وَإِذْ جَعَلْنَا الْبَيْتَ مَثَابَةً لِّلنَّاسِ وَأَمْنًا وَاتَّخِذُوا مِن مَّقَامِ إِبْرَاهِيمَ مُصَلًّى ۖ وَعَهِدْنَا إِلَىٰ إِبْرَاهِيمَ وَإِسْمَاعِيلَ أَن طَهِّرَا بَيْتِيَ لِلطَّائِفِينَ وَالْعَاكِفِينَ وَالرُّكَّعِ السُّجُودِ
اور (پھر دیکھو) جب ایسا ہسا ہوا تھا کہ ہم نے (مکہ) کے اس گھر کو (یعنی خانہ کعبہ کو) انسانوں کے گرد آوری کا مرکز اور امن و ھرمت کا مقام ٹھہرا دیا اور حکم دیا کہ ابراہیم کے کھڑے ہونے کی جگہ (ہمیشہ کے لیے) نماز کی جگہ بنا لی جائے۔ اور ہم نے ابراہیم اور اسماعیل کو حکم دیا تھا کہ ہمارے نام پر جو گھر بنایا گیا ہے اسے طواف کرنے والوں، عبادت کے لیے ٹھہرنے والوں اور رکوع و سوجد کرنے والوں کے لیے (ہمیشہ) پاک رکھنا اور ظلم و معصیت کی گندگیوں سے آلودہ نہ کرنا)
فہم القرآن : ربط کلام : گزشتہ سے پیوستہ اس میں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اور اسماعیل (علیہ السلام) کے بیت اللہ کا متولی ہونے کا ثبوت فراہم کیا گیا۔ اس جہان رنگ و بو میں بے شمار خوبصورت سے خوبصورت ترین عمارات و محلات موجود ہیں۔ جن کے حسن و جمال میں اضافہ کرنے کے لیے لاکھوں، کروڑوں، اربوں روپے خرچ ہوئے اور کیے جا رہے ہیں۔ ان کو دیکھو تو عقل دنگ رہ جاتی ہے لیکن کوئی ایسی جگہ یا عمارت نہیں جس کے دیدار کو اہل جہاں کے لیے لازم قرار دیا گیا ہو اور جس کے لیے اتنی دنیا کے دل تڑپتے ہوں یہ اکرام و اعزازصرف ایک عمارت کو نصیب ہوا جس کو عام پتھروں سے اٹھایا گیا ہے۔ اللہ رب العزت نے اس کو بیت اللہ قرار دیا یعنی اللہ کا گھر۔ ﴿وَلِلّٰہِ عَلٰی النَّاسِ حِجُّ الْبَیْتِ مَنِ اسْتَطَاعَ إِلَیْہِ سَبِیْلًا﴾[ آل عمران :97] ” اور اللہ کے لیے ان لوگوں پر بیت اللہ کا حج کرنا فرض ہے جو اس تک پہنچنے کی طاقت رکھتے ہوں۔“ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے دین حنیف کی تبلیغ کے لیے اردن‘ شام اور حجاز مقدس کو مرکز قرار دیا تھا اردن میں حضرت لوط، حجاز میں حضرت اسماعیل اور شام فلسطین میں بذات خود اور حضرت اسحاق (علیہ السلام) دین حنیف کی خدمت کررہے تھے۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) گاہے گاہے ان مراکز کا دورہ کرتے اور ہدایات فرماتے رہتے تھے۔ اس طرح آپ حسب معمول حکم خداوندی حضرت ہاجرہ[ اور جناب اسماعیل (علیہ السلام) کی خبر گیری کے لیے تشریف لے جایا کرتے تھے اسی اثنا میں تعمیر کعبہ کا حکم ہوا جس کی نبی رحمت {ﷺ}کی زبان اطہر سے بخاری شریف میں ان الفاظ میں تفصیل موجود ہے : (ثُمَّ لَبِثَ عَنْہُمْ مَّاشَآء اللّٰہُ ثُمَّ بَعْدَ ذَلِکَ وَ إسْمٰعِیْلُ یُبْرِیْ نَبْلًا لَّہٗ تَحْتَ دَوْحَۃٍ قَرِیْبًا مِّنْ زَمْزَمَ فَلَمَّا رَاٰہٗ قَامَ إلَیْہِ فَصَنَعَا کَمَا یَصْنَعُ الْوَالِدُ بالْوَلَدِ ثُمَّ قَالَ یَا إسْمَاعِیْلُ إِنَّ اللّٰہَ أَمَرَنِیْ أَنْ اَبْنِیَ ہٰہُنَا بَیْتًا وَأَشَارَ إلٰی اَکْمَۃٍ مُرْتَفِعَۃٍ عَلٰی مَا حَوْلَہَا قَالَ فَعِنْدَ ذٰلِکَ رَفَعَا الْقَوَاعِدَ مِنَ الْبَیْتِ فَجَعَلَ إسْمَاعِیْلُ یَأْتِیْ بالْحِجَارَۃِ وَ اِبْرَاہِیْمُ یَبْنِیْ حَتّٰی اِذَا ارْتَفَعَ الْبِنَاءُ جَآءَ بِہٰذَا الْحَجَرِ فَوَضَعَہٗ لَہٗ فَقَامَ عَلَیْہِ وَہُوَ یَبْنِیْ وَ إسْمَاعِیْلُ یُنَاوِلُہُ الْحِجَارَۃَ) [ رواہ البخاری : کتاب أحادیث الأنبیاء، باب قول اللہ تعالیٰ﴿ وَاتَّخَذَ اللَّهُ إِبْرَاهِيمَ خَلِيلًا ﴾] ” پھر جب تک اللہ تعالیٰ کو منظور ہوا حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اپنے ملک (فلسطین) میں ٹھہرے رہے اس کے بعد جب اسماعیل (علیہ السلام) کے پاس تشریف لائے تو اسماعیل (علیہ السلام) زمزم کے پاس ایک درخت کے نیچے بیٹھ کر تیر ٹھیک کر رہے تھے۔ جب اسماعیل (علیہ السلام) نے اپنے والد مکرم کو دیکھا تو اٹھ کر استقبال کیا چنانچہ دونوں اس طرح ملے جس طرح باپ اپنے بیٹے سے ملتا ہے پھر فرمانے لگے : بیٹا اسماعیل! مجھے اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے کہ اس اونچی جگہ پر بیت اللہ کو تعمیر کروں۔ اسماعیل (علیہ السلام) نے عرض کی میں حاضر خدمت ہوں۔ نبی اکرم {ﷺ}ارشاد فرماتے ہیں اسی جگہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اور اسماعیل (علیہ السلام) نے بیت اللہ کی بنیادیں اٹھائیں۔ اسماعیل (علیہ السلام) پتھر لائے جا رہے تھے اور حضرت ابراہیم (علیہ السلام) تعمیر فرما رہے تھے جب دیواریں اونچی ہوگئیں اور زمین پر کھڑے ہو کر پتھر لگانا مشکل ہوگیا تو جبرائیل (علیہ السلام) یہ پتھر لے کر آئے جس کو مقام ابراہیم کہا جاتا ہے۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے اس پتھر پر چڑھ کر کعبہ کی تکمیل فرمائی اور اسماعیل (علیہ السلام) معاونت کرتے رہے۔“ ﴿وَإذْ یَرْفَعُ إبْرَاہِیْمُ الْقَوَاعِدَ مِنَ الْبَیْتِ وَ إسْمٰعِیْلُ رَبَّنَا تَقَبَّلْ مِنَّا إِنَّکَ أَنْتَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ﴾ [ البقرہ :127] اور یاد کرو جب ابراہیم اور اسماعیل {علیہ السلام}بیت اللہ کی دیواریں اٹھا رہے تھے تو دعا کرتے جاتے اے ہمارے پروردگار ! ہماری یہ خدمت قبول فرما تو سب کی سننے اور جاننے والا ہے۔“ پاک صاف رکھنے کا معنٰی صرف یہی نہیں کہ اس کو کوڑے کرکٹ سے پاک صاف رکھا جائے بلکہ اس کے ساتھ اس کو شرک وبدعات کی روحانی گندگی اور فتنہ فساد سے بھی محفوظ رکھا جائے جیسا کہ قرآن مجید کے دوسرے مقام میں واضح ارشاد موجود ہے کہ مشرک کو حرم میں داخل نہ ہونے دیا جائے کیونکہ مشرک روحانی طور پر گندہ اور پلید ہوتا ہے۔ ﴿یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا إِنَّمَا الْمُشْرِکُوْنَ نَجَسٌ فَلَا یَقْرَبُوا الْمَسْجِدَ الْحَرَامَ بَعْدَ عَامِھِمْ ھٰذَا۔۔﴾ [ التوبۃ:28] ” اے ایمان والو! مشرکین ناپاک ہیں اس سال کے بعد یہ مسجد حرام کے قریب نہ پھٹکنے پائیں۔“ ﴿مَاکَانَ لِلْمُشْرِکِیْنَ أَنْ یَّعْمُرُوْا مَسٰجِدَ اللّٰہِ شٰھِدِیْنَ عَلٰٓی أَنْفُسِھِمْ بالْکُفْرِ أُولٰئِکَ حَبِطَتْ أَعْمَالُھُمْ وَفِی النَّارِ ھُمْ خَالِدُوْنَ﴾ [ التوبۃ:18] ” مشرکین کو کوئی حق نہیں کہ وہ اللہ کی مسجدوں کے معمار بنیں درآں حالیکہ وہ اپنے اوپر خود کفر کی شہادت دے رہے ہیں۔ ان کے تو سارے اعمال ضائع ہوگئے اور جہنم میں ان کو ہمیشہ رہنا ہوگا۔“ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے دعا مانگی تھی خدایا مجھے اور میری اولاد کو بتوں کی عبادت سے بچائے رکھنا۔ ﴿وَإِذْ قَالَ إِبْرَاھِیْمُ رَبِّ اجْعَلْ ھٰذَا الْبَلَدَ اٰمِنًا وَّاجْنُبْنِیْ وَبَنِیَّ أَنْ نَّعْبُدَ الْأَصْنَامَ۔ رَبِّ إِنَّھُنَّ أَضْلَلْنَ کَثِیْرًا مِّنَ النَّاسِ۔۔﴾[ ابراہیم : 35، 36] ” اور جب ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنے رب کے حضور دعا کی کہ پروردگار اس شہر کو امن کا شہر بنا اور مجھے اور میری اولاد کو بت پرستی سے بچا۔ یارب ! اس لیے کہ ان بتوں نے بہت سے لوگوں کو گمراہ کردیا ہے۔“ اس لیے نبی اکرم {ﷺ}نے جب مکہ فتح کیا تو تمام بتوں کو مسمار کردیا اور کعبہ میں داخل ہو کر ان تصویروں کو بھی مٹایا جو مشرکین نے دیواروں پر ابراہیم (علیہ السلام) اور اسماعیل (علیہ السلام) کی بنائی ہوئی تھیں۔ رسول اللہ {ﷺ}نے فتح مکہ کے موقع پر ارشاد فرمایا : ” یقینا اللہ تعالیٰ نے مکہ کو حرمت والا بنایا ہے جب سے اللہ تعالیٰ نے زمین و آسمان کو پیدا فرمایا ہے یہ اللہ کی حرمت کی وجہ سے قیامت تک محترم ہے نہ مجھ سے پہلے کسی کے لیے حلال ہوا نہ ہی بعد میں کسی کے لیے حلال ہوگا میرے لیے بھی تھوڑی دیر کے علاوہ کبھی حلال نہ ہوگا۔ نہ اس کا شکار بھگایا جائے نہ اس کا کانٹا اکھاڑا جائے اور نہ ہی گھاس کاٹی جائے اور وہاں کسی کی گری ہوئی چیز اعلان کرنے والے کے علاوہ کوئی نہ اٹھائے۔ حضرت عباس بن عبدالمطلب {رض}کہنے لگے اللہ کے رسول! اذخر نامی گھاس مستثنیٰ کریں کیونکہ وہ لوہاروں اور گھروں کے لیے ضروری ہے آپ خاموش رہے پھر فرمایا ہاں اذخر گھاس حلال ہے۔“ [ رواہ البخاری : کتاب الجزیۃ، باب إثم الغادر] مسائل : 1۔ اللہ تعالیٰ نے خانہ کعبہ کو مرکز خلائق اور جائے امن بنایا ہے۔ ٢۔ مقام ابراہیم کو جائے نماز بنانا چاہیے۔ 2۔ بیت اللہ کو ہر آلائش سے پاک صاف رکھنا لازم ہے۔ تفسیر بالقرآن بیت اللہ کا مقام ومرتبہ : 1۔ بیت اللہ ہدایت کا مرکز ہے۔ (آل عمران :96) 2۔ اہل مکہ کو بیت اللہ کی وجہ سے امن، رزق اور احترام ملاہے۔ (قریش : 3، 4) 3۔ بیت اللہ جائے امن ہے۔ (آل عمران :97) 4۔ بیت اللہ جائے ثواب ہے۔ (البقرۃ:125) 5۔ بیت اللہ قبلہ ہے۔ (البقرۃ:144)