فَرِحَ الْمُخَلَّفُونَ بِمَقْعَدِهِمْ خِلَافَ رَسُولِ اللَّهِ وَكَرِهُوا أَن يُجَاهِدُوا بِأَمْوَالِهِمْ وَأَنفُسِهِمْ فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَقَالُوا لَا تَنفِرُوا فِي الْحَرِّ ۗ قُلْ نَارُ جَهَنَّمَ أَشَدُّ حَرًّا ۚ لَّوْ كَانُوا يَفْقَهُونَ
جو (منافق جہاد میں شریک نہیں ہوئے اور) پیچھے چھوڑ دیئے گئے وہ اس بات پر خوش ہوئے کہ اللہ کے رسول کی خواہش کے خلاف اپنے گھروں میں بیٹھے ہوئے ہیں اور انہیں یہ بات ناگوار ہوئی کہ اپنے مال اور اپنی جانوں سے اللہ کی راہ میں جہاد کریں انہوں نے لوگوں سے کہا تھا اس گرمی میں (گھر کا آرام چھوڑ کر) کوچ نہ کرو۔ (اے پیغمبر) تم کہو دوزخ کی آگ کی گرمی تو (اس سے) کہیں زیادہ گرم ہوگی اگر انہوں نے سمجھا ہوتا (تو کبھی اپنی اس حالت پر خوش نہ ہوتے)
فہم القرآن : (آیت 81 سے 82) ربط کلام : گذشتہ سے پیوستہ۔ منافقین کے لیے بخشش کی دعا کرنا اس لیے بھی جائز نہیں یہ خود جان بوجھ کر جہاد سے پیچھے رہنے والے اور لوگوں کو جہاد سے بددل کرنے والے ہیں۔ مُخَلّفَ کی جمع مُخَلَّفُوْنَ ہے جس کا معنی ہے وہ لوگ جنھیں ان کے عذربہانوں اور شرارتوں کی وجہ سے پیچھے چھوڑ دیا گیا۔ منافقین کی کوشش ہوتی تھی کہ وہ کوئی نہ کوئی بہانہ بنا کر جہاد کے لیے نکلنے کے بجائے اپنے گھروں میں بیٹھے رہیں بظاہر تو وہ اپنے آپ میں خوش ہوتے کہ ہم نے پیچھے رہنے کی باضابطہ اجازت لی ہے لیکن حقیقت یہ تھی کہ اللہ کے رسول جانتے تھے کہ یہ لوگ جھوٹے بہانے اور خود ساختہ مجبوریاں پیش کرکے جہاد سے پیچھے رہنا چاہتے ہیں اس لیے آپ انھیں بیٹھ رہنے کی اجازت دیتے تاکہ ان کی شرارتوں سے اسلامی لشکر مامون ہوجائے اور دوسری طرف لوگوں کے سامنے یہ بات آشکار ہوجائے کہ یہ لوگ اسلام کے بارے میں مخلص نہیں ہیں اس کے باوجود مال غنیمت کے لالچ اور مسلمانوں کی مخبری کرنے کے لیے کچھ منافق شریک جہاد ہوجایا کرتے تھے۔ یہاں پیچھے رہنے والوں کے لیے مُخَلَّفُوْنَ کا لفظ استعمال فرما کر واضح کیا گیا ہے کہ ان کو ان کی شرارت اور بدنیتی کی وجہ سے پیچھے چھوڑ دیا گیا ہے کیونکہ انھوں نے اپنے مال اور جان کے ساتھ اللہ کی راہ میں جہاد کرنے کو ناپسند کیا اور لوگوں کو یہ کہہ کر ڈرایا کہ تبوک کا سفر طویل ہے اور شدید گرمی پڑ رہی ہے۔ جہاد کے لیے نکلنا گویا کہ اپنے آپ کو موت کے منہ میں دھکیلنا ہے۔ اس پر انھیں بتلایا گیا کہ تم دنیا کی گرمی کا بہانہ بناتے ہو ذرا اپنے مستقبل کی طرف جھانکو اور وہ وقت یاد کرو کہ جب جہنم میں تمھیں جھونکا جائے گا اس کی آگ کتنی شدید تر ہوگی کاش تم لوگ سمجھ جاؤ۔ منافق غزوۂ تبوک کی طرف نکلنے والے مسلمانوں کو یہ کہہ کر مذاق اڑاتے کہ یہ ہیں سلطنت رومہ کے فاتح جو اسے فتح کرنے کے لیے نکل رہے ہیں۔ اس پر منافقوں کو سمجھایا گیا کہ ہنسو تھوڑا اور روؤ زیادہ جو کچھ کر رہے ہو اس کی سزا پاؤ گے کیونکہ دنیا کی خوشیاں آخرت کے مقابلے میں نہایت قلیل ہیں اور جو لوگ کفر و شرک اور منافقت کی حالت میں مریں گے ان کے لیے جہنم میں رونا ہی رونا ہوگا۔ (عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ عَنِ النَّبِیِّ (ﷺ) قَالَ أُوقِدَ عَلَی النَّارِ أَلْفَ سَنَۃٍ حَتَّی احْمَرَّتْ ثُمَّ أُوقِدَ عَلَیْہَا أَلْفَ سَنَۃٍ حَتَّی ابْیَضَّتْ ثُمَّ أُوقِدَ عَلَیْہَا أَلْفَ سَنَۃٍ حَتَّی اسْوَدَّتْ فَہِیَ سَوْدَاءُ مُظْلِمَۃٌ) [ رواہ الترمذی : کتاب صفۃ جہنم] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول معظم (ﷺ) نے فرمایا ایک ہزار سال تک دوزخ کی آگ کو بھڑکایا گیا یہاں تک کہ وہ سرخ ہوگئی پھر اس کو ایک ہزار سال تک بھڑکا یا گیا حتیٰ کہ وہ سفید ہوگئی پھر اس کو ایک ہزار سال تک بھڑکایا گیا حتیٰ کہ وہ سیاہ ہوگئی اب وہ سیاہ ہے۔“ ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں بلاشبہ رسول مکرم (ﷺ) نے فرمایا تمہاری دنیاوی آگ جہنم کی آگ کے سترویں درجے کی ہے۔ رسول معظم (ﷺ) سے عرض کی گئی یہ ہی کافی تھی۔ آپ (ﷺ) نے فرمایا وہ اس سے انہتر درجے زیادہ سخت ہے اور ہر درجہ دوسرے سے زیادہ تیزتر ہے۔“ [ رواہ البخاری : کتاب بدء الخلق] مسائل :1۔ منافق کی منافقت کی وجہ سے اللہ تعالیٰ پسند نہیں کرتا کہ یہ اس کی راہ میں جہاد کرے۔ 2۔ منافقوں کو پیچھے چھوڑ دینا چاہیے۔ ٣۔ جہنم کی آگ دنیا کی آگ سے انہتر گنا زیادہ ہے۔ 3۔ انسان کو تھوڑا ہنسنا اور اللہ کے حضور زیادہ رونا چاہیے۔ تفسیر بالقرآن :جہنم کی آگ کی کیفیت : 1۔ جہنم کا ایندھن لوگ اور پتھر ہوں گے۔ (البقرۃ:24) 2۔ جہنم کی آگ بہت زیادہ گرم ہوگی۔ (التوبۃ:81) 3۔ مجرم لوگ جہنم کے گرجنے برسنے کی آوازیں سنیں گے۔ (الفرقان :12) 4۔ جہنم بھرنے کا نام نہیں لے گی۔ (ق :30) 5۔ جہنم کا ایندھن لوگ اور پتھر ہوں گے اور اس پر سخت گیر فرشتوں کی ڈیوٹی لگائی گئی ہے۔ (التحریم :6) 6۔ مجرموں کو جب جہنم میں ڈالا جائے گا تو وہ اس کی گرج دار آواز سنیں گے۔ (الملک :7) 7۔ جہنم سے بڑے بڑے محلات کے برابر شعلے اٹھیں گے۔ ( المرسلٰت :32)