وَجَاءَ الْمُعَذِّرُونَ مِنَ الْأَعْرَابِ لِيُؤْذَنَ لَهُمْ وَقَعَدَ الَّذِينَ كَذَبُوا اللَّهَ وَرَسُولَهُ ۚ سَيُصِيبُ الَّذِينَ كَفَرُوا مِنْهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ
اور (اے پیغمبر) اعرابیوں میں سے (یعنی عرب کے صحرائی بدوں میں سے) عذر کرنے والے تمہارے پاس آئے کہ انہیں بھی (رہ جانے کی) اجازت دی جائے اور (ان میں سے) جن لوگوں نے اظہار اسلام کر کے) اللہ اور اس کے رسول سے جھوٹ بولا تھا وہ گھروں ہی میں بیٹھے رہے، سو معلوم ہوا کہ ان میں سے جنہوں نے کفر کی راہ اختیار کی انہیں عنقریب عذاب دردناک پیش آئے گا۔
فہم القرآن : ربط کلام : مدینہ کے منافقین کے بعد دیہاتی منافقین کا ذکر۔ مدینہ کے منافقین کی دیکھا دیکھی دیہات کے منافقین نے بھی جہاد فی سبیل اللہ سے جان چھڑانے کی پالیسی اختیار کر رکھی تھی۔ وہ نبی (ﷺ) کی خدمت میں حاضر ہو کر عذر بہانے پیش کرتے آپ ان کے اطوار دیکھ کر ان سے صرف نظر فرماتے منافقین میں کچھ لوگ ایسے بھی تھے جنھوں نے یہ بھی گوارا نہ کیا کہ وہ اللہ کے رسول کے پاس حاضر ہو کر کوئی عذر پیش کرتے یا اتنے کڑے وقت میں پیچھے بیٹھے رہنے سے اجتناب کرتے۔ لیکن انھوں نے دونوں میں سے کوئی ایک کام بھی نہ کیا۔ اس کا بنیادی سبب یہ تھا کہ یہ لوگ اللہ اور اس کے رسول کی تکذیب کرنے والے تھے جنھیں کافر قرار دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ انھیں اذیت ناک عذاب پہنچے گا مُعَذِّرُوْنَ کا واحد مُعَذِّرُ ہے جس سے مراد ایسا شخص جس کے پاس کوئی حقیقی عذر نہ ہو اس کے باوجود وہ عذر پیش کرے۔ نیکی کے معاملہ میں جھوٹا عذر پیش کرنے والا مجرم ہوتا ہے لہٰذا مجرموں کو اذیت ناک عذاب دیا جائے گا۔ (عَنِ ابْنِ عُمَرَ (رض) قَالَ لَمَّا مَرَّ النَّبِیُّ (ﷺ) بِالْحِجْرِ قَالَ لَا تَدْخُلُوا مَسَاکِنَ الَّذِینَ ظَلَمُوا أَنْفُسَہُمْ أَنْ یُّصِیبَکُمْ مَا أَصَابَہُمْ إِلَّا أَنْ تَکُونُوا باکِینَ ثُمَّ قَنَّعَ رَأْسَہٗ وَأَسْرَعَ السَّیْرَ حَتَّی أَجَازَ الْوَادِیَ) [ رواہ البخاری، کتاب المغازی، باب نزول النبی الحجر] ” حضرت عبداللہ بن عمر (رض) بیان کرتے ہیں جب نبی اکرم (ﷺ) حجرکے مقام سے گزرے آپ نے فرمایا ان لوگوں کے مقام سے نہ گزرا کرو جن لوگوں نے اپنی جانوں پر ظلم کیا کہیں تم پر وہ آفت نہ آن پڑے۔ جو ان پر آن پڑی تھی۔ اگر گزرنا نا گزیر ہو تو روتے ہوئے گزرا کرو پھر آپ نے اپنا سر جھکایا اور سواری کو تیزچلایا یہاں تک کہ اس وادی سے گزر گئے۔“