يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ جَاهِدِ الْكُفَّارَ وَالْمُنَافِقِينَ وَاغْلُظْ عَلَيْهِمْ ۚ وَمَأْوَاهُمْ جَهَنَّمُ ۖ وَبِئْسَ الْمَصِيرُ
اے پیغمبر ! کافروں اور منافقوں دونوں سے جہاد کر اور ان کے ساتھ سختی سے پیش آ (کیونکہ کافروں کی عہد شکنیاں اور منافقوں کا عذر فریب اب آخری درجہ تک پہنچ چک ہے) بالآخر ان کا ٹھکانا دوزخ ہے (اور جس کا آخری ٹھکانا دوزخ ہو تو) کیا ہی بری پہنچنے کی جگہ ہے۔
فہم القرآن : ربط کلام : منافقوں کو انتباہ کرنے کے بعد مومنوں کے اوصاف اور ان کے انعامات کا ذکر فرمایا۔ درمیان میں آٹھ آیات چھوڑ کر ایک سو دس آیات تک مسلسل منافقین کے کردار اور انجام کا ذکر ہوگا۔ مدینہ پہنچنے کے بعد نبی محترم (ﷺ) کو منافقین کے ساتھ واسطہ پڑا آپ آٹھ سال مسلسل انھیں سمجھاتے اور معاف کرتے رہے۔ اس کے باوجود یہ باز نہ آئے یہاں تک کہ آپ تبوک سے کامیاب واپس آئے۔ لیکن ان بدفطرت لوگوں نے تبوک کے سفر میں بھی اپنی سازشیں جاری رکھیں۔ اس کے باوجود آپ درگزر سے کام لیتے رہے۔ بالآخر اللہ تعالیٰ کا حکم آن پہنچاکہ اب پانی سر سے گزر چکا ہے۔ لہٰذا منافقین سے سختی اختیار کیجیے۔ یہاں منافقین پر سختی سے یہ مراد نہیں کہ سماجی اور معاشرتی زندگی میں ان کے ساتھ بد اخلاقی یا کسی قسم کی زیادتی کی جائے۔ اسلامی معاشرے میں منافق اور مسلمان کے معاشرتی حقوق یکساں ہوتے ہیں۔ جس طرح مسلمان کی جان و مال اور عزت و آبرو محترم ہے اسی طرح ہی کافر اور منافق کی عزت و آبرو اور مال و جان محفوظ ہونے چاہییں۔ منافقین پر سختی کا حکم اسلام نے پہلے دن سے ہی جاری نہیں کردیا تھا بلکہ انھیں مسلسل آٹھ سال موقعہ دیا کہ اپنی اصلاح کرلیں بار بار معافی دینے کے باوجود یہ لوگ اپنی منافقت میں دلیر ہوتے چلے گئے ہر جنگ میں کفار کا ساتھ دیتے مکہ فتح ہونے کے بعد رومیوں کے ساتھ ساز باز کی۔ مسلمانوں کو جنگ میں شرکت اور جہاد کے لیے صدقہ کرنے سے روکا۔ رسول محترم اور مسلمانوں کو خاکم بدہن ذلیل کیا۔ ام المومنین حضرت عائشہ (رض) پر تہمت لگائی مسلمانوں کو آپس میں لڑانے کی کوششیں کیں گویا کہ ان کے جرائم کی فہرست دن بدن طول پکڑتی جارہی تھی لہٰذا اب وقت آن پہنچا تھا کہ منافقین پر سختی کی جائے اس سختی سے مراد یہ ہے کہ آئندہ ایسے لوگوں کے ساتھ ایسا وطیرہ اختیار کیا جائے کہ انھیں پوری طرح احساس ہو کہ مسلمان ہماری منافقت کو اچھی طرح سمجھ چکے ہیں۔ ظاہر ہے ایسی صورت میں کوئی مسلمان ان کے ساتھ ہم مشرب اور ہم مجلس ہونے کے لیے تیار نہیں تھا یہ لوگ مسلم معاشرے میں خود بخود اچھوت بن کررہ گئے۔ اخلاقی دنیا میں اس سے بڑھ کر کوئی سزا نہیں ہو سکتی آخرت میں ان کے لیے جہنم ہوگی جو مجرموں کیلئے بدترین ٹھکانہ ہے۔ دنیا میں اس سے بڑھ کر کیا ذلت ہو سکتی ہے کہ اللہ کے رسول نے غزوۂ تبوک سے واپس آکر منافقین کی بنائی ہوئی مسجد کو جسے اللہ تعالیٰ نے مسجد ضرار قرار دیا آگ لگا کر ختم کردیا تھا جس کی تفصیل اسی سورۃ کی، آیت : ١٠٨ میں ملاحظہ فرمائیں۔ (عَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (ﷺ) اٰیَۃُ الْمُنَافِقِ ثَلٰثٌ زَادَ مُسْلِمٌ وَاِنْ صَامَ وَصَلّٰی وَزَعَمَ اَنَّہُ مُسْلِمٌ ثُمَّ اتَّفَقَا اِذَا حَدَّثَ کَذَبَ وَاِذَا وَعَدَ اَخْلَفَ وَاِذَا اءْتُمَنَّ خَانَ۔ )[ مسلم] حضرت ابوہریرہ (رض) آپ (ﷺ) کا فرمان ذکر کرتے ہیں منافق کی تین نشانیاں ہیں۔ (بخاری اور مسلم نے اس پر اتفاق کیا ہے) کہ (1) جب وہ بات کرے تو جھوٹ بولتا ہے (2) اور جب وعدہ کرے تو وعدہ خلافی کرتا ہے (3) جب اسے امانت دی جائے تو خیانت کرتا ہے۔ مسلم نے ان الفاظ کا اضافہ کیا ہے ” چاہے روزے رکھتا اور نماز پڑھتا ہو اور اپنے آپ کو مسلمان سمجھتا ہو۔“ مسائل :1۔ کفار کے خلاف جہاد کرنا چاہیے۔ 2۔ منافقین کے ساتھ بے رخی اختیار کرنا لازم ہے۔ 3۔ کفار اور منافقین کا ٹھکانہ جہنم ہوگا۔ تفسیر بالقرآن :منافق کا انجام : 1۔ اللہ تعالیٰ نے منافقین کے ساتھ جہاد کرنے اور ان پر سختی کرنے کا حکم دیا ہے۔ اور ان کا ٹھکانہ جہنم ہے۔ (التوبۃ:73) 2۔ منافق کے لیے دردناک عذاب ہوگا۔ (البقرۃ:10) 3۔ منافق جہنم کے نچلے گڑھے میں ہوں گے اور ان کا کوئی مددگار نہیں ہوگا۔ (النساء :145) 4۔ منافق جہنم میں ہمیشہ رہیں گے اور ان پر اللہ تعالیٰ کی لعنت و پھٹکار پڑتی رہے گی۔ (التوبۃ:68) 5۔ اللہ تعالیٰ کی نظروں میں منافق لعنتی ہیں۔ (الاحزاب :61) 6۔ اے نبی (ﷺ) کفار اور منافقین کے ساتھ جہاد کریں اور ان پر سختی کریں ان کا ٹھکانہ جہنم ہے۔ ( التحریم :9 )