول فرمائیں۔ کیونکہ اس مال کی وجہ سے ہم اس غلطی کے مرتکب ہوئے۔ اس موقع پر یہ فرمان نازل ہوا۔ اے نبی (ﷺ) ان کے مال سے کچھ حصہ قبول فرمائیں اور ان کے لیے دعا کریں۔ آپ کی دعا ان کے زخمی دلوں پر مرہم اور ان کی بیقرار روح کے لیے تسکین کا سبب ہوگی۔ ان کا صدقہ قبول کرنے سے ان کا مال پاک اور ان کی طبیعت سے بخل دور ہوگا اور انھیں یقین ہوجائے گا۔ کہ اللہ تعالیٰ نے ان کی توبہ قبول فرما لی ہے۔ اس سے لوگوں کو معلوم ہوگا کہ اللہ ہی توبہ قبول کرنے والا اور لوگوں کے صدقات منظور فرمانے والا ہے۔ جس سے یہ بھی ثابت ہوا کہ اگر اللہ تعالیٰ اجازت نہ دے تو نبی بھی کسی کا صدقہ قبول نہیں کرسکتا۔ صرف اللہ ہی اپنے بندوں کی توبہ اور صدقات قبول کرنے والا ہے کیونکہ وہ نہایت ہی فضل و کرم کا مالک ہے۔ یاد رہے یہاں صدقہ سے مراد عام صدقہ ہے زکوٰۃ نہیں۔ (عَنِ ابْنِ عُمَرَ (رض) عَنِ النَّبِیِّ (ﷺ) قَالَ إِنَّ اللَّہَ یَقْبَلُ تَوْبَۃَ الْعَبْدِ مَا لَمْ یُغَرْغِرْ ) [ رواہ الترمذی : کتاب الدعوات، باب قبول توبۃ العبد مالم یغرغر ] ” حضرت عبداللہ بن عمر (رض) نبی (ﷺ) سے بیان کرتے ہیں کہ آپ (ﷺ) نے فرمایا حالت نزع طاری ہونے سے پہلے پہلے اللہ بندے کی توبہ قبول فرماتا ہے۔“ مسائل : 1۔ صدقہ دینے سے مال پاک ہوتا ہے۔ 4۔ رسول اللہ (ﷺ) کی دعا صحابہ کے لیے باعث تسکین تھی۔ 2۔ اللہ ہی بندوں کی توبہ قبول فرماتا ہے۔ 5۔ صدقات و خیرات کو اللہ ہی شرف قبولیت سے نوازتا ہے۔ 3۔ اللہ توبہ قبول کرنے والا مہربان ہے۔ تفسیر بالقرآن :اللہ تعالیٰ رحم فرمانے والا ہے : 1۔ اللہ ہی رحم کرنے والا ہے۔ (الانعام :133) 2۔ مہربانی فرمانا اللہ نے اپنے آپ پر لازم کرلیا ہے۔ (الانعام :54) 3۔ اللہ سب سے زیادہ رحم کرنے والا ہے۔ (یوسف :64) 4۔ میرے بندوں کو میری طرف سے خبر کردو کہ میں بخشنے والا، رحم کرنے والا ہوں۔ (الحجر :49) 5۔ اللہ مومنوں کو اندھیروں سے نکالتا ہے کیونکہ وہ رحم کرنے والا ہے۔ (الاحزاب :23)