لَقَدْ نَصَرَكُمُ اللَّهُ فِي مَوَاطِنَ كَثِيرَةٍ ۙ وَيَوْمَ حُنَيْنٍ ۙ إِذْ أَعْجَبَتْكُمْ كَثْرَتُكُمْ فَلَمْ تُغْنِ عَنكُمْ شَيْئًا وَضَاقَتْ عَلَيْكُمُ الْأَرْضُ بِمَا رَحُبَتْ ثُمَّ وَلَّيْتُم مُّدْبِرِينَ
(مسلمانو) یہ واقعہ ہے کہ اللہ بہت سے موقعوں پر تمہاری مدد کرچکا ہے (جبکہ تمہیں اپنی قلت و کمزوری سے کامیابی کی امید نہ تھی) اور جنگ حنین کے موقع پر بھی جبکہ تم اپنی کثرت پر اترا گئے تھے (اور سمجھے تھے کہ محض اپنی کثرت سے میدان مار لوگے) تو دیکھو وہ کثرت تمہارے کچھ کام نہ آئی اور زمین اپنی ساری وسعت پر بھی تمہارے لیے تنگ ہوگئی، بالآخر ایسا ہوا کہ تم میدان کو پیٹھ دکھا کر بھاگنے لگے۔
فہم القرآن : (آیت 25 سے 27) ربط کلام : اللہ تعالیٰ دین کی سربلندی کے لیے کسی کا محتاج نہیں اگر وہ چاہے تو غائبانہ اسباب سے اپنے دین کو سربلند رکھ سکتا ہے۔ جیسا کہ اس نے ہجرت کے وقت نبی (ﷺ) کی حفاظت کا بندوبست فرمایا تھا۔ اس سے پہلے والدین، بیٹے، بھائی، بیویاں، رشتے دار اور سب چیزوں کو اللہ اور اس کے رسول اور جہاد فی سبیل اللہ کے مقابلہ میں ناچیز سمجھنے کا حکم دیا تھا۔ جس سے مسلمان ذہنی دباؤ میں آکر اپنے آپ کو تھوڑے اور کمزور سمجھنے لگے۔ اس فکری دباؤ کو ختم کرنے کے لیے مسلمانوں کو یاد دلایا گیا ہے کہ فکر مند ہونے کے بجائے وہ مواقع یاد کیجیے جب اللہ تعالیٰ نے تمھاری مدد فرمائی۔ حالانکہ تم افرادی قوت اور جنگی سازو سامان کے اعتبار سے کفار کے مقابلے میں تھوڑے تھے۔ اس لیے تمھیں بہر حال اللہ اور اس کے رسول اور جہاد فی سبیل اللہ کوتمام رشتوں اور ہر چیز سے مقدم رکھنا ہوگا۔ جہاں تک افرادی قوت اور کثرت کا تعلق ہے تم حنین میں پہلے غزوات سے زیادہ تھے۔ تمہاری تعداد ١٢٠٠٠ سے زیادہ تھی۔ اس کے باوجود دشمن کے مقابلے میں نہ ٹھہر سکے اور زمین وسعت و کشادگی کے باوجود تمھارے لیے تنگ ہوگئی تم پیٹھ پھیر کر بھاگنے لگے حالانکہ اس سے پہلے تمھیں اپنی عددی کثرت پر بڑا ناز تھا۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول اور مومنوں پر سکون اور اعتماد نازل فرماکر ملائکہ کی فوج بھیجی تاکہ کفار کو ٹھیک ٹھیک سزا دی جائے۔ تمھارے پیٹھ پھیر کر بھاگنے کے باوجود اللہ تعالیٰ نے تم پر کرم فرمایا۔ اللہ تعالیٰ جس پر چاہتا ہے فضل و کرم فرماتا ہے اور اللہ معاف کرنے والا نہایت مہربان ہے۔ فتح مکہ کے متصل بعد حنین کا معرکہ ہوا جس میں مسلمانوں کی تعداد اہل حنین سے زیادہ تھی۔ اس کے ساتھ ہی فتح مکہ کی وجہ سے مسلمانوں کا مورال نہایت ہی اعلیٰ درجے پر تھا جس کی وجہ سے نووارد مسلمانوں اور کچھ جوانوں نے ایک دوسرے سے اس بات کا اظہار کیا کہ آج ہمیں کوئی شکست نہیں دے سکتا۔ ان جذبات کے ساتھ مسلمان حنین کی طرف پیش قدمی کرتے ہیں۔ لیکن ہوا یہ کہ اہل حنین نے راستے میں سحری کے وقت مسلمانوں پر شب خون مارا اور اس قدر اچانک اور یکبارگی حملہ کیا کہ مسلمانوں کے چھکے چھوٹ گئے جس کا جدھر منہ آیا بھاگنے لگے۔ یہاں تک کہ اللہ کے رسول (ﷺ) کے پاس صرف چند صحابہ باقی رہ گئے۔ اس نازک اور اچانک صورتحال کے باوجود آپ نہایت ثابت قدمی اور زبردست دلیری کے ساتھ یہ اعلان کر رہے تھے۔ اَنَا النَّبِیُ لَا کَذَبْ اَنَا ابْنُ عَبْدِ الْمُطْلِبْ کہ میں اللہ کا سچا نبی اور سردار عبدالمطلب کا بیٹا ہوں اس لیے میدان چھوڑ کر نہیں بھاگ سکتا۔ اس کے ساتھ ہی آپ (ﷺ) نے اپنے چچا عباس (رض) کو فرمایا کہ بدر، احد اور بیعت رضوان میں شرکت کرنے والوں کو آواز دیجیے۔ حضرت عباس (رض) آواز پر آواز دینے لگے اِلَیَّ عِبَاد اللّٰہِ اِلَیَّ عِبَاد اللّٰہِ اے اللہ کے بندو کہاں بھاگے جا رہے ہو اللہ کے رسول تو اپنی جگہ پر کھڑے اور ڈٹے ہوئے ہیں۔ پلٹ آؤ پلٹ آؤ صحابہ واپس آئے تو اللہ کے رسول نے اس طرح صف بندی اور منصوبہ بندی فرمائی کہ اہل حنین کے چھ ہزار قیدی بنا لیے کہ چالیس ہزار کے قریب بھیڑ بکریاں اور چوبیس ہزار اونٹ ہاتھ آئے۔ قیدیوں کو اہل حنین اور آپ کی سوتیلی بہن شیما کی سفارش پر چھوڑ دیا گیا اور بھیڑ بکریاں اور اونٹ مجاہدین میں تقسیم کردیے گئے۔ تفصیل کے لیے سیرت کی مستند کتابوں کا مطالعہ فرمائیں۔ (عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ قَالَ رَجُلٌ لِلْبَرَاءِ بْنِ عَازِبٍ (رض) أَفَرَرْتُمْ عَنْ رَسُول اللّٰہِ (ﷺ) یَوْمَ حُنَیْنٍ قَالَ لَکِنَّ رَسُول اللّٰہِ (ﷺ) لَمْ یَفِرَّ إِنَّ ہَوَازِنَ کَانُوا قَوْمًا رُمَاۃً وَإِنَّا لَمَّا لَقِینَاہُمْ حَمَلْنَا عَلَیْہِمْ فَانْہَزَمُوا فَأَقْبَلَ الْمُسْلِمُونَ عَلٰی الْغَنَائِمِ وَاسْتَقْبَلُونَا بالسِّہَامِ فَأَمَّا رَسُول اللّٰہِ (ﷺ) فَلَمْ یَفِرَّ فَلَقَدْ رَأَیْتُہُ وَإِنَّہُ لَعَلٰی بَغْلَتِہِ الْبَیْضَاءِ وَإِنَّ أَبَا سُفْیَانَ اخِذٌ بِلِجَامِہَا وَالنَّبِیُّ (ﷺ) یَقُولُ أَنَا النَّبِیُّ لَا کَذِبْ أَنَا ابْنُ عَبْدِ الْمُطَّلِبْ) [ رواہ البخاری : کتاب الجہاد، باب من قاد دابۃ فی الحرب] ” حضرت ابو اسحاق بیان کرتے ہیں ایک آدمی نے براء بن عازب (رض) سے پوچھا کیا تم لوگ حنین کے دن رسول مکرم (ﷺ) کو چھوڑ کر بھاگ گئے تھے ؟ انہوں نے کہا لیکن رسول اکرم (ﷺ) میدان چھوڑ کر نہیں بھاگے تھے۔ ہوازن قبیلے کے لوگ تیر انداز تھے جب ہمارا اور ان کا آمنا سامنا ہوا تو ہم نے ان پر حملہ کیا اور انہیں شکست سے دوچار کیا۔ مسلمان مال غنیمت کی طرف متوجہ ہوئے اور ان لوگوں نے تیر اندازی شروع کردی مگر رسول معظم (ﷺ) نے اپنی جگہ نہیں چھوڑی تھی بلاشبہ میں نے انہیں دیکھا اور وہ اپنے سفید خچر پر تھے اور ابو سفیان اس کی لگام تھامے ہوئے تھے اور نبی (ﷺ) فرمارہے تھے میں جھو ٹا نبی نہیں ہوں میں عبدالمطلب کا بیٹا ہوں۔“ مسائل :1۔ اللہ کی مدد کے بغیر عددی کثرت اور حربی قوت کام نہیں دیتی۔ 2۔ اللہ تعالیٰ نے حنین کی شکست کو فتح میں تبدیل کردیا۔ 3۔ اللہ تعالیٰ نے حنین کے موقع پر اپنے رسول اور مومنوں پر سکون اور اعتماد نازل فرمایا۔ 4۔ حنین میں مسلمانوں کی مدد کے لیے فرشتے نازل کیے گئے جن کو مسلمانوں نے نہیں دیکھا تھا۔ تفسیر بالقرآن :کفار کی سزا : 1۔ اگر کفار تم سے لڑیں تم بھی ان سے لڑو کافروں کی یہی سزا ہے۔ (البقرۃ:191) 2۔ اللہ اسی طرح سزا دیتا ہے کفار کو۔ (الفاطر :36) 3۔ اللہ نے کفار کو ان کے کفر کی وجہ سے سزا دی۔ (السباء :17) 4۔ کفار کی سزا ہمیشہ کی آگ ہے۔ (فصلت :19) 5۔ اللہ کی آیات اور رسولوں کے ساتھ مذاق کی سزا جہنم ہے۔ (الکہف :106) 6۔ اللہ کفار کو ان کے چہروں کے بل اوندھا کرکے اٹھائے گا یہ کفار کی سزا ہے۔ (الاسراء : 97تا98) 7۔ اے کفار آج عذر نہ کرو جو کچھ تم نے کیا تھا اس کی سزا تمھیں مل گئی۔ (التحریم :7) 8۔ کفار صبر کریں یا نہ کریں ان کی سزا جہنم ہے۔ (الطور : 15تا16)