وَمِنْهُم مَّنْ عَاهَدَ اللَّهَ لَئِنْ آتَانَا مِن فَضْلِهِ لَنَصَّدَّقَنَّ وَلَنَكُونَنَّ مِنَ الصَّالِحِينَ
اور (دیکھو) ان میں (کچھ لوگ) ایسے بھی ہیں جنہوں نے اللہ سے عہد کیا تھا کہ اگر وہ اپنے فضل سے ہمیں (مال و دولت) عطا فرمائے گا تو ہم ضرور خیرات کریں گے اور ضرور نیکی کی زندگی بسر کریں گے۔
فہم القرآن : (آیت 75 سے 78) ربط کلام : گذشتہ سے پیوستہ۔ منافقین کا صدقہ کرنے کے بارے میں فکر و عمل۔ عام طور پر انسانی فطرت ہے کہ جب آدمی عسر اور تنگدستی کی حالت میں ہوتا ہے تو اپنے رب کی بار گاہ میں بار بار التجا کرتا ہے کہ اگر مجھے تو نگری عطا کردی جائے تو میں شکر ادا کرتے ہوئے تیری راہ میں بےدریغ خرچ کروں گا۔ لیکن جب اللہ تعالیٰ کا فضل ہوجائے تو پھر انسان کو کئی قسم کی سوچیں لاحق ہوجاتی ہیں۔ وہ اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کے بجائے یہ کہہ کر اپنی ضروریات بڑھاتا چلا جاتا ہے کہ اگر فلاں کام مکمل ہونے کے بعد میں ضرور رب کی راہ میں خرچ کروں گا۔ بالآخر وہ بخل کی زنجیر میں اس طرح جکڑا جاتا ہے کہ جس سے نکلنا اس کے لیے زندگی بھر مشکل ہوجاتا ہے۔ یہی صورتحال مدینہ کے منافقین کی تھی۔ غنائم ملنے اور خوش حال ہونے سے پہلے اپنی مجالس میں بیٹھے ہوئے کہا کرتے تھے کہ قتال میں حصہ لینا تو مشکل ہے البتہ جب ہمارا ہاتھ کشادہ ہوا تو ہم بھرپور طریقے سے مجاہدین کی مدد اور غرباء کے ساتھ تعاون کریں گے۔ لیکن جوں جوں ان کے پاس مال کی فراوانی ہوتی گئی وہ کنجوس سے کنجوس تر ہوتے چلے گئے۔ اسی کیفیت کو یہاں بیان کیا گیا ہے کہ ان میں بہت سے لوگ ایسے ہیں جو دل اور زبان کے ساتھ اللہ تعالیٰ سے عہد کرتے رہے کہ اگر اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے نواز دے تو ہم اس کی راہ میں ضرور صدقہ کریں گے اور اس کے صالح بندوں میں شمار ہوں گے۔ لیکن جب اللہ تعالیٰ نے انھیں کشادگی سے نوازا اور رسول کریم (ﷺ) نے غنیمت کے مال سے انھیں مالا مال کردیا۔ خرچ کرنا تو درکنار وہ اپنی منافقت اور کنجوسی میں آگے ہی بڑھتے چلے گئے۔ اس آیت کی تفسیر میں حضرت ثعلبہ (رض) کا واقعہ بیان جاتا کیا ہے کہ یہ آیت ان کے بارے میں نازل ہوئی تھی۔جو پہلے اس قدر غریب تھے کہ غربت اور تنگدستی کی وجہ سے زیادہ وقت مسجد نبوی میں بسر کرتے یہاں تک کہ لوگوں نے انھیں حمامۃ المسجد کا لقب دیا یعنی مسجد میں رہنے والی کبوتری۔ ایک دن وہ اللہ کے نبی (ﷺ) کی خدمت میں عرض کرنے لگے کہ مجھے اللہ تعالیٰ مال عنایت فرما دے تو میں بھی دوسرے لوگوں کی طرح دل کھول کر صدقہ کروں گا۔ نبی اکرم (ﷺ) نے فرمایا اے ثعلبہ ! مال ایک آزمائش ہے اس لیے اس طرح ہی گزر بسر کرتے رہو۔ لیکن اس نے اصرار کیا۔ بالآخر آپ نے اس کے حق میں دعا کی نتیجتاً اس کی بھیڑ بکریاں اور اونٹ اس قدر زیادہ ہوگئے کہ پہلے جماعت کے ساتھ نماز چھوٹی پھر جمعہ بھی مسجد نبوی میں پڑھنا مشکل ہوگیا۔ زکوٰۃ کا مہینہ آیا۔ اللہ کے رسول کے نمائندے زکوٰۃ کی وصولی کے لیے پہنچے تو کہنے لگا یہ ایک چٹی اور جرمانے کے سوا کچھ نہیں۔ عاملین نے رسول معظم کو رپورٹ پیش کی تو آپ نے فرمایا۔ ثعلبہ ہلاک ہوگیا۔ جب اسے آپ کے الفاظ پہنچے تو وہ زکوٰۃ کا مال لے کر حاضر ہوا لیکن آپ نے اس کی زکوٰۃ وصول کرنے سے انکار کردیا۔ اگلا سال آنے سے پہلے نبی اکرم (ﷺ) وفات پا گئے۔ وہ اپنی زکوٰۃ خلیفہ اول کے پاس لایا۔ خلیفہ نے یہ کہہ کر زکوٰۃ کی وصولی سے انکار کیا کہ جس مال کو رسول معظم (ﷺ) نے قبول نہیں کیا میں قبول کرنے والا کون ہوتا ہوں۔ حضرت ابو بکر صدیق (رض) کے بعد خلیفہ ثانی حضرت عمر (رض) نے بھی اس کی زکوٰۃ قبول نہ کی۔ صحیح تحقیق کے مطابق یہ واقعہ ثابت نہیں ہے کیونکہ حضرت ثعلبہ (رض) بدری صحابی ہیں جو نہایت مخلص اور سچے مسلمان تھے۔ اس لیے ان آیات کو منافقین پر ہی چسپاں کرنا چاہیے اور وہی ایسی حرکات کے مرتکب ہوتے تھے۔ جہاں تک ان کی زکوٰۃ قبول نہ کرنے کا معاملہ ہے وہ اس لیے ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے بارے میں یہ اعلان کردیا ہے کہ ان کے دلوں میں ان کے مرنے تک نفاق گھر کرچکا ہے۔ اب انھیں توبہ نصیب نہیں ہوگی کیونکہ یہ اپنے رب سے بار بار عہد شکنی اور کذب بیانی کرنے والے ہیں۔ انھیں اس بات کی خبر ہونی چاہیے کہ اللہ تعالیٰ جلوت و خلوت اور ان کی زندگی کے خفیہ رازوں سے پوری طرح واقف ہے۔ (عَنْ اَبِیْ سَعِیْدٍ (رض) عَنِ النَّبِیِّ (ﷺ) قَالَ لِکُلِّ غَادِرٍ لِوَآءٌ عِنْدَ اِسْتِہٖ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ۔ وَفِیْ رَوَایَۃٍ لِکُلِّ غَادِرٍ لِوَآءٌ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ یُرْفَعُ لَہٗ بِقَدَرِ غَدْرِہٖ اَ لَاوَلَا غَادِرَ اَعْظَمُ غَدْرًا مِّنْ اَمِیْرِ عَامَّۃٍ)[ رواہ مسلم] ” حضرت ابو سعید (رض) بیان کرتے ہیں نبی مکرم (ﷺ) نے فرمایا قیامت کے دن ہر عہد شکن انسان کی دبر کے قریب جھنڈا ہوگا۔ ایک روایت میں ہے ہر عہد شکن کے لیے قیامت کے دن جھنڈا ہوگا‘ جو اس کی عہد شکنی کے مطابق بلند کیا جائے گا۔ خبردار! سربراہ مملکت سے بڑھ کر کسی کی عہد شکنی نہیں ہوتی۔“ مسائل : 1۔ منافق اللہ تعالیٰ سے جھوٹے وعدے کرتا ہے۔ 2۔ خوشحالی ہوتے ہی منافق اللہ تعالیٰ سے کیے وعدوں کو بھول جاتے ہیں۔ 3۔ اللہ تعالیٰ پوشیدہ باتوں کو بھی خوب جانتا ہے۔ 4۔ غیب کا علم صرف اللہ تعالیٰ کے پاس ہے۔ تفسیر بالقرآن: اللہ تعالیٰ ظاہر اور پوشیدہ کو جانتا ہے : 1۔ کیا وہ نہیں جانتے کہ اللہ تعالیٰ ظاہر اور پوشیدہ کو جانتا ہے۔ (البقرۃ:77) 2۔ اللہ تعالیٰ آسمانوں اور زمین کی ہر ظاہر اور پوشیدہ چیز کو جانتا ہے۔ (الانعام :3) 3۔ کیا وہ نہیں جانتے کہ اللہ تعالیٰ ان کی پوشیدہ سرگرشیوں کو بھی جانتا ہے۔ (التوبۃ:78) 4۔ اللہ تعالیٰ جانتا ہے جو تم چھپاتے اور جو تم ظاہر کرتے ہو۔ (النحل :19) 5۔ اچھی طرح ذہن نشین کرلو کہ اللہ تعالیٰ پوشیدہ اور آہستہ کہی ہوئی بات جانتا ہے۔ (طٰہٰ:7) 6۔ اس کتاب کو نازل کرنے والی وہ ذات ہے جو آسمانوں و زمین کے پوشیدہ رازوں سے واقف ہے۔ (الفرقان :6)