سورة التوبہ - آیت 100

وَالسَّابِقُونَ الْأَوَّلُونَ مِنَ الْمُهَاجِرِينَ وَالْأَنصَارِ وَالَّذِينَ اتَّبَعُوهُم بِإِحْسَانٍ رَّضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ وَأَعَدَّ لَهُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِي تَحْتَهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا أَبَدًا ۚ ذَٰلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

اور مہاجرین اور انصار میں جو لوگ سبقت کرنے والے سب سے پہلے ایمان لانے والے ہیں اور وہ لوگ جنہوں نے راست بازی کے ساتھ ان کی پیروی کی تو اللہ ان سے خوشنود ہو وہ اللہ سے خوشنود ہوئے، اور اللہ نے ان کے لیے (نعیم ابدی کے) باغ تیار کردیئے جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہیں (اور اس لیے وہ خشک ہونے والے نہیں) وہ ہمیشہ اس (نعمت و سرور کی زندگی) میں رہیں گے اور یہ ہے بہت بڑی فیروز مندی۔

تفسیر فہم القرآن - میاں محمد جمیل ایم اے

فہم القرآن : ربط کلام : منافقت سے اجتناب کرنے، نیکی کا حکم دینے کے بعد نیکی میں سبقت اختیار کرنے کی ترغیب : دیہاتی مخلصین کے تذکرہ کے بعد اسلام میں سبقت کرنے والے مہاجرین اور انصار کی فضیلت و منقبت کا بیان کیا گیا ہے۔ جس میں ان کی حوصلہ افزائی اور دوسروں کے لیے نیکیوں میں سبقت کرنے کی تلقین پائی جاتی ہے۔ اب ان پاکباز ہستیوں کی خدمات کا تذکرہ شروع ہوتا ہے جنہوں نے اسلام کی خاطر سب کچھ قربان کیا اور اپنا وطن چھوڑ کر بے خانماں ہوئے۔ مہاجرین اور انصار میں سابقون الاولون کے بارے میں اہل علم کی مختلف آراء پائی جاتی ہیں جن میں اکثریت کا خیال ہے کہ ” سابقون الاولون“ سے مراد وہ صحابہ کرام (رض) ہیں جو غزوہ بدر سے پہلے ایمان لائے۔ کیونکہ انہوں نے اسلام کے راستے میں وہ مصائب و آلام برداشت کیے جن کے ساتھ ان کے بعد آنے والے ایمان والوں کو واسطہ نہیں پڑا۔ اس لیے دیہاتی مخلصین کے تذکرہ کے بعد ضروری سمجھا گیا کہ ان لوگوں کی خدمات کا اعتراف کرکے قیامت تک کے لیے ان کے مرتبہ و مقام کو نمایاں اور ممتاز کردیا جائے۔ ان کے بعد ایمان لانے والے حضرات کی حوصلہ افزائی کرکے انہیں بھی عظیم خوشخبری سے نوازا گیا ہے۔ قرآن و حدیث اور تاریخ اسلام اس بات پر گواہ ہے کہ ” مردوں میں سابقون الاولون“ کے سرخیل حضرت ابوبکرصدیق (رض)، خواتین میں یہ شان ام المومنین حضرت خدیجہ (رض) کو حاصل ہوئی، نو عمر لوگوں میں یہ مرتبہ حضرت علی (رض) کو ملا، مجبور اور غلاموں میں یہ شان حضرت زید بن حارثہ (رض) کو حاصل ہوئی۔ جہاں تک ” سابقون الاولون“ کے بعد دائرہ اسلام میں داخل ہونے والوں کا تعلق ہے ان سے مراد وہ صحابہ (رض) ہیں جو غزوہ بدر کے بعد ایمان لائے قرآن مجید سب کے لیے انعام و اکرام کا اعلان کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ان پر راضی ہوا، وہ اپنے رب پر راضی ہوگئے۔ ایمان کا درجہ حاصل ہوجائے تو انسان بے انتہا تکلیف، حد درجے کے رنج و غم اور بے پناہ تنگی میں بھی اپنے رب پر راضی رہتا ہے۔ ایسے حضرات کے لیے اللہ تعالیٰ نے ابدی باغات اور ہمیشہ رہنے والی نعمتیں تیار کر رکھی ہیں حقیقت یہ ہے کہ یہی دنیا اور آخرت کی سب سے بڑی کامیابی ہے۔ صحابہ (رض) کے بعد ان کی اولاد جو نبی اکرم (ﷺ) کی زیارت کا شرف نہ پا سکی، نبی اکرم (ﷺ) نے انہیں بھی اعزاز بخشا ہے۔ (عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ (رض) قَالَ إِنِّیْ لَوَاقِفٌ فِیْ قَوْمٍ، فَدَعَوُا اللَّہَ لِعُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ وَقَدْ وُضِعَ عَلَیْ سَرِیرِہِ، إِذَا رَجُلٌ مِنْ خَلْفِیْ قَدْ وَضَعَ مِرْفَقَہُ عَلَیْ مَنْکِبِیْ، یَقُوْلُ رَحِمَکَ اللَّہُ، إِنْ کُنْتُ لأَرْجُوْ أَنْ یَجْعَلَکَ اللَّہُ مَعَ صَاحِبَیْکَ، لأَنِّیْ کَثِیرًا مِمَّا کُنْتُ أَسْمَعُ رَسُوْلَ اللَّہِ () یَقُوْلُ کُنْتُ وَأَبُوْ بَکْرٍ وَعُمَرُ، وَفَعَلْتُ وَأَبُوْ بَکْرٍ وَعُمَرُ، وَانْطَلَقْتُ وَأَبُو بَکْرٍ وَعُمَرُ فَإِنْ کُنْتُ لأَرْجُوْ أَنْ یَجْعَلَکَ اللَّہُ مَعَہُمَا فَالْتَفَتُّ فَإِذَا ہُوَ عَلِیُّ بْنُ أَبِیْ طَالِبٍ) [ رواہ البخاری : کتاب فضائل الصحابۃ ] ” حضرت عبداللہ بن عباس (رض) بیان کرتے ہیں کہ میں لوگوں میں کھڑا تھا، حضرت عمر (رض) کی چار پائی رکھی ہوئی تھی ان کے لیے دعائیں کی جا رہی تھیں۔ ایک آدمی نے پیچھے سے میرے کندھے پر ہاتھ رکھا وہ کہہ رہا تھا اللہ تجھ پر رحم فرمائے یقیناً میں امید کرتا ہوں، اللہ تعالیٰ آپ کو آپ کے ساتھیوں کی معیت عطا فرمائے گا۔ میں اکثر رسول اللہ (ﷺ) سے سنا کرتا تھا کہ آپ (ﷺ) فرمایا کرتے تھے میں، ابو بکر اور عمر وہاں تھے میں نے اور ابو بکر اور عمر (رض) نے یہ کام کیا۔ میں ابو بکر اور عمر وہاں گئے یقیناً میں امید کرتا ہوں کہ اللہ تجھے تیرے ساتھیوں کا ساتھ عطا فرمائے گا۔ میں نے پلٹ کر دیکھا تو وہ علی بن ابی طالب (رض) تھے۔“ (عَنْ عَائِشَۃَ (رض) قَالَتْ مَا غِرْتُ عَلَیْ امْرَأَۃٍ مَا غِرْتُ عَلَیْ خَدِیجَۃَ، مِنْ کَثْرَۃِ ذِکْرِ رَسُوْلِ اللَّہِ ِ اِیَّاہَا قَالَتْ وَتَزَوَّجَنِیْ بَعْدَہَا بِثَلاَثِ سِنِینَ، وَأَمَرَہُ رَبُّہُ عَزَّ وَجَلَّ أَوْ جِبْرِیلُ أَنْ یُبَشِّرَہَا بِبَیْتٍ فِیْ الْجَنَّۃِ مِنْ قَصَبٍ )[ رواہ البخاری : کتاب مناقب الأنصار، باب تزویج النبی (ﷺ) ] ” حضرت عائشہ صدیقہ (رض) بیان کرتی ہیں رسول اللہ (ﷺ) کا کثرت کے ساتھ ذکر کرنے کی وجہ سے میں نے سیدہ خدیجہ (رض) سے بڑھ کر کسی عورت پر رشک نہیں کیا، آپ فرماتی ہیں کہ آپ نے میرے ساتھ ان کی وفات کے تین سال بعد شادی کی، آپ کو اللہ تعالیٰ نے برائے راست یا جبرائیل (علیہ السلام) کے ذریعے حکم دیا کہ آپ خدیجہ کو جنت میں موتی کے گھر کی خوشخبری دے دیں۔“ (عن عِمْرَانَ بن حُصَیْنٍ (رض) قَالَ قَال النَّبِیُّ () خَیْرُکُمْ قَرْنِیْ، ثُمَّ الَّذِینَ یَلُوْنَہُمْ، ثُمَّ الَّذِیْنَ یَلُوْنَہُمْ) [ رواہ البخاری : کتاب الشہادات، باب لاَ یَشْہَدُ عَلَی شَہَادَۃِ جَوْرٍ إِذَا أُشْہِدَ] ” حضرت عمران بن حصین (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی (ﷺ) نے فرمایا تم سے بہتر میرا زمانہ ہے، پھر ان کے بعد والوں کا اور پھر ان کے بعد والوں کا۔“ مسائل : 1۔ صحابہ (رض) اللہ پر اور اللہ تعالیٰ صحابہ پر راضی ہوا۔ 2۔ صحابہ (رض) میں سابقون الاولون صحابہ افضل ہیں۔ 3۔ اللہ تعالیٰ نے صحابہ کرام (رض) کو دنیا میں جنت کا سرٹیفکیٹ عنایت فرمایا۔ 4۔ مہاجرین اور انصار کے نقش قدم پر چلنے والوں سے اللہ راضی ہوتا ہے۔ 5۔ صحابہ (رض) کے نقش قدم پر چلنے والوں سے بھی اللہ نے جنت کا وعدہ فرمایا ہے۔ 6۔ جنت نصیب ہونا مومن کے لیے سب سے بڑی کامیابی ہے۔ تفسیر بالقرآن : اللہ تعالیٰ صحابہ کرام (رض) پہ راضی ہوا اور صحابہ اللہ تعالیٰ پر راضی ہوگئے : 1۔ صحابہ اللہ پر راضی ہوئے اور اللہ ان سے راضی ہوا اور یہ بہت بڑی کامیابی ہے۔ (المائدۃ:119) 2۔ صحابہ کے نقش قدم پر چلنے والوں پر اللہ راضی ہوا اور وہ اللہ سے راضی ہوگئے۔ (التوبۃ:100) 3۔ اللہ اصحاب شجرہ پر راضی ہوگیا۔ (الفتح :18) 4۔ صحابہ اللہ کی جماعت ہیں اللہ ان سے راضی ہوا، اور وہ اپنے اللہ پر راضی ہوگئے۔ (مجادلۃ:22) 5۔ صحابہ اللہ سے ڈرنے والے تھے اللہ ان سے راضی ہوگیا۔ (البینۃ:8) 6۔ اللہ انہیں ایسی جگہ داخل فرمائے گا جس سے وہ خوش ہوجائیں گے۔ (الحج :59) 7۔ اللہ انہیں اپنی رحمت، رضامندی اور جنت کی خوشخبری دیتا ہے۔ : التوبۃ:21)