وَلَن تَرْضَىٰ عَنكَ الْيَهُودُ وَلَا النَّصَارَىٰ حَتَّىٰ تَتَّبِعَ مِلَّتَهُمْ ۗ قُلْ إِنَّ هُدَى اللَّهِ هُوَ الْهُدَىٰ ۗ وَلَئِنِ اتَّبَعْتَ أَهْوَاءَهُم بَعْدَ الَّذِي جَاءَكَ مِنَ الْعِلْمِ ۙ مَا لَكَ مِنَ اللَّهِ مِن وَلِيٍّ وَلَا نَصِيرٍ
اور (حقیقت یہ ہے کہ اپنی سچائی کی کتنی ہی نشانیاں پیش کرو، لیکن) یہود اور نصاری تم سے خوش ہونے والے نہیں۔ وہ تو صرف اسی حالت میں خوش ہوسکتے ہیں کہ تم ان کی (بنائی ہوئی) جماعتوں کے پیرو ہوجاؤ (کیونکہ جس بات کو انہوں نے دین سمجھ رکھا ہے وہ گروہ پرستی کے تعصب کے سوا کچھ نہیں) پس تم ان سے (صاف صاف) کہہ دو کہ خدا کی ہدایت کی راہ تو وہی ہے جو ہدایت کی اصلی راہ ہے (نہ کہ تمہاری خود ساختہ گروہ بندیاں) اور یاد رکھو اگر تم نے ان لوگوں کی خواہشوں کی پیروی کی باوجودیکہ تمہارے پاس علم و یقین کی روشنی آچکی ہے تو (یہ ہدایت الٰہی سے منہ موڑنا ہوگا اور پھر) اللہ کی دوستی اور مددگاری سے تم یکسر محرم ہوجاؤگے
فہم القرآن : (آیت 120 سے 121) ربط کلام : اہل کفر اور یہود و نصاریٰ کے تمام کے تمام مطالبات بھی مان لیے جائیں تب بھی یہ ایمان نہیں لائیں گے لہٰذا اے رسول ! آپ اپنا کام کرتے رہیں کیونکہ آپ {ﷺ}کو ان کا ہر مطالبہ پورا کرنے اور ہر حال میں انہیں راضی کرنے کے لیے نہیں بھیجا گیا۔ آپ حق کی شہادت اور ان کے برے کاموں کے انجام سے ڈراتے ہیں۔ ہدایت تو وہی لوگ پائیں گے جو کتاب اللہ کو اخلاص نیت کے ساتھ پڑھتے ہیں۔ صحابہ کرام {رض}کو رہ رہ کر یہ خیال آتا تھا کہ اہل کتاب پڑھے لکھے اور اپنے دین پر قائم ہونے کے دعویدار ہونے کے باوجود رسالت مآب {ﷺ}پر ایمان کیوں نہیں لاتے؟ انہی کو تسلی دینے کے لیے براہ راست رسول محترم {ﷺ}کو خطاب کرتے ہوئے یہود و نصاریٰ کی فطرت خبیثہ کے بارے میں آگاہ کیا جا رہا ہے کہ یہ لوگ اس وقت تک آپ سے خوش نہیں ہو سکتے جب تک آپ لوگ اپنا دین چھوڑ کر ان کے دین کو قبول نہ کرلیں۔ کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ ہدایت تو وہی ہے جس پر وہ قائم ہیں۔ اے نبی! ان سے فرما دیجیے جسے تم ہدایت سمجھتے ہو وہ ہرگز ہدایت نہیں۔ ہدایت تو وہ ہے جس کی رہنمائی اور توفیق اللہ تعالیٰ عطا کرتا ہے۔ یہاں ہمیشہ کے لیے یہ اصول بیان کردیا کہ ہدایت وہ نہیں جس کو کوئی انسان‘ قوم یا کوئی پارلیمنٹ متعین کرے بلکہ حقیقی ہدایت وہ ہے جسے اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید کی صورت میں آپ پر نازل فرمایا ہے۔ اگر علم و معرفت کے باوجود آپ ان کی طرف جھک گئے تو یاد رکھیں کہ جن لوگوں کی حمایت اور خوشی کے لیے آپ ایسا کریں گے وہ تو در کنار کوئی بھی ذات کبریا کے سوا آپ کا خیر خواہ اور مددگار ثابت نہیں ہوگا۔ اس فرمان کا خلاصہ یہ ہے کہ مسلمانوں کو ہر حال میں اللہ تعالیٰ کی نازل کردہ ہدایت اور اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کو پیش نگاہ رکھنا چاہیے۔ اگر مسلمان دوسروں کو خوش کرنے کے لیے اپنا دین اور تہذیب چھوڑدیں گے تو اس طرح یہود و نصاریٰ تو وقتی طور پر خوش ہوں گے لیکن مسلمان اللہ تعالیٰ کی نصرت و حمایت سے محروم ہوجائیں گے۔ جو اللہ تعالیٰ کی نصرت وحمایت سے محروم ہوا اس کی کوئی مدد نہیں کرسکتا۔ اس کے ساتھ ہی اس بات کی وضاحت فرمائی جا رہی ہے کہ اہل کتاب میں وہی لوگ محمد عربی {ﷺ}کی رسالت اور قرآن کی صداقت پر ایمان لائیں گے جو ذہنی تحفظات اور گروہی تعصبات سے بالا تر ہو کر تورات‘ انجیل اور قرآن مجید پر ایمان لاتے ہیں۔ حصول ہدایت کا یہی وہ بنیادی اصول ہے جس کے لیے قرآن بار بار اس بات کی دعوت دیتا ہے۔ کہ اے دنیا جہاں کے لوگو ! کتاب ہدایت میں تدبر وتفکر کرو تاکہ تمہارے لیے ہدایت کا راستہ واضح اور آسان ہوجائے۔ جنہوں نے کتاب اللہ میں تدبر و تفکر سے اجتناب اور اس کے حقائق کا انکار کیا وہ بالآخر نقصان پائیں گئے۔ (عَنْ أَبِی ذَرٍ {رض}قَالَ قَالَ رَسُول اللّٰہِ {ﷺ}إِنَّ بَعْدِی مِنْ أُمَّتِی أَوْ سَیَکُونُ بَعْدِیْ مِنْ أُمَّتِی قَوْمٌ یَقْرَءُ وْنَ الْقُرْآنَ لَا یُجَاوِزُ حَلَاقِیمَہُمْ یَخْرُجُونَ مِنْ الدِّینِ کَمَا یَخْرُجُ السَّہْمُ مِنَ الرَّمِیَّۃِ ثُمَّ لَا یَعُوْدُوْنَ فیہِ ہُمْ شَرُّ الْخَلْقِ وَالْخَلِیقَۃِ) [ رواہ مسلم : کتاب الزکوۃ، باب الخوارج شر الخلق والخلیقۃ] ” حضرت ابوذر {رض}بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ {ﷺ}نے فرمایا : میرے بعد ایک قوم آئے گی وہ قرآن پڑھیں گے لیکن قرآن ان کے حلقوں سے تجاوز نہیں کرے گا۔ وہ دین سے اس طرح نکل جائیں گے جس طرح تیر اپنے ہدف سے نکل جاتا ہے۔ پھر وہ دین کی طرف نہیں لوٹ سکیں گے۔ وہ انسانوں اور جانوروں میں سے بدترین ہوں گے۔“ (عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ {رض}عَنِ النَّبِیِّ {ﷺ}قَالَ مَا أَذِنَ اللّٰہُ لِشَیْءٍ مَا أَذِنَ للنَّبِیِّ أَنْ یَّتَغَنّٰی بالْقُرْآنِ) [ رواہ البخاری : کتاب، فضائل القرآن، باب من لم یتغن بالقرآن] ” حضرت ابوہریرہ {رض}نبی کریم {ﷺ}سے بیان فرماتے ہیں کہ آپ نے فرمایا : اللہ تعالیٰ نے کسی اور چیز کی نبی کو اتنی اجازت نہیں دی جتنی کہ قرآن کو خوبصورت آواز کے ساتھ پڑھنے کی اجازت دی ہے۔“ (عَنِ الْبَرَاءِ بْنِ عَازِبٍ {رض}قَالَ قَالَ رَسُول اللّٰہِ {ﷺ}زَیِّنُوا الْقُرْآنَ بِأَصْوَاتِکُمْ) [ رواہ ابوداوٗد : کتاب الصلاۃ، باب استحباب الترتیل فی القراء ۃ ] ” حضرت براء بن عازب {رض}بیان فرماتے ہیں کہ رسول اللہ {ﷺ}نے فرمایا : قرآن کو اپنی آوازوں کے ساتھ مزین کرو۔“ مسائل : 1۔ جب تک مسلمان یہودی یا عیسائی نہ ہوجائیں یہود ونصاریٰ راضی نہیں ہو سکتے۔ 2۔ کتاب و سنت کی اتباع کے بغیر اللہ تعالیٰ کی ہدایت نصیب نہیں ہوسکتی۔ 3۔ قرآن و سنت کی اتباع کیے بغیر خدا کی نصرت و حمایت حاصل نہیں ہوتی۔ 4۔ قرآن مجید کی تلاوت اس کے تقاضے پورے کرتے ہوئے کرنی چاہیے۔ 5۔ قرآن کی راہنمائی کا انکار کرنے والے دنیا و آخرت میں نقصان اٹھائیں گے۔ تفسیر بالقرآن : خواہشات کی پیروی کرنا جرم ہے : 1۔ اللہ کی راہنمائی آجانے کے بعد اپنی خواہشات کی پیروی نہیں کرنا چاہیے۔ (ص :26) 2۔ فیصلہ کرتے وقت خواہشات کے پیچھے نہیں لگنا چاہیے۔ (المائدۃ:49) 3۔ علم کے باوجود خواہشات کی پیروی کرنے والا اللہ کی ضمانت سے نکل جاتا ہے۔ (الرعد :27) 4۔ اپنی خواہش کی پیروی کرنا اپنے نفس کو رب بنانا ہے۔ (الفرقان : 43) 5۔ حق کو خواہشات کے تابع کرنے سے نظام کائنات درہم برہم ہوجائے گا۔ (المؤمنون :71) 6۔ نبی کی بات نہ ماننا اپنی خواہش کی پیروی کی علامت ہے۔ (القصص :50) تلاوت قرآن کے آدا ب : 1۔ قرآن کی تلاوت کا حق ادا کرنا چاہیے۔ (البقرۃ:121) 2۔ قرآن کی تلاوت کے وقت تدبر کرنا چاہیے۔ (النساء :82) 3۔ سحری کے وقت تلاوت کرنا افضل ہے۔ (الاسراء:78)