سورة التوبہ - آیت 30

وَقَالَتِ الْيَهُودُ عُزَيْرٌ ابْنُ اللَّهِ وَقَالَتِ النَّصَارَى الْمَسِيحُ ابْنُ اللَّهِ ۖ ذَٰلِكَ قَوْلُهُم بِأَفْوَاهِهِمْ ۖ يُضَاهِئُونَ قَوْلَ الَّذِينَ كَفَرُوا مِن قَبْلُ ۚ قَاتَلَهُمُ اللَّهُ ۚ أَنَّىٰ يُؤْفَكُونَ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

اور یہودیوں نے کہا عزیر اللہ کا بیٹا ہے اور عیسائیوں نے کہا مسیح اللہ کا بیٹا ہے، یہ ان کی باتیں ہیں محض ان کی زبان سے نکالی ہوئی (ورنہ سمجھ بوجھ کر کوئی ایسی بات نہیں کہہ سکتا) ان لوگوں نے بھی انہی کی سی بات کہی جو ان سے پہلے کفر کی راہ اختیار کرچکے ہیں، ان پر اللہ کی لعنت ! یہ کدھر کو بھٹکے جارہے ہیں۔

تفسیرفہم قرآن - میاں محمد جمیل

فہم القرآن : (آیت 30 سے 31) ربط کلام : اہل کتاب کے ساتھ اس لیے قتال کرنا ہے کیونکہ وہ واضح طور پر شرک کا ارتکاب کرتے ہیں۔ اہل کتاب سے مراد یہودی اور عیسائی ہیں۔ یہودیوں نے اپنی جہالت کی بناء پر یہ عقیدہ بنایا کہ عزیر (علیہ السلام) اللہ تعالیٰ کے بیٹے ہیں جس کے دو سبب مفسرین بیان کرتے ہیں۔ ایک یہ کہ جب موسیٰ (علیہ السلام) کی موت کے بعد یہودیوں پر بخت نصر نے حملہ کیا اور اس نے تورات کلی طور پر ختم کرنے کا حکم دیا۔ ایک وقت ایسا آیا کہ تورات دنیا میں بالکل ناپید ہوگئی۔ اللہ تعالیٰ نے دین موسوی کی تجدید کے لیے حضرت عزیر (علیہ السلام) کو مبعوث فرمایا۔ جنھوں نے وحی الہی کی روشنی میں تورات کو دوبارہ لکھوایا۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ حضرت عزیز (علیہ السلام) سو سال تک فوت رہے پھر اللہ تعالیٰ نے انھیں زندہ فرمایا جب وہ اٹھے تو ان کے سامنے ان کے گدھے کو زندہ کیا اور جو کھانا حضرت عزیر کے ساتھ تھا وہ سو سال گزرنے کے باوجود اسی طرح ترو تازہ رہا جس کی تفصیل سورۃ البقرۃ: آیت 260میں بیان کی گئی ہے اس معجزہ کی بناء پر یہودیوں نے عقیدتاً حضرت عزیر (علیہ السلام) کو اللہ تعالیٰ کا بیٹا قرار دیا اور ان کی دیکھا دیکھی عیسائیوں نے حضرت عیسیٰ ( علیہ السلام) کو اللہ کا بیٹا اور حضرت مریم علیھا السلام کو اللہ کی بیوی قرار دیا جس کی تردید سورۃ المائدۃ: آیت 75میں کی گئی ہے۔ گویا کہ یہودیوں اور عیسائیوں نے اپنے اپنے انبیاء کے معجزات دیکھ کر انھیں اللہ تعالیٰ کا بیٹا قرار دیا جس کی ان کے پاس کوئی دلیل نہیں۔ یہ محض ان کی اعتقادی موشگافیاں ہیں۔ اللہ تعالیٰ انھیں غارت کرے۔ یہ کن ٹامک ٹوئیوں میں بھٹکے جا رہے ہیں۔ انسان جب گمراہی کے راستے پر چل پڑے تو اس کی کوئی انتہا نہیں رہتی یہی کیفیت یہود و نصاریٰ کی تھی اور ہے کہ انھوں نے اپنے علماء، درویشوں اور بزرگوں کو رب کا درجہ دے دیا تھا بالخصوص عیسائیوں نے مسیح ابن مریم (علیہ السلام) کو خدائی مقام پر پہنچا یا حالانکہ انھیں حکم دیا گیا تھا کہ وہ خالص ایک اللہ کی عبادت کریں جسکے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں جو اپنی ذات اور صفات کے لحاظ سے یکتا ہے اور وہ مبرا اور پاک ہے ان سے جن کو اس کے ساتھ شریک ٹھہراتے ہیں۔ عدی بن حاتم طائی جب مسلمان ہوئے تو انھوں نے اللہ کے رسول (ﷺ) کے سامنے اس آیت کی تلاوت کرکے عرض کی اے اللہ کے رسول! اس آیت میں یہ فرمایا گیا ہے کہ عیسائیوں نے اپنے علماء اور صلحاء کو رب بنا لیا ہے ہم نے تو کبھی انھیں رب نہیں بنایا۔ اس پر اللہ کے نبی (ﷺ) نے ارشاد فرمایا۔ (قَالَ أَمَا إِنَّہُمْ لَمْ یَکُونُوا یَعْبُدُونَہُمْ وَلَکِنَّہُمْ کَانُوا إِذَا أَحَلُّوا لَہُمْ شَیْئًا اسْتَحَلُّوہُ وَإِذَا حَرَّمُوا عَلَیْہِمْ شَیْئًا حَرَّمُوہُ )[ رواہ الترمذی : کتاب تفسیر القرآن عن رسول اللہ، باب من سورۃ التوبۃ] ” آپ (ﷺ) نے فرمایا بلاشبہ وہ ان کی عبادت نہیں کرتے تھے لیکن جب کسی چیز کو ان کے لیے حلال کہتے تو وہ اس کو حلال گردانتے اور جب ان کے لیے حرام کہتے تو وہ اس کو حرام سمجھتے تھے۔“ امام رازی اپنے استاد کے حوالے سے کہتے ہیں کہ میری نظر سے ایسے مقلدین گزرے ہیں جن کے سامنے ان کے مسلک کے خلاف قرآن مجید کی آیات پڑھ کر سنائیں گئیں۔ توانھوں نے ان کی طرف التفات نہ کیا الٹے حیرت سے میری طرف دیکھتے رہے کہ ان کے مسلک کے خلاف یہ کیسی آیات ہیں۔ مسائل : 1۔ یہودی حضرت عزیر (علیہ السلام) کو اور عیسائی حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو اللہ تعالیٰ کا بیٹا قرار دیتے ہیں جس کے لیے ان کے پاس کوئی دلیل نہیں۔ 2۔ کسی شخص کو اللہ تعالیٰ کا بیٹا قرار دینا اللہ تعالیٰ کے ساتھ کفر کرنا ہے۔ 3۔ مشرک کے پاس شرک کی کوئی دلیل نہیں ہوتی۔ 4۔ مشرک اپنے عقیدہ کے بارے میں بلا دلیل بحث و مباحثہ کرتا ہے۔ 5۔ شرک کرنے والا گمراہ ہوتا ہے اور اس پر اللہ تعالیٰ کی لعنت برستی ہے۔ 6۔ علماء اور صلحاء کو خدائی درجہ نہیں دینا چاہیے۔ 7۔ اللہ تعالیٰ اکیلا ہے اور وہ مشرکوں کے شرک سے مبرا ہے۔ تفسیر بالقرآن: اللہ تعالیٰ لوگوں کے بنائے ہوئے شریکوں سے پاک ہے : 1۔ اللہ تعالیٰ بہت بلند ہے اس چیز سے جو لوگ شرک کرتے ہیں۔ (النحل :3) 2۔ اللہ تعالیٰ کا حکم آچکا وہ پاک ہے اور بہت بلند ہے اس چیز سے جو وہ شرک کرتے ہیں۔ (النحل :1) 3۔ کیا اللہ کے علاوہ کوئی اور الٰہ ہے بہت بلند ہے اللہ اس سے جو وہ شرک کرتے ہیں۔ (النمل :63) 4۔ اللہ پیدا کرتا ہے اور مختار کل ہے دوسروں کو کوئی اختیار نہیں ہے اللہ ان کے شرک سے پاک ہے۔ (القصص :68) 5۔ قیامت کے دن آسمانوں کو اللہ اپنے دائیں ہاتھ پر لپیٹ لے گا۔ اللہ پاک ہے اور بہت بلند ہے اس چیز سے جو وہ شرک کرتے ہیں۔ ( الزمر :67) 6۔ کیا ان کے لیے اللہ کے سوا کوئی اور الٰہ ہے۔ اللہ پاک ہے اس چیز سے جو وہ شرک کرتے ہیں۔ (الطور :43) 7۔ انہوں نے کہا اللہ کی اولاد ہے اللہ اولاد سے پاک ہے بلکہ آسمان و زمین کی ہر چیز اسکے قبضہ قدرت میں ہے۔ (البقرۃ:116) 8۔ کیا تم اللہ تعالیٰ کو ایسی چیزیں بتاتے ہو جس کا اسے علم نہیں ہے اللہ پاک ہے اور مشرکوں کے شرک سے بلند و بالا ہے۔ (یونس :18) 9۔ اللہ تعالیٰ کی اولاد نہیں ہے اور شراکت داری سے پاک ہے۔ (مریم :35)