سورة الانفال - آیت 74

وَالَّذِينَ آمَنُوا وَهَاجَرُوا وَجَاهَدُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَالَّذِينَ آوَوا وَّنَصَرُوا أُولَٰئِكَ هُمُ الْمُؤْمِنُونَ حَقًّا ۚ لَّهُم مَّغْفِرَةٌ وَرِزْقٌ كَرِيمٌ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

(غرض کہ) جو لوگ ایمان لائے، ہجرت کی اور اللہ کی راہ میں جہاد کیا اور جن لوگوں نے (مہاجرین مکہ کو) پناہ دی اور مدد کی تو فی الحقیقت یہی (سچے) مومن ہیں، ان کے لیے بخشش ہے اور عزت کی روزی۔

تفسیر فہم القرآن - میاں محمد جمیل ایم اے

فہم القرآن : ربط کلام : کفار کے مقابلہ میں مومنوں کا کردار اور ان کی آپس میں محبت۔ اوپر کی آیات میں مسلمانوں کو ایک دوسرے کا وارث اور دوست قرار دیا گیا ہے۔ کفار اور جان بوجھ کر ہجرت نہ کرنے والے مسلمانوں سے لاتعلقی کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ پھر ان مسلمانوں کے ایمان کی تصدیق فرمائی جو اللہ تعالیٰ کی خاطر ہجرت کرنے والے اور اس کفار سے تعلقات توڑتے ہیں اور جہاد فی سبیل اللہ میں مصروف رہتے ہوئے مہاجروں کی ہر قسم کی امداد کرتے ہیں۔ یہ لوگ اللہ کے ہاں پکے اور سچے مومن ہیں۔ ان کے گناہ معاف کردیے جائیں گے اور انھیں بہترین رزق سے نوازا جائے گا۔ تاریخ گواہ ہے کہ جن لوگوں نے بھی اللہ کی رضا کی خاطر ہجرت اور یہ کام کیے۔ اللہ تعالیٰ نے انھیں دنیا میں بھی مال واسباب سے مالا مال فرمایا۔ (عَنْ أَنَسٍ (رض) قَالَ قَدِمَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عَوْفٍ الْمَدِینَۃَ فَآخَی النَّبِیُّ َ بَیْنَہُ وَبَیْنَ سَعْدِ بْنِ الرَّبِیعِ الْأَنْصَارِیّ ِ وَکَانَ سَعْدٌ ذَا غِنًی فَقَالَ لِعَبْدِ الرَّحْمَنِ أُقَاسِمُکَ مَالِی نِصْفَیْنِ وَأُزَوِّجُکَ قَالَ بَارَکَ اللّٰہُ لَکَ فِی أَہْلِکَ وَمَالِکَ دُلُّونِی عَلٰی السُّوقِ فَمَا رَجَعَ حَتَّی اسْتَفْضَلَ أَقِطًا وَسَمْنًا فَأَتَی بِہٖ أَہْلَ مَنْزِلِہِ فَمَکَثْنَا یَسِیرًا أَوْ مَا شَاء اللّٰہُ فَجَاءَ وَعَلَیْہِ وَضَرٌ مِنْ صُفْرَۃٍ فَقَالَ لَہٗ النَّبِیُّ () مَہْیَمْ قَالَ یَا رَسُول اللّٰہِ تَزَوَّجْتُ امْرَأَۃً مِنْ الْأَنْصَارِ قَالَ مَا سُقْتَ إِلَیْہَا قَالَ نَوَاۃً مِّنْ ذَہَبٍ أَوْ وَزْنَ نَوَاۃٍ مِنْ ذَہَبٍ قَالَ أَوْلِمْ وَلَوْ بِشَاۃٍ) [ رواہ البخاری، کتاب البیوع، باب قول اللہ تعالیٰ ﴿ فَإِذَا قُضِيَتِ الصَّلَاةُ ﴾] ” حضرت انس (رض) بیان کرتے ہیں عبدالرحمن بن عوف (رض) مدینہ منورہ آئے تو نبی اکرم (ﷺ) نے سعد بن ربیع انصاری (رض) اور ابن عوف (رض) کے درمیان مواخات قائم کی۔ سعد مال دار آدمی تھے۔ انھوں نے عبدالرحمن بن عوف (رض) سے کہا میں اپنے مال کو دو حصوں میں تقسیم کرتا ہوں اور آپ کے نکاح کا اہتمام کرتا ہوں عبدالرحمن بن عوف (رض) نے کہا۔ اللہ تعالیٰ تمھارے مال اور اہل میں برکت کرے۔ مجھے بازار کے بارے میں معلومات دیجیے وہ بازار گئے اور وہاں سے گھی اور پنیر لے کر واپس آئے۔ ہمیں مدینہ میں ٹھہرے کچھ دیر گزری تھی تو وہ آئے اور ان پر زرد رنگ کے نشانات تھے۔ نبی اکرم (ﷺ) نے ان سے فرمایا یہ کیا ہے ؟ انھوں نے کہا اے اللہ کے رسول (ﷺ) میں نے انصاری عورت سے شادی کی ہے۔ نبی اکرم (ﷺ) نے فرمایا تم نے کتنا مہر ادا کیا ہے ؟ عبدالرحمن نے کہا گٹھلی کے برابر سونا یا اس کے کم و بیش سونا ادا کیا ہے۔ رسول معظم (ﷺ) نے فرمایا ولیمہ کیجیے خواہ ایک بکری ہی ذبح کرو۔“ مسائل : 1۔ اللہ تعالیٰ کی راہ میں ہجرت اور جہاد کرنا باعث مغفرت ہے۔ 2۔ مسلمانوں کی مدد کرنے والوں کے لیے باعزت رزق ہے۔ تفسیر بالقرآن : کن لوگوں کے لیے مغفرت ہے : 1۔ اللہ سے بخشش طلب کرنے والوں کے لیے مغفرت ہے۔ (آل عمران :136) 2۔ اللہ کے راستے میں جان دینے والوں کے لیے مغفرت ہے۔ (آل عمران :157) 3۔ اللہ کے راستے میں جہاد کرنے والوں کے لیے مغفرت ہے۔ (النساء :96) 4۔ صبر کرنے والوں کے لیے مغفرت ہے۔ (ہود :11) 5۔ ایمان کے ساتھ صالح اعمال کرنے والوں کے لیے مغفرت ہے۔ (الحج :50) 6۔ پاکباز لوگوں کے لیے مغفرت ہے۔ (النور :26) 7۔ اللہ تعالیٰ سے ڈرنے والوں کے لیے مغفرت ہے۔ (یٰسٓ :11)