قَاتِلُوهُمْ يُعَذِّبْهُمُ اللَّهُ بِأَيْدِيكُمْ وَيُخْزِهِمْ وَيَنصُرْكُمْ عَلَيْهِمْ وَيَشْفِ صُدُورَ قَوْمٍ مُّؤْمِنِينَ
(مسلمانو) ان سے (بلا تامل) جنگ کرو، اللہ تمہارے ہاتھوں انہیں عذاب دے گا، انہیں رسوائی میں ڈالے گا، ان پر تمہیں فتح مند کرے گا اور جماعت مومنین کے دلوں کے سارے دکھ دور کردے گا۔
فہم القرآن : (آیت 14 سے 15) ربط کلام : اس سے پہلے کفار اور مشرکین سے قتال کرنے کے اسباب بیان کیے اور مسلمانوں کو حکم دیا کہ تمھیں اللہ کے سوا کسی سے نہیں ڈرنا چاہیے لہٰذا تم اللہ کے راستے میں لڑو۔ اللہ تعالیٰ ضرور کفار اور مشرکوں کو تمھارے ہاتھوں ذلیل کرے گا۔ مسلمانوں کو قتال فی سبیل اللہ کا حکم دیتے ہوئے چار خوشخبریاں سنائی گئی ہیں جس میں پہلی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے یہ فیصلہ کر رکھا ہے کہ تم دشمن کے مقابلے میں میدان کا رزار میں اترو اللہ تعالیٰ تمھارے ہاتھوں انھیں عبرت ناک سزا دے کر دنیا میں ہی ان کو ذلیل و خوار کرے گا تمھاری ان کے مقابلے میں اس قدر مدد فرمائے گا جس سے تمھارے سینے ٹھنڈے ہوجائیں گے۔ ماضی کے حوالے سے جو تمھارے دل میں ان کے بارے میں غصہ اور طیش ہے تم اس قدر ان کو مارو گے وہ بھی جاتا رہے گا اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ باقی ماندہ کفار مسلمانوں کی کامیابی اور اپنی ذلت اور رسوائی دیکھ کر انشرح صدر کے ساتھ اسلام کی حقانیت تسلیم کرکے اپنے رب کی بارگاہ میں تائب ہوجائیں اور اللہ تعالیٰ انھیں معاف فرما دے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ جس کی چاہتا ہے توبہ قبول کرتا ہے وہ لوگوں کے ظاہری اور باطنی حالات سے آگاہ ہے۔ اس کے ہر حکم اور کام میں حکمت ہوتی ہے۔ یہ قتال فی سبیل اللہ کا نتیجہ تھا کہ فتح مکہ کے بعد نہ صرف سرزمین حجاز پر اسلام کا پھریرا بلند ہوا بلکہ اس سے مشرق و مغرب اور شمال وجنوب میں اسلام کی پیش قدمی کے لیے راستے ہموار ہوئے اور نہایت قلیل عرصہ میں کافر اور مشرک دین کے سامنے سرنگوں ہوئے۔ مسائل : 1۔ قتال فی سبیل اللہ کا ایک مقصد یہ ہے کہ دشمن ذلیل ہوجائے۔ 2۔ اللہ تعالیٰ جہاد و قتال میں مسلمانوں کی مدد کرتا ہے۔ 3۔ فتح اور کامیابی مجاہد کے لیے دل کا سکون اور سینے کی ٹھنڈک ہوتی ہے۔ 4۔ اللہ تعالیٰ کے ہر کام اور حکم میں بے شمار حکمتیں ہوتی ہیں۔