أَمْ حَسِبْتُمْ أَن تُتْرَكُوا وَلَمَّا يَعْلَمِ اللَّهُ الَّذِينَ جَاهَدُوا مِنكُمْ وَلَمْ يَتَّخِذُوا مِن دُونِ اللَّهِ وَلَا رَسُولِهِ وَلَا الْمُؤْمِنِينَ وَلِيجَةً ۚ وَاللَّهُ خَبِيرٌ بِمَا تَعْمَلُونَ
(مسلمانو) کیا تم نے ایسا سمجھ رکھا ہے کہ تم اتنے ہی چھوڑ دیئے جاؤ گے ؟ حالانکہ ابھی تو اللہ نے ان لوگوں کو پوری طرح آزمائش میں ڈالا ہی نہیں جنہوں نے تم میں سے جہاد کیا ہے اور اللہ کے رسول اور مومنوں کو چھوڑ کر کسی کو اپنا پوشیدہ دوست نہیں بنایا ہے، (یاد رکھو) جیسے کچھ بھی تمہارے اعمال ہیں خدا ان سب کی خبر رکھنے والا ہے۔
فہم القرآن : ربط کلام : قتال فی سبیل اللہ کے ذریعے اللہ تعالیٰ مسلمانوں کے دلوں کو سکون اور سینوں کو ٹھنڈا کرنے کے ساتھ یہ بھی آزمانا چاہتا ہے کہ مسلمان کس حد تک کفار کے بارے میں اپنے دلوں میں نفرت رکھتے ہیں۔ دنیا کی زندگی ہر شخص کے لیے آزمائش اور امتحان گاہ کی حیثیت رکھتی ہے بالخصوص جب کوئی شخص حلقہ اسلام میں داخل ہوتا ہے تو اللہ تعالیٰ اسے کئی قسم کی آزمائشوں میں مبتلا کرتا ہے تاکہ دنیا والوں پر ظاہر کیا جائے کہ اللہ اور اس کے رسول کا کلمہ پڑھنے والا کس حد تک ایمان میں پکا اور اپنے مشن میں سچا ہے جس طرح مسلمان کی انفرادی طور پر آزمائش کی جاتی ہے۔ اسی طرح ہی ان کو اجتماعی آزمائشوں کے ذریعے آزمایا جاتا ہے۔ اجتماعی آزمائشوں میں سب سے بڑی آزمائش اللہ کی رضا کی خاطر اپنے اعزاء و اقرباء سے جنگ کرنا ہے جو کفر اور شرک کی بناء پر اپنے رب کے باغی بن چکے ہوتے ہیں۔ مسلمانوں پہ آزمائش اس لیے بھی ضروری ہے کہ اللہ تعالیٰ انھیں اپنی فوج قرار دیتا ہے۔ دنیا کی کونسی فوج ہے جس کے لیے آزمائش کا اہتمام نہ کیا گیا ہو۔ فوج کو پرکھنے اور ایک خاص معیار پر لانے کے لیے لاکھوں، کروڑوں ڈالر اور بے شمار اسلحہ ضائع کرکے آپس میں نقلی جنگیں کروائی جاتی ہیں تاکہ دشمن کے مقابلے میں جنگی تیار یوں کا اندازہ اور فوج کا مورال پرکھا جاسکے۔ مجاہد بھی کفار اور مشرکین کے ساتھ مقابلہ اور مقاتلہ اسی صورت میں کرسکتا ہے۔ جب اس کے دل میں کفار اور مشرکین کے بارے میں کاروباری مفادات، معاشرتی تعلقات اور خونی رشتوں سے بڑھ کر اللہ اور اس کے رسول (ﷺ) کی محبت اور جان نثاری کا جذبہ پیدا ہوجائے۔ یہاں قتال فی سبیل اللہ کا یہی مقصد بیان کیا گیا ہے۔ یہ آیت کریمہ ان لوگوں کے لیے نازل ہوئی جو فتح مکہ کے بعد مسلمان ہوئے اور ابھی تک مشرک اعزاء و اقرباء کے بارے میں نرم گوشہ رکھتے تھے جہاں تک سابقون الاولون مسلمانوں کا تعلق ہے انھوں نے بدرا وراُحد میں یہ ثابت کردیا تھا کہ اللہ اور اس کے رسول (ﷺ) کی ذات اور ان کی بات پر کسی شخص اور مفاد کو مقدم نہیں سمجھتے اسی لیے ان کی تعریف میں کہا گیا کہ ” جو لوگ اللہ اور آخرت پر یقین رکھتے ہیں آپ انھیں ہرگز نہ پائیں گے کہ وہ اللہ اور اس کے رسول کے مخالفوں کے ساتھ محبت رکھتے ہوں خواہ ان کے باپ ہوں یا بیٹے، بھائی اور رشتہ دار ہی کیوں نہ ہوں۔ یہی لوگ ہیں جن کے دلوں میں ایمان راسخ کردیا گیا ہے اللہ تعالیٰ اپنی طرف سے ان کی خصوصی مدد کرتا ہے اور انھیں ایسی جنت میں داخل کیا جائے گا جس کے نیچے نہریں جاری ہیں اللہ تعالیٰ ان سے ہمیشہ راضی ہوگا اور وہ بھی اپنے رب سے خوش ہوں گے یہ اللہ کی جماعت ہے اور لوگو! کان کھول کر سنو کہ اللہ کی جماعت ہی کامیاب اور کامران ہونے والی ہے۔ (المجادلۃ، آیت :22) “ مسائل :1۔ ایمان کے لیے آزمائش شرط ہے۔ 2۔ مومن وہ ہے جو اللہ اور اس کے رسول کو سب سے مقدم جانتا ہو۔ 3۔ کافر اور مشرک کے ساتھ دلی محبت نہیں ہونی چاہیے۔ 4۔ اللہ تعالیٰ ہر کسی کے عمل کو جانتا ہے۔ تفسیر بالقرآن :کن لوگوں سے دلی دوستی کرنا جائز نہیں : 1۔ کافروں سے دوستی نہیں کرنی چاہیے۔ (النساء :89) 2۔ مومنوں کے علاوہ کسی کو دوست نہیں بنانا چاہیے۔ (النساء :144) 3۔ یہود و نصاریٰ سے دوستی جائز نہیں۔ (المائدۃ:51) 4۔ دین کو مذاق کرنے والوں سے دوستی جائز نہیں۔ (المائدۃ:57) 5۔ ایمان پر کفر کو ترجیح دینے والوں سے دوستی جائز نہیں۔ (التوبۃ :23) 6۔ اللہ کے دشمنوں سے دوستی نہیں کرنا چاہیے۔ (الممتحنۃ:1)