إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَهَاجَرُوا وَجَاهَدُوا بِأَمْوَالِهِمْ وَأَنفُسِهِمْ فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَالَّذِينَ آوَوا وَّنَصَرُوا أُولَٰئِكَ بَعْضُهُمْ أَوْلِيَاءُ بَعْضٍ ۚ وَالَّذِينَ آمَنُوا وَلَمْ يُهَاجِرُوا مَا لَكُم مِّن وَلَايَتِهِم مِّن شَيْءٍ حَتَّىٰ يُهَاجِرُوا ۚ وَإِنِ اسْتَنصَرُوكُمْ فِي الدِّينِ فَعَلَيْكُمُ النَّصْرُ إِلَّا عَلَىٰ قَوْمٍ بَيْنَكُمْ وَبَيْنَهُم مِّيثَاقٌ ۗ وَاللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِيرٌ
جو لوگ ایمان لائے، ہجرت کی اور اللہ کی راہ میں اپنے مال اور اپنی جانوں سے جہاد کیا اور جن لوگوں نے (مکہ کے مہاجروں کو مدینہ میں) جگہ دی اور ان کی مدد کی تو یہی لوگ ہیں کہ ان میں سے ایک دوسرے کا کارساز و رفیق ہے اور جن لوگوں کا حال ایسا ہوا کہ ایمان تو لائے مگر ہجرت نہیں کی تو تمہارے لیے ان کی اعانت و رفاقت میں سے کچھ نہیں ہے جب تک وہ اپنے وطن سے ہجرت نہ کریں۔ ہاں اگر دین کے بارے میں تم سے مدد چاہیں تو بلا شبہ تم پر ان کی مددگاری لازم ہے، الا یہ کہ کسی ایسے گروہ کے مقابلہ میں مدد چاہی جائے جس سے تمہارا (صلح و امن کا) عہد وپیمان ہے ( کہ اس صورت میں تم عہد و پیمان کے خلاف قدم نہیں اٹھا سکتے) اور تم جو کچھ کرتے ہو اللہ کی نگاہ سے پوشیدہ نہیں۔
فہم القرآن : ربط کلام : اللہ اور اس کے رسول کی خاطر ہجرت کرنا ہر کسی کے بس کا روگ نہیں۔ یہ ایسی پل صراط ہے جس کی دھار تلوار سے زیادہ تیز اور بال سے زیادہ باریک ہے۔ ہجرت کی تکالیف ومشکلات ایمان سے خالی دل کو ننگا کردیتی ہیں یہ ایسا ترازو ہے جس میں ہر آدمی نہیں بیٹھ سکتا۔ اس پیمانے سے کھرے کھوٹے کا اندازہ ہوجاتا ہے۔ قرآن مجید نے اسے ایمان کا معیار قرار دیا ہے۔ مہاجر اپنا وطن اور عزیز و اقربا کو چھوڑ کر تنہائی محسوس کرتا اس لیے آپ نے مہاجرین اور انصار کے درمیان مواخات کروائی تاکہ باہمی محبت پیدا ہونے سے مہاجرین کے معاشی، معاشرتی، اور خاندانی مسائل حل ہو سکیں۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ مہاجرین کے مسائل حل کرنا حکومت اور عام مسلمانوں کا فرض ہے۔ سورۃ النساء آیت نمبر 89میں صاف طور پر فرمادیا گیا ہے کہ جو لوگ اللہ کی راہ میں ہجرت نہیں کرتے ان سے تمھیں رشتے ناطے اور دوستی رکھنے کی اجازت نہیں ہے۔ یہاں ان لوگوں کو ایک دوسرے کا دوست اور وارث قرار دیا گیا ہے۔ جنھوں نے ایمان لانے کی پاداش میں ہجرت کی اور اللہ کے راستے میں اپنے مال و جان کے ساتھ جہاد کیا اور جن لوگوں نے مہاجروں کو جگہ دی اور ان کے ساتھ ہر طرح کا تعاون کیا یہ لوگ ایک دوسرے کے دوست اور وارث قرار پائے۔ جو لوگ ایمان لائے مگر مجبوری نہ ہونے کے باوجود ہجرت کے لیے آمادہ نہ ہوئے ان کے ساتھ مہاجرین اور انصار کی نہ دوستی ہونی چاہیے اور نہ وہ ایک دوسرے کے وارث ہو سکتے ہیں یہاں تک کہ وہ ہجرت کرکے مدینہ پہنچ جائیں۔ ہجرت کرنے کا ارادہ رکھنے والے لوگ دوسرے مسلمانوں سے دین کے بارے میں مدد طلب کریں۔ تو ان کی مدد کرنا مسلمانوں پر لازم ہے ہاں ان لوگوں کی مسلمان مدد نہیں کرسکتے کہ جس قوم میں وہ رہ رہے ہیں اس کے ساتھ تمھارا صلح اور آشتی کا معاہدہ قرار پا چکا ہو جو کچھ تم کرتے ہو اللہ تعالیٰ اسے اچھی طرح دیکھ رہا ہے یعنی تمھیں اللہ تعالیٰ کے فرمان کی عہد شکنی نہیں کرنی چاہیے۔ سورۃ النساء میں ہجرت کو ایمان اور دوستی کا معیار قرار دیا ہے اور یہاں ہجرت کو دوستی اور وراثت کے لیے بنیاد متعین فرمایا ہے کہ ہجرت نہ کرنے والوں کے ساتھ نہ تم دلی دوستی رکھ سکتے ہو اور نہ ہی تم کسی کے مرنے کے بعد اس کی وراثت کے وارث ہو سکتے ہو۔ یہاں وہ لوگ مستثنٰی ہیں جو دار الکفر میں ہیں مگر اس قوم کے ساتھ اچھے تعلقات رکھنے کا معاہدہ ہوچکا ہے ایسی صورت میں ہجرت نہ کرنے والوں کے ساتھ تعاون نہیں کرنا چاہیے۔ یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ ایسے لوگوں کے ساتھ تعاون کیوں نہیں کرنا چاہیے حالانکہ وہ مسلمان ہوچکے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس وقت مدینہ کی طرف ہجرت کرنا فرض ہونے کے ساتھ اسے ایمان کی کسوٹی قرار دیا گیا تھا۔ ایک شخص کلمہ پڑھ کر اللہ اور اس کے رسول کی مقرر کردہ کسوٹی پر پورا نہیں اترتا اور وہ دار کفر کو چھوڑ کر دارالسلام جانے کی بجائے اپنا مفاد، رشتہ داری اور دارالکفر کو مقدم سمجھتا ہے تو اس کی مدد کرنے کا اخلاقی، قانونی اور ایمان کے حوالے سے کیا جواز باقی رہتا ہے ؟ سوائے اس کے کہ جو لوگ کسی مجبوری کی وجہ سے دار الکفر میں رہنے پر مجبور ہوں ان کے بارے میں اسلامی حکومت پر فرض عائد ہوتا ہے کہ وہ دارالکفرکی حکومت کو ان پر ظلم کرنے سے باز رکھے بصورت دیگر ان کے ساتھ کیے ہوئے معاہدے پر نظر ثانی کرنا ہوگی کیونکہ سورۃ النساء آیت نمبر ٧٥ میں قتال فی سبیل اللہ کا ایک جواز یہ بھی بیان کیا گیا ہے کہ تمھیں ایسے لوگوں کی خاطر بھی جہاد کرنا چاہیے کہ جو کمزور ہیں اور ان کے لیے دارالکفر سے نکلنے کی کوئی صورت نہیں ہے۔ ﴿وَمَا لَکُمْ لَا تُقَاتِلُونَ فِی سَبِیْلِ اللّٰہِ وَالْمُسْتَضْعَفِیْنَ مِنَ الرِّجَالِ وَالنِّسَآءِ وَالْوِلْدَانِ الَّذِینَ یَقُولُونَ رَبَّنَا أَخْرِجْنَا مِنْ ہَذِہِ الْقَرْیَۃِ الظَّالِمِ أَہْلُہَا وَاجْعَلْ لَنَا مِنْ لَدُنْکَ وَلِیًّا وَاجْعَلْ لَنَا مِنْ لَدُنْکَ نَصِیْرًا﴾[ النساء :75] ” مسلمانو! تمھیں کیا ہوگیا ہے کہ تم اللہ کی راہ میں جہاد نہیں کرتے جبکہ کئی کمزور مرد عورتیں اور بچے ایسے ہیں جو یہ فریاد کرتے ہیں اے ہمارے رب ! ہمیں اس بستی سے نکال جس کے باشندے ظالم ہیں اور اپنی جناب سے ہمارے لیے کوئی حامی مقرر کر دے اور اپنی جناب سے کوئی مددگار بھی پیدا فرما دے۔“ (عَنْ عَائِشَۃ (رض) قَالَتْ سُئِلَ رَسُول اللّٰہِ (ﷺ) عَنِ الْہِجْرَۃِ فَقَالَ لَا ہِجْرَۃَ بَعْدَ الْفَتْحِ وَلَکِنْ جِہَادٌ وَنِیَّۃٌ وَإِذَا اسْتُنْفِرْتُمْ فَانْفِرُوا)[ رواہ مسلم، کتاب الامارۃ، باب المبایعۃ بعد فتح مکہ] ” حضرت عائشہ (رض) بیان کرتی ہیں رسول معظم (ﷺ) سے ہجرت کے بارے میں سوال کیا گیا آپ (ﷺ) نے فرمایا فتح مکہ کے بعد ہجرت نہیں ہے لیکن جہاد کی نیت رکھنی چاہیے اور جب تم کو نکلنے کا کہا جائے تو تم نکل پڑو۔“ (یہ صحابہ (رض) کے لیے فرمان تھا ورنہ کسی ملک میں مسلمانوں کا رہنا اور ان کا ایمان بچانا مشکل ہوجائے تو ان کے لیے وہاں سے ہجرت کرنے کی اجازت ہے۔ اور ان کا اپنے گھروں سے نکلنا ہجرت میں کہلائے گا۔ مسائل :1۔ مہاجر اور انصار ایک دوسرے کے دوست اور وارث ہیں۔ 2۔ ولایت کا معنی دوستی، بھائی چارہ اور ایک دوسرے کا وارث بننا ہے۔ 3۔ معاہد قوم کے ساتھ کیے ہوئے وعدے کو دیانت داری کے ساتھ نبھانا چاہیے۔ 4۔ دارالکفر میں رہنے والے لوگوں کی مشروط مدد کرنا فرض ہے۔ 5۔ اللہ تعالیٰ سب کے اعمال کو دیکھنے والا ہے۔ تفسیر بالقرآن :اللہ سب کچھ جانتا اور دیکھتا ہے : 1۔ کیا آپ نہیں جانتے اللہ آسمان و زمین کی ہر چیز کو جانتا ہے۔ (الحج :70) 2۔ اللہ تعالیٰ کے لیے مثالیں بیان نہ کرو اللہ جانتا ہے اور تم نہیں جانتے۔ (النحل :74) 3۔ اس بات کو اچھی طرح جان لو کہ اللہ تمہارے دلوں میں پرورش پانے والے خیالوں سے بھی واقف ہے۔ (البقرۃ :235) 4۔ اللہ سے ڈر جاؤ اور جان لو اللہ تمہارے اعمال کو دیکھنے والا ہے۔ (البقرۃ:233)