إِن تُصِبْكَ حَسَنَةٌ تَسُؤْهُمْ ۖ وَإِن تُصِبْكَ مُصِيبَةٌ يَقُولُوا قَدْ أَخَذْنَا أَمْرَنَا مِن قَبْلُ وَيَتَوَلَّوا وَّهُمْ فَرِحُونَ
(اے پیغمبر) اگر تمہیں کوئی اچھی بات پیش آجائے تو وہ انہیں (یعنی منافقوں کو) بری لگے اور اگر کوئی مصیبت پیش آجائے تو کہنے لگیں : اسی خیال سے ہم نے پہلے ہی اپنے لیے مصلحت بینی کرلی تھی، اور پھر گردن موڑ کے خوش خوش چل دیں۔
فہم القرآن : (آیت 50 سے 51) ربط کلام : منافقین کی اسلام اور مسلمانوں کے بارے میں قلبی کیفیت اور ان کا حسد و بغض کا اظہار۔ منافقت کے بنیادی اسباب میں سے ایک سبب حسد بھی ہے۔ منافقوں کے سردار عبداللہ بن ابی کی منافقت کا بنیادی سبب حسد ہی تھا۔ جس کی وجہ یہ ہوئی کہ نبی معظم (ﷺ) کی مدینہ تشریف آوری سے پہلے انصار کے قبیلے اوس اور خزرج نے یہودیوں کا مقابلہ کرنے کے لیے عبداللہ بن ابی کو اپنا قائد بنانے کا فیصلہ کرلیا تھا۔ جب رسول معظم (ﷺ) کا مدینہ میں ورود مسعود ہوا تو لوگوں کی توجہ کا مرکز آپ کی ذات اقدس بن گئی جس کی وجہ سے عبداللہ بن ابی کی تاج پوشی کا پروگرام ہمیشہ کے لیے ختم ہوا۔ اس بنا پر عبداللہ بن ابی ہمیشہ کے لیے آپ اور مسلمانوں کا دشمن بنا لیکن مسلمانوں کی طاقت اور اوس وخزرج کے اسلام قبول کرنے کی وجہ سے وہ کھل کر مخالفت نہیں کرسکتا تھا۔ اس بنا پر اس نے اندر ہی اندر منافقوں کی اچھی خاصی تعداد تیار کرلی اور یہ لوگ ہر آڑے وقت میں خفیہ یا اعلانیہ مسلمانوں کی مخالفت کیا کرتے تھے۔ مسلمانوں کو بدر، احزاب، خیبر اور فتح مکہ میں کامیابی حاصل ہوئی۔ چاہیے تو یہ تھا کہ یہ لوگ شرح صدر کے ساتھ سمجھتے کہ مسلمان اسلام کی حقانیت کی وجہ سے کامیاب ہو رہے ہیں لیکن حسد وہ بیماری ہے کہ جب تک انسان اس سے سچی توبہ اور حاسدانہ حرکات سے اجتناب نہیں کرتا یہ مرض کینسر کی طرح پھیلتا ہی جاتا ہے یہی سبب تھا کہ منافقین ہر وقت اس انتظار میں رہتے تھے کہ مسلمانوں کو کب نقصان پہنچتا ہے۔ منافقین کے اسی برے جذبہ کی نشاندہی کرتے ہوئے نبی اکرم (ﷺ) کو باخبر کیا گیا ہے کہ اے رسول (ﷺ) اگر آپ کو اچھائی نصیب ہو تو منافقین کہ انتہائی دکھ پہنچتا ہے اور اگر آپ کو کسی قسم کی مصیبت اور پریشانی لاحق ہو تو یہ خوش ہو کر کہتے ہیں کہ ہم بھی اس مصیبت سے دو چار ہوجاتے اگر ہم نے اس کے خلاف منصوبہ بندی نہ کرلی ہوتی۔ انھیں فرمادیجیے کہ جو ہمیں مصیبت یا پریشان پہنچتی ہے وہ اللہ تعالیٰ کی تقدیر کا نتیجہ ہے۔ وہی ہمارا مالک اور مولاہے ہمارا اسی پر بھروسہ اور اعتماد ہے اور ہم اپنے مالک کی تقدیر پر دل و جان کے ساتھ راضی ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ ہر صاحب ایمان کو اللہ تعالیٰ پر ہی اعتماد اور بھروسہ کرنا چاہیے۔ یہاں ﴿ ہَوَ مُوَلَانَا﴾ کے الفاظ استعمال فرما کر منافقین کے مقابلے میں نبی اکرم (ﷺ) اور مومن کامل کی دل کی کیفیت بیان کی گئی ہے مومن وہ ہوتا ہے جو عسرو یسر میں اپنے رب پر راضی رہتا ہے۔ (عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ (رض) قَالَ قَالَ رَسُول اللّٰہِ (ﷺ) لَا یُؤْمِنُ عَبْدٌ حَتَّی یُؤْمِنَ بالْقَدَرِ خَیْرِہِ وَشَرِّہِ حَتَّی یَعْلَمَ أَنَّ مَا أَصَابَہُ لَمْ یَکُنْ لِیُخْطِئَہُ وَأَنَّ مَا أَخْطَأَہُ لَمْ یَکُنْ لِیُصِیبَہُ) [ رواہ الترمذی : کتاب القدر، باب ماجاء فی الایمان بالقدر] ” حضرت جابر بن عبداللہ (رض) بیان کرتے ہیں رسول معظم (ﷺ) نے فرمایا کوئی بھی شخص ایماندار نہیں ہوسکتا جب تک وہ تقدیر کی اچھائی یا برائی پر ایمان نہ لے آئے۔ یہاں تک کہ وہ جان لے جو اس کو ملنے والا ہے وہ اس سے رک نہیں سکتا اور جو اس کو نہیں ملناوہ اس کو مل نہیں سکتا۔“ (عَنِ الْعَبَّاسِ بْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ (رض) أَنَّہُ سَمِعَ رَسُول اللّٰہِ (ﷺ) یَقُولُ ذَاقَ طَعْمَ الْإِیمَانِ مَنْ رَضِیَ باللّٰہِ رَبًّا وَّبِا لإِْسْلَام دینًا وَّبِمُحَمَّدٍ رَسُولًا) [ رواہ مسلم : کتاب الایمان، باب الدلیل علی ان من رضی باللہ ربا] ” حضرت عباس بن عبدالمطلب (رض) بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے رسول اللہ (ﷺ) سے سنا آپ نے فرمایا جو شخص اللہ کے رب ہونے پر، اسلام کے دین ہونے پر اور محمد (ﷺ) کے رسول ہونے پر راضی ہوگیا اس نے ایمان کا لطف اٹھا لیا۔“ مسائل : 1۔ منافق مسلمانوں کو مشقت میں دیکھ کر خوش ہوتے ہیں۔ 2۔ اللہ تعالیٰ نے تنگدستی و خوشحالی پہلے دن انسان کے لیے لکھ دی ہے۔ 3۔ سچے مسلمان اللہ پر ہی توکل کرتے ہیں۔ تفسیر بالقرآن : اللہ پر توکل کے فائدے : 1۔ جو شخص اللہ پر توکل کرتا ہے اللہ اسے کافی ہوجاتا ہے۔ (الطلاق :3) 2۔ اللہ توکل کرنے والوں کو پسند کرتا ہے۔ (آل عمران :159) 3۔ اللہ صبر کرنے والوں اور توکل کرنے والوں کو بہترین اجر عطا فرمائے گا۔ (العنکبوت :59) 4۔ اللہ پر ایمان لانے والوں اور توکل کرنے والوں کے لیے خیر ہی خیر ہے۔ (الشوریٰ :36)