لَوْ يَجِدُونَ مَلْجَأً أَوْ مَغَارَاتٍ أَوْ مُدَّخَلًا لَّوَلَّوْا إِلَيْهِ وَهُمْ يَجْمَحُونَ
(ان کے دلوں کے خوف و نفرت کا یہ حال ہے کہ) اگر انہیں پناہ کی کوئی جگہ مل جائے یا کوئی غار یا کوئ اور چھپ بیٹھنے کا سوراخ تو تم دیکھو کہ یہ فورا اس کا رخ کریں اور حالت یہ ہو کہ گویا رسی توڑ کر بھاگے جارہے ہیں۔
فہم القرآن : ربط کلام : مسلمانوں کو حلف دینے اور اس بات کی یقین دہانی کروانے کے باوجود کہ ہم کفار کی بجائے تمھارے ساتھی ہیں منافقوں کے دل کی کیفیت یہ تھی۔ منافقت کے دیگر اسباب کے ساتھ ایک سبب یہ بھی ہے کہ منافق بزدل اور ڈرپوک ہوتا ہے جس کی وجہ سے اس کے ظاہر اور باطن میں تضاد قائم رہتا ہے۔ خاص کر جب مسلمان طاقت ور ہوں تو منافق اپنی منافقت میں پکا اور گہرا ہوجاتا ہے۔ یہی صورت حال مدینہ کے منافقین کی تھی۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول اور مومنوں کو ہر میدان میں کامیابیاں عطا فرمائیں یہاں تک کہ اس زمانے کی واحد سیاسی سپر پاور روم بھی مسلمانوں کے مقابلہ میں آنے کی جرأت نہ کرسکی۔ ادھر پورا حجاز بھی اسلام کے زیر نگین ہوچکا تھا ایسی صورت حال میں منافق جائیں تو کہاں جائیں حالانکہ کہ ان کے دل کی کیفیت اور منفی جذبات کا عالم یہ تھا کہ اگر انھیں دنیا میں کوئی پناہ گاہ ملتی تو ضرور اس کی طرف نکل کھڑے ہوتے۔ ان کی حالت بیان کرتے ہوئے کہا جا رہا ہے اگر انھیں پناہ گاہ یا کوئی غار یا سرچھپانے کی معمولی جگہ ملے تو یہ وہاں جانے کے لیے بے تاب ہوں۔ اس سے اندازہ کیجیے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے وعدہ کے مطابق منافقوں کو کس طرح حقیر اور ذلیل کیا کہ وہ اپنے اندر ہی اندر گھلتے جا رہے تھے اور اس فکر میں تھے کہ سرچھپانے کی کوئی جگہ مل جائے لیکن مسلمانوں کے بغیر انھیں کہیں بھی پناہ نہ مل سکی۔ اس طرح رب ذوالجلال کا یہ فرمان حرف بہ حرف پور اہو ا۔ ﴿ وَلِلّٰہِ الْعِزَّۃُ وَلِرَسُولِہِ وَلِلْمُؤْمِنِینَ وَلٰکِنَّ الْمُنَافِقِینَ لَا یَعْلَمُونَ﴾[ المنافقون :8] ” کہ عزت تو اللہ اور اس کے رسول اور مومنوں کے لیے ہے لیکن منافق اسے نہیں سمجھتے۔“ مسائل :1۔ منافق ہر وقت اپنے دل میں پریشان رہتا ہے۔ 2۔ مسلمانوں کا غلبہ دیکھ کر منافق کسی پناہ گاہ کی تلاش میں رہتا ہے۔