إِلَّا الَّذِينَ عَاهَدتُّم مِّنَ الْمُشْرِكِينَ ثُمَّ لَمْ يَنقُصُوكُمْ شَيْئًا وَلَمْ يُظَاهِرُوا عَلَيْكُمْ أَحَدًا فَأَتِمُّوا إِلَيْهِمْ عَهْدَهُمْ إِلَىٰ مُدَّتِهِمْ ۚ إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُتَّقِينَ
ہاں، مشرکوں میں سے وہ لوگ کہ تم نے ان سے معاہدہ کیا تھا پھر انہوں نے ( قول قرار نباہنے میں) کسی طرح کی کمی نہیں کی اور نہ ایسا کیا کہ تمہارے مقابلہ میں کسی کی مدد کی ہو، اس حکم سے مستثنی ہیں، پس چاہیے کہ ان کے ساتھ جتنی مدت کے لیے عہد ہوا ہے اتنی مدت تک اسے پورا کیا جائے۔ اللہ انہیں دوست رکھتا ہے جو (ہر بات میں) متقی ہوتے ہیں۔
فہم القرآن : (آیت 4 سے 5) ربط کلام : جن مشرکوں نے معاہدے کی خلاف ورزی کی تھی ان کو چار مہینے اور جنھوں نے مسلمانوں سے کیے ہوئے عہد کی پاسداری کی ان کو معاہدے کے اختتام تک مہلت دی گئی ہے۔ نبی اکرم (ﷺ) سے معاہدات کرنے والے کفار اور مشرکین کی دو قسمیں تھیں ایک وہ جنھوں نے حدیبیہ کے مقام پر صلح کا معاہدہ کرنے کے باوجود اسے توڑ دیاتھا۔ ان کو چار مہینے کی مہلت دی گئی لیکن جو لوگ آپ سے کیے ہوئے عہدکی پاسداری کر رہے تھے انھیں عہد کے اختتام تک مہلت دی گئی ہے۔ اس لیے انھیں برأتِ عہد سے مستثنٰی قرار دیتے ہوئے وضاحت فرمائی کہ ان مشرکوں کے ساتھ ابھی برأت کا اعلان نہیں ہے جنھوں نے نہ عہد کی خلاف ورزی کی اور نہ ہی مسلمانوں کے خلاف کسی کے ساتھ تعاون کیا۔ ان کے ساتھ کیے ہوئے عہد کی مکمل طور پر پاسداری ہونی چاہیے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ متقین کو پسند کرتا ہے یہاں تقویٰ سے پہلی مراد عہد شکنی سے بچنا ہے جب حرمت کے مہینے گزر جائیں تو پھر مشرکوں کو جہاں پاؤ قتل کرو اور ان کو ہر کمین گاہ سے گرفتار کرلو اور ان کے لیے پوری طرح مورچہ بندی کرو۔ اگر یہ ایمان لے آئیں اور اس کے ثبوت میں نماز قائم کریں اور زکوٰۃ ادا کریں تو پھر ان کا راستہ چھوڑ دو کیونکہ اللہ تعالیٰ معاف کرنے والا انتہائی مہربان ہے۔ گیا رہویں آیت میں فرمایا کہ اگر توبہ کرکے نماز اور زکوٰۃ ادا کریں تو یہ تمھارے دینی بھائی ہیں یہاں صرف نماز، زکوٰۃ کا اس لیے ذکر کیا ہے کہ نماز بدنی عبادات کی ترجمان ہے۔ جس میں روزہ اور حج بھی شامل ہیں اور زکوٰۃ مالی عبادات کا سرچشمہ ہے جس میں صدقہ و خیرات، حقوق العباد شامل ہیں۔ یادرہے کہ مشرکین کو ہر مقام پر قتل کرنے کا حکم حالت جنگ میں ہے۔ عام حالات میں کسی مشرک یا کافر کو قتل کرنے کی اجازت نہیں۔ (عَنْ ابْنِ عُمَرَ (رض) أَنَّ رَسُول اللّٰہِ (ﷺ) قَالَ أُمِرْتُ أَنْ أُقَاتِلَ النَّاسَ حَتّٰی یَشْہَدُوا أَنْ لَا إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا رَسُول اللّٰہِ وَیُقِیمُوا الصَّلَاۃَ وَیُؤْتُوا الزَّکَاۃَ فَإِذَا فَعَلُوا ذَلِکَ عَصَمُوا مِنِّی دِمَاءَ ہُمْ وَأَمْوَالَہُمْ إِلَّا بِحَقِّ الْإِسْلَامِ وَحِسَابُہُمْ عَلٰی اللّٰہِ) [ رواہ بخاری : کتاب الایمان، باب فان کان تابوا] ” حضرت عبداللہ بن عمر (رض) بیان کرتے ہیں بلاشبہ رسول معظم (ﷺ) نے فرمایا مجھے لوگوں سے قتال کا حکم دیا گیا ہے یہاں تک کہ وہ گواہی دیں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں ہے اور محمد (ﷺ) اللہ کے رسول ہیں اور وہ نماز قائم کریں، زکوٰۃ ادا کریں۔ جب انہوں نے یہ کام کرلیے تو انہوں نے مجھ سے اپنا خون اور مال بچا لیا سوائے اسلام کے حق کے اور اس کا حساب اللہ پر ہے۔“ (اسلام کے حقوق سے مراد حدود اللہ کا نفاذ ہے ) مسائل :1۔ عہد کی پاسداری کرنے والوں کے ساتھ عہد کا احترام کرنا چاہیے۔ 2۔ اللہ تعالیٰ متقین کو پسند کرتا ہے۔ 3۔ کفر و شرک سے توبہ کرنے کے بعد نماز اور زکوٰۃ کی ادائیگی توبہ کرنے کی نشانی ہے۔ 4۔ اللہ تعالیٰ معاف کرنے والا انتہائی مہربان ہے۔