سورة التوبہ - آیت 71

وَالْمُؤْمِنُونَ وَالْمُؤْمِنَاتُ بَعْضُهُمْ أَوْلِيَاءُ بَعْضٍ ۚ يَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنكَرِ وَيُقِيمُونَ الصَّلَاةَ وَيُؤْتُونَ الزَّكَاةَ وَيُطِيعُونَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ ۚ أُولَٰئِكَ سَيَرْحَمُهُمُ اللَّهُ ۗ إِنَّ اللَّهَ عَزِيزٌ حَكِيمٌ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

اور جو مرد اور عورتیں مومن ہیں تو وہ سب ایک دوسرے کے کارساز و رفیق ہیں، نیکی کا حکم دیتے ہیں، برائی سے روکتے ہیں نماز قائم رکھتے ہیں، زکوۃ ادا کرتے ہیں اور (ہرحال میں) اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرتے ہیں۔ سو یہی لوگ ہیں جن پر عنقریب اللہ رحمت فرمائے گا، یقینا اللہ سب پر غالب اور (اپنے تمام کاموں میں) حکمت رکھنے والا ہے۔

تفسیرفہم قرآن - میاں محمد جمیل

فہم القرآن : ربط کلام : منافقین کے بعد مومنین کا تذکرہ۔ ان کے اوصاف اور اجر وثواب کا بیان۔ پہلے پانچ پاروں کی تفسیر کے دوران دو تین مرتبہ عرض کیا ہے کہ قرآن مجید کا مستقل اسلوب ہے کہ وہ جنت اور جہنم کا ایک دوسرے کے ساتھ ذکر کرتا ہے تاکہ قاری تلاوت قرآن کرتے ہوئے ایک لمحہ میں فیصلہ کرسکے کہ اس نے دونوں میں سے کس کا انتخاب کرنا ہے۔ اسی طرح قرآن مجید کا یہ بھی طرز بیان ہے کہ وہ کفار اور منافقین کے بعد اکثر مقامات پر مومنوں کے اوصاف کا تذکرہ کرتا ہے تاکہ قرآن مجید پڑھنے والا موقعہ پر فیصلہ کرپائے کہ مجھے کون سا کردار اختیار کرنا چاہیے۔ اسی اصول کے پیش نظر منافقوں کے بعد مخلص مسلمانوں کا ذکر کیا جا رہا ہے کہ اگر منافق ایک دوسرے کے ساتھی ہیں تو ایمان والے بھی ایک دوسرے کے جانثار اور خیر خواہ ہیں۔ اسی بھائی چارے اور خیر خواہی کا نتیجہ ہے کہ وہ ایک دوسرے کو نیکی کی تلقین کرتے اور حکم دیتے ہیں اور برائی سے ایک دوسرے کو روکتے ہیں۔ نماز قائم کرنے، زکوٰۃ دینے کے ساتھ وہ اللہ اور اس کے رسول کی ہر حال میں اطاعت کرتے ہیں۔ ایسے خوش بخت لوگوں پر اللہ ضرور کرم فرمائے گا اللہ تعالیٰ ہر فیصلہ کرنے پر غالب اور اس کے ہر حکم اور کام میں حکمت پنہاں ہوتی ہے۔ آیت کے آخر میں عزیز کا لفظ استعمال فرما کر مسلمانوں کو تسلی دی ہے کہ ایک دوسرے کی خیر خواہی اور نیکی کے کاموں پر عمل کرتے رہو۔ اللہ تعالیٰ تمھیں ضرور غالب کرے گا۔ (عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ أَنَّ رَسُول اللّٰہِ () قَالَ مَنْ دَعَا إِلَی ہُدًی کَانَ لَہٗ مِنْ الْأَجْرِ مِثْلُ أُجُورِ مَنْ تَبِعَہٗ لَا یَنْقُصُ ذَلِکَ مِنْ أُجُورِہِمْ شَیْئًا وَّمَنْ دَعَا إِلَی ضَلَالَۃٍ کَانَ عَلَیْہِ مِنَ الْإِثْمِ مِثْلُ آثَامِ مَنْ تَبِعَہٗ لَا یَنْقُصُ ذَلِکَ مِنْ آثَامِہِمْ شَیْئًا) [ رواہ مسلم : کتاب العلم، باب من سن سنۃ] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں بلاشبہ رسول معظم (ﷺ) نے فرمایا جو کوئی کسی کو ہدایت کی طرف بلاتا ہے اس کے لیے اتنا ہی اجر ہوگا جتنا اس کی پیروی کرنے والوں کو ملے گا اور اس کے اجر سے کچھ بھی کم نہیں ہوگا اور جو کوئی گمراہی کی طرف بلائے اس کے لیے بھی اتنا ہی گناہ ہے جتنا اس کی پیروی کرنے والوں پر۔ اور مجرموں کے گناہوں سے کچھ کم نہیں ہوگا۔“ مسائل : 1۔ مومن ایک دوسرے کے خیر خواہ ہوتے ہیں۔ 2۔ مومن وہ ہے جو نیکی کا حکم دے اور برائی سے منع کرے۔ 3۔ مومن کی صفت یہ ہے کہ وہ نماز کی پابندی اور زکوٰۃ کی ادائیگی کا اہتمام کرتا ہے۔ 4۔ مومن ہر حال میں اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرتا ہے۔ تفسیر بالقرآن : مومنوں کے کردارکی ایک جھلک : 1۔ مومن ایک دوسرے کے دوست ہیں۔ نیکی کا حکم دیتے ہیں اور برائی سے روکتے ہیں۔ نماز قائم کرتے ہیں، زکوٰۃ ادا کرتے ہیں اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرتے ہیں۔ (التوبۃ:71) 2 مومنوں کے سامنے جب اللہ کا ذکر کیا جاتا ہے تو ان کے دل میں اللہ کا خوف پیدا ہوجاتا ہے اور جب اللہ کی آیات کی تلاوت کی جاتی ہے تو ان کے ایمان میں اضافہ ہوجاتا ہے اور مومن اپنے رب پہ توکل کرتے ہیں۔ (الانفال :2) 3۔ مومن ایک دوسرے کی مدد کرتے ہیں۔ (الانفال :74) 4۔ مومن نمازوں میں خشوع و خضوع اختیار کرتے ہیں۔ (المؤمنون : 1تا2) 5۔ مومن دنیا کے لاؤ لشکر کو دیکھ کر ڈرتے نہیں بلکہ وہ کہتے ہیں۔ اللہ اور اس کے رسول کا وعدہ سچا ہے۔ (الاحزاب :22) 6۔ مومن اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لاتے ہیں اور مشکلات و مصائب کی وجہ سے ایمان سے پھرتے نہیں۔ (الحجرات :15)