وَإِذْ قَالَ إِبْرَاهِيمُ رَبِّ اجْعَلْ هَٰذَا بَلَدًا آمِنًا وَارْزُقْ أَهْلَهُ مِنَ الثَّمَرَاتِ مَنْ آمَنَ مِنْهُم بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ ۖ قَالَ وَمَن كَفَرَ فَأُمَتِّعُهُ قَلِيلًا ثُمَّ أَضْطَرُّهُ إِلَىٰ عَذَابِ النَّارِ ۖ وَبِئْسَ الْمَصِيرُ
اور (پھر) جب ایسا ہوا تھا کہ ابراہیم نے خدا کے حضور دعا مانگی تھی (اے پروردگار ! اس جگہ کو (جو دنیا کی آباد سرزمین سے دور اور سرسبزی و شادابی سے یک قلم محروم ہے) امن و امان کا ایک آباد شہر بنا دے اور پنے فضل وکرم سے ایسا کر کہ یہاں کے بسنے والوں میں جو لوگ تجھ پر اور آخرت کے دن پر ایمان رکھنے والے ہوں ان کے رزق کے لیے ہر طرح کی پیداوار مہیا ہوجائے" اس پر ارشاد الٰہی ہوا تھا کہ (تمہاری دعا قبول کی گئی، یہاں کے باشندوں میں سے) جو کوئی کفر کا شیوہ اختیار کرے گا سو اسے بھی ہم (سروسامان رزق سے) فائدہ اٹھانے دیں گے۔ البتہ یہ فائدہ اٹھانا بہت تھوڑا ہوگا۔ کیونکہ بالآخر اسے (پاداش عمل میں) چاروناچار دوزخ میں جانا ہے اور کیا ہی برا اس کا ٹھکانا ہوا
فہم القرآن : ربط کلام : حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی دعا اور مکہ کے مرکز ہونے کا ثبوت اور ان کی اہل مکہ کے لیے خصوصی دعائیں۔ سورۃ ابراہیم آیت ٣٧ میں بیان ہوا ہے کہ جب حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اپنے اہل خانہ کو بیت اللہ کے پڑوس میں چھوڑ کر جا رہے تھے۔ تو انہوں نے دوسری دعاؤں کے ساتھ یہ بھی التجا اور دعا کی تھی کہ بار الہٰا ! میں اپنی رفیقۂ حیات اور لخت جگر کو ایسی سر زمین پر چھوڑ رہا ہوں جو بنجر اور غیر آباد ہے۔ اس لیے ان کی روزی کا انتظام فرما۔ ساکنین مکہ کے لیے رزق کی دعا کرتے ہوئے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے تخصیص کے ساتھ عرض کی کہ الٰہی! رزق صرف ان لوگوں کو ملنا چاہیے جو تیری ذات کبریا اور آخرت کی جزا و سزا پر یقین رکھتے ہوں۔ اس تخصیص کی دو وجوہات ہو سکتی ہیں۔ پہلی غیرت ایمانی کی بنا پر جس کی وجہ سے بسا اوقات خدا کے منکروں کی عیش و عشرت دیکھ کر مومن محسوس کرتا ہے کہ ان وسائل سے یہ لوگ اور زیادہ نافرمان ہوئے جا رہے ہیں۔ انہیں تو رزق ملنے کی بجائے بھوکا مرنا چاہیے۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ جب جناب ابرہیم (علیہ السلام) کو امامت کے منصب سے نوازا گیا تھا تو انہوں نے یہ اعزاز اپنی اولاد کے لیے بھی مانگا تھا۔ جس کی وضاحت میں ارشاد ہوا تھا کہ ظالموں کو یہ اعزاز حاصل نہیں ہو پائے گا۔ تب حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے سوچا کہ شاید رزق کا معاملہ بھی ایساہی ہو لہٰذا انہوں نے مومنوں کے لیے ہی رزق کی دعا کی۔ جس کے جواب میں فرمایا گیا ہے کہ رزق تو سب کو دیا جائے گا لیکن ناشکروں اور نافرمانوں کو قیامت کے دن ان کے کفر و شرک کی وجہ سے جہنم میں دھکیل دیا جائے گا۔ یہاں جہنمی کو جہنم میں داخل کرنے کے لیے اضطرار کا لفظ استعمال فرمایا ہے کیونکہ جہنم کو دیکھ کر جہنمی چیخیں چلائیں گے کہ ہمیں جہنم میں داخل نہ کیا جائے لیکن یہ چیخ و پکار انہیں جہنم سے نہیں بچا سکے گی۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے اہل مکہ کے لیے رزق کی دعا کرتے ہوئے ثمرات کا لفظ استعمال کیا ہے اس کا معنٰی صرف میوہ جات وثمرات نہیں بلکہ ہر قسم کی آمدنی ہے۔ جیسا کہ ہر زبان میں محاورہ ہے کہ یہ اجر فلاں محنت کا نتیجہ و ثمرہ ہے۔ اس کی وضاحت سورۃ قصص آیت 57میں فرمائی گئی ہے : ﴿وَقَالُوْا إِنْ نَتَّبِعِ الْہُدٰی مَعَکَ نُتَخَطَّفْ مِنْ أَرْضِنَا أَوَلَمْ نُمَکِّنْ لَہُمْ حَرَمًا آَمِنًا یُجْبَی إِلَیْہِ ثَمَرَاتُ کُلِّ شَیْءٍ رِزْقًا مِنْ لَدُنَّا وَلٰکِنَّ أَکْثَرَہُمْ لَا یَعْلَمُوْنَ﴾[ القصص :57] ” اور کہتے ہیں اگر ہم تمہارے ساتھ ہدایت کی پیروی کریں تو اپنے ملک سے اچک لیے جائیں۔ کیا ہم نے ان کو حرم میں جو امن کا مقام ہے، جگہ نہیں دی۔ جہاں ہر قسم کے میوے پہنچائیں جاتے ہیں اور رزق ہماری طرف سے ہے۔ لیکن ان میں سے اکثر نہیں جانتے۔“ یاد رہے پھل کے لیے قرآن میں فَاکِھَۃ کا لفظ استعمال ہوا ہے جس کی جمع عربی میں ”فَوَاکِھَۃ“ آتی ہے۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنی رفیقۂ حیات حضرت ہاجرہ اور لخت جگر کو مکہ میں چھوڑتے وقت سب سے پہلے جو دعا کی وہ امن وا مان کے بارے میں تھی۔ کیونکہ اس وقت حضرت ہاجرہ اور ان کے لخت جگر اسماعیل کے سوا کوئی اور یہاں آباد نہ تھا۔ اتنے لق ودق صحرا اور سنگلاخ بیابان میں بس ماں بیٹا ہی تو تھے۔ اس لیے ان کے حفظ و امان کی فکر ایک فطری بات تھی۔ اس دعا میں یہ بات بھی عیاں ہوتی ہے کہ جس مقام پر امن و امان نہ ہو وہاں بسنے والے زیادہ دیر نہیں ٹھہر سکتے۔ لہٰذا کسی جگہ پر ٹھہرنے کے لیے پہلی ضرورت یہی ہوا کرتی ہے کہ وہاں کے باسیوں کو ہر قسم کا سکون میسر ہو۔ اس کے بغیر کوئی علاقہ ترقی نہیں کرسکتا۔ اس لیے چادر اور چار دیواری کی حفاظت حکومت کی اوّلین ترجیح ہونا چاہیے۔ اس دعا کے جواب میں ارشاد ہوا کہ رزق اور دنیا کے فائدے تو ان لوگوں کو بھی عطا کروں گا جو سرے سے میری ذات کے انکاری ہوں گے کیونکہ میں خالق و رازق ہوں۔ البتہ آخرت میں کفر و الحاد اور انکار واعراض کی وجہ سے انہیں سخت عذاب میں دھکیل دیا جائے گا۔ مسائل : 1۔ اہل مکہ کو ہر قسم کے پھل ملنا حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی دعاؤں کا نتیجہ ہے۔ 2۔ اللہ تعالیٰ رزق عطا کرنے میں کافرو مسلمان کے درمیان کوئی فرق نہیں کرتا کیونکہ وہ سب کا رازق ہے۔ 3۔ آخرت کے مقابلے میں پوری دنیا متاع قلیل ہے۔ ٤۔ قیامت کے دن کافر جہنم میں دھکیلے جائیں گے۔ تفسیر بالقرآن : حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی دعائیں : 1۔ نیک اولاد کے لیے دعا۔ (الصفت :100) 2۔ اللہ تعالیٰ سے قوت‘ حکم اور جنت کی دعا۔ (الشعراء : 82تا85) 3۔ باپ کے لیے بخشش کی دعا جو قبول نہیں ہوئی۔ (الشعراء :86)