وَأَعِدُّوا لَهُم مَّا اسْتَطَعْتُم مِّن قُوَّةٍ وَمِن رِّبَاطِ الْخَيْلِ تُرْهِبُونَ بِهِ عَدُوَّ اللَّهِ وَعَدُوَّكُمْ وَآخَرِينَ مِن دُونِهِمْ لَا تَعْلَمُونَهُمُ اللَّهُ يَعْلَمُهُمْ ۚ وَمَا تُنفِقُوا مِن شَيْءٍ فِي سَبِيلِ اللَّهِ يُوَفَّ إِلَيْكُمْ وَأَنتُمْ لَا تُظْلَمُونَ
اور (مسلمانو) جہاں تک تمہارے بس میں ہے قوت پیدا کر کے اور گھوڑے تیار رکھ کر دشمنوں کے مقابلہ کے لیے اپنا سازو سامان مہیا کیے رہو کہ اس طرح مستعد رہ کر تم اللہ کے (کلمہ حق کے) اور اپنے دشمنوں پر اپنی دھاک بٹھائے رکھو گے۔ نیز ان لوگوں کے سوا اوروں پر بھی جن کی تمہیں خبر نہیں۔ اللہ انہیں جانتا ہے۔ اور (یاد رکھو) اللہ کی راہ میں (یعنی جہاد کی تیاری میں) تم جو کچھ بھی خرچ کرو گے وہ تمہیں پورا پورا مل جائے گا۔ ایسا نہ ہوگا کہ تمہاری حق تلفی ہو۔
فہم القرآن : ربط کلام : جب تک مسلمان اپنا دفاع مضبوط رکھیں گے کافر مسلمانوں کو کبھی عاجز اور بے بس نہیں کرسکتے۔ مسلمان اگر کفار کی سازشوں اور جارحیت سے بچنا چاہتے ہیں تو انھیں اپنا دفاع ہر وقت مضبوط رکھنا ہوگا قرآن مجید نے مضبوط دفاع کا اصول اس وقت پیش کیا جب دنیا کے بڑے بڑے جنگجو اس کا تصور بھی نہیں کرسکتے تھے اگر مسلمان دشمن کی جارحیت سے محفوظ رہنا چاہتے ہیں تو اس کے لیے بہترین اصول یہ ہے کہ مسلمان اپنے گھوڑے ہر وقت تیار رکھیں۔ جس سے اللہ اور مسلمانوں کے دشمن اور وہ دشمن بھی جو خفیہ سازشیں کرتے ہیں۔ خوف زدہ ہوں گے اور مسلمانوں پر جارحیت کرنے کا تصور بھی دل میں نہیں لائیں گے۔ مضبوط دفاع کے لیے جو کچھ بھی ہوسکے کرو۔ اللہ کی راہ میں خرچ کرو گے تو اس کا تمھیں پورا پورا صلہ دیا جائے گا اور تم پر کوئی زیادتی نہ ہوگی۔ زیادتی سے پہلی مراد دشمن کی جارحیت ہے۔ اس آیت کریمہ میں تین قسم کے دشمن بیان کیے گئے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے دشمنوں سے مراد اس کی ذات کے ساتھ کفر و شرک کرنے والے، دین کے مخالف اور رسول اکرم (ﷺ) کے ساتھ دشمنی رکھنے والے۔ مسلمانوں کے دشمنوں سے مراد ان کی ذات اور دین کی بنیاد پر عداوت رکھنے والے ہیں۔ تیسرے دشمن منافق اور وہ لوگ ہیں جو دین کی سربلندی اور مسلمانوں کی ترقی نہیں چاہتے لیکن اپنی کمزوری اور مصلحت کی خاطر کھلی دشمنی سے پرہیز کرتے ہیں۔ دفاع کے لیے نقل و حمل کے ذرائع اور اسلحہ کی ضرورت ہوتی ہے جن کا حصول مال کے بغیر ممکن نہیں۔ اس لیے انفاق فی سبیل اللہ کا حکم دیا۔ یہ اتنا اہم عنصر ہے کہ قرآن مجید نے جہاد فی سبیل اللہ کے تذکرہ میں اکثر مقامات پر جہاد بالنفس سے پہلے جہاد بالمال کا حکم آیا ہے۔ یہاں دفاعی فنڈ میں حصہ لینے والوں کو تسلی دی گئی ہے کہ تمھیں اس کے بدلے پورا پورا صلہ دیا جائے گا اور تم پر کوئی زیادتی نہیں ہونے پائے گی۔ زیادتی سے مراد اجر و ثواب میں کمی ہے اور اس میں یہ اشارہ بھی موجود ہے کہ جب تم دل کھول کر اپنے دفاع میں خرچ کرو گے تو دشمن کے ظلم سے محفوظ رہو گے۔ دشمن کی جارحیت سے بچنے کے لیے حربی قوت بڑھانے اور کھلے عام جنگی گھوڑے باندھنے کا حکم دیا گیا ہے۔ قوت سے مراد ہر قسم کی طاقت اور جدید سے جدید ٹیکنالوجی کا حصول ہے۔ پرانے زمانے میں نقل و حمل کے لیے گھوڑا مضبوط اور تیز رفتار سواری تھی لیکن آج اس کی جگہ ٹینک اور بمبار طیاروں نے لے لی ہے۔ تاہم گھوڑے کی اہمیت اپنی جگہ پر قائم ہے اور قیامت تک باقی رہے گی۔ کیونکہ پہاڑی علاقے میں جیپ، ٹینک یہاں تک کہ بلند پہاڑوں میں جہاز اور ہیلی کا پٹر بھی کام نہیں دیتے۔ جس کی بنا پر دنیا میں کوئی ایسی فوج نہیں جن کے پاس جنگی گھوڑے موجود نہ ہوں۔ نبی اکرم (ﷺ) کے دور میں تیر، تلوار اور گھوڑے جنگی ضروریات میں سب سے اہم تھے۔ اس وجہ سے آپ نے ان چیزوں کی اہمیت اور فضیلت بیان کی ہے۔ تاہم ان کے باوجود آپ (ﷺ) نے اپنے دور کی جدید ٹیکنالوجی حاصل کرنے کے بارے میں پوری توجہ فرمائی۔ (عن عُقْبَۃَ بن عامِرٍ (رض) یَقُولُ سَمِعْتُ رَسُول اللّٰہِ (ﷺ) وَہُوَ عَلٰی الْمِنْبَرِ یَقُولُ وَأَعِدُّوا لَہُمْ مَا اسْتَطَعْتُمْ مِنْ قُوَّۃٍ أَلَا إِنَّ الْقُوَّۃَ الرَّمْیُ أَلَا إِنَّ الْقُوَّۃَ الرَّمْیُ أَلَا إِنَّ الْقُوَّۃَ الرَّمْیُ) [ رواہ مسلم : کتاب الامارۃ، باب فضل الرمی] ” حضرت عقبہ بن عامر (رض) بیان کرتے ہیں میں نے رسول معظم (ﷺ) کو فرماتے ہوئے سنا آپ (ﷺ) منبر پر تشریف فرمارہے تھے کافروں کے لیے حسب استطاعت طاقت تیار رکھو۔ آگاہ ہوجاؤ بلاشبہ قوت تیر پھینکنے میں ہے۔ آگاہ رہو بلاشبہ قوت تیر اندازی میں ہے۔“ (عن سَلَمَۃَ بن الْأَکْوَعِ (رض) قَالَ مَرَّ النَّبِیُّ (ﷺ) عَلٰی نَفَرٍ مِنْ أَسْلَمَ یَنْتَضِلُونَ فَقَال النَّبِیُّ (ﷺ) ارْمُوا بَنِی إِسْمَاعِیلَ فَإِنَّ أَبَاکُمْ کَانَ رَامِیًا ارْمُوا وَأَنَا مَعَ بَنِی فُلَانٍ قَالَ فَأَمْسَکَ أَحَدُ الْفَرِیقَیْنِ بِأَیْدِیہِمْ فَقَالَ رَسُول اللّٰہِ (ﷺ) مَا لَکُمْ لَا تَرْمُونَ قَالُوا کَیْفَ نَرْمِی وَأَنْتَ مَعَہُمْ قَال النَّبِیُّ (ﷺ) ارْمُوا فَأَنَا مَعَکُمْ کُلِّکُمْ) [ رواہ البخاری : کتاب الجہاد، باب التحریض علی الرمی] ” حضرت سلمہ بن اکوع (رض) بیان کرتے ہیں نبی مکرم (ﷺ) اسلم قبیلہ کے لوگوں کے پاس سے گزرے جو تیر ٹھیک کررہے تھے نبی مکرم (ﷺ) نے فرمایا اے بنو اسماعیل تیر اندازی کرو بلاشبہ تمہارے والد تیر انداز تھے اور میں فلاں قبیلہ کے ساتھ ہوں۔ صحابی فرماتے ہیں مقابل فریق نے اپنے ہاتھ روک لیے۔ رسول معظم (ﷺ) نے فرمایا آپ کو کیا ہوا کہ آپ نے تیر اندازی چھوڑ دی ہے ؟ انہوں نے عرض کی ہم آپ کے مد مقابل کس طرح تیر اندازی کریں۔ نبی کریم (ﷺ) نے فرمایا تیر اندازی کرو میں تم سب کے ساتھ ہوں۔“ (عن عُقْبَۃَ بن عامِرٍ الْجُہَنِی (رض) یَقُولُ سَمِعْتُ رَسُول اللّٰہِ (ﷺ) یَقُولُ مَنْ تَعَلَّمَ الرَّمْیَ ثُمَّ تَرَکَہٗ فَقَدْ عَصَانِی) [ رواہ ابن ماجۃ: کتاب الجہاد، باب الرمی فی سبیل اللہ] ” حضرت عقبہ بن عامر (رض) بیان کرتے ہیں میں نے رسول معظم (ﷺ) کو فرماتے سنا جس نے نشانہ بازی سیکھی پھر اس کو چھوڑدیا اس نے میری نافرمانی کی۔“ (عَنْ عُرْوَۃَ بْنِ الْجَعْدِ (رض) عَنِ النَّبِیِّ (ﷺ) قَالَ الْخَیْلُ مَعْقُودٌ فِی نَوَاصِیہَا الْخَیْرُ إِلَی یَوْمِ الْقِیَامَۃِ) [ رواہ البخاری : کتاب الجہاد، باب الخیل معقود فی نواصیہا الخیر] ” حضرت عروہ بن جعد (رض) نبی کریم (ﷺ) کا فرمان نقل کرتے ہیں آپ نے فرمایا گھوڑوں کی پیشانی میں قیامت تک خیر رکھ دی گئی ہے۔“ (عَنْ جَرِیرِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ (رض) قَالَ رَأَیْتُ رَسُول اللّٰہِ (ﷺ) یَلْوِی نَاصِیَۃَ فَرَسٍ بِإِصْبَعِہِ وَہُوَ یَقُولُ الْخَیْلُ مَعْقُودٌ بِنَوَاصِیہَا الْخَیْرُ إِلَی یَوْمِ الْقِیَامَۃِ الْأَجْرُ وَالْغَنِیمَۃُ) [ رواہ مسلم : کتاب الامارۃ، باب الخیل معقود فی نواصیہا الخیر] ” حضرت جریر بن عبداللہ (رض) فرماتے ہیں میں نے رسول مکرم (ﷺ) کو دیکھا آپ نے اپنی انگلی سے گھوڑے کی پیشانی چھوتے ہوئے فرمایا گھوڑے کی پیشانی میں قیامت تک کے لیے بھلائی رکھ دی گئی ہے۔ وہ ثواب اور مال غنیمت ہے۔“ مسائل :1۔ کافروں کے خلاف جس قدر استطاعت ہو قوت جمع کرنی چاہیے۔ 2۔ جو بھی اللہ کے راستے میں خرچ کیا جائے گا وہ پورے کا پورا واپس لوٹا دیا جائے گا۔