سورة الانفال - آیت 47

وَلَا تَكُونُوا كَالَّذِينَ خَرَجُوا مِن دِيَارِهِم بَطَرًا وَرِئَاءَ النَّاسِ وَيَصُدُّونَ عَن سَبِيلِ اللَّهِ ۚ وَاللَّهُ بِمَا يَعْمَلُونَ مُحِيطٌ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

اور (دیکھو) ان لوگوں جیسے نہ ہوجاؤ جو اپنے گھروں سے ( لڑنے کے لیے) اتراتے ہوئے اور لوگوں کی نظروں میں نمائش کرتے ہوئے نکلے اور جن کا حال یہ ہے کہ اللہ کی راہ سے (اس کے بندوں کو) روکتے ہیں۔ اور (یاد رکھو) جو کچھ بھی یہ لوگ کرتے ہیں اللہ (اپنے علم و قدرت سے) اس پر چھایا ہوا ہے۔

تفسیر فہم القرآن - میاں محمد جمیل ایم اے

فہم القرآن : ربط کلام : جنگ کے بارے میں مزید ہدایات۔ جنگ میں کامیابی حاصل کرنے کی ہدایات دینے کے بعد شکست سے دو چار کردینے والی مذموم حرکات سے روکا گیا ہے۔ 1۔ غرور، تکبر اور اترانے سے اجتناب کرنا چاہیے۔ 2۔ شہرت، نمائش سے بچ کر اخلاص کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔ 3۔ بے مقصد جنگ کرنے کے بجائے اللہ کی رضا کے لیے جہاد کرنا چاہیے۔ مشرکین مکہ بدر کے لیے نکلے تو ان میں اس قدر غرور تھا کہ وہ مسلمانوں کے ہاتھوں شکست کھانے کا سوچ بھی نہیں سکتے تھے۔ ابو جہل اور اس کے ساتھیوں کی حالت یہ تھی کہ جس کسی نے انھیں سمجھانے کی کوشش کی کہ جب تجارتی قافلہ بچ کر مکہ پہنچ چکا ہے اور قافلے کے سردار ابو سفیان کا پیغام آچکا ہے کہ اب لڑنے کی بجائے واپس آجانا چاہیے۔ اس کے بعد آگے بڑھنے کا کیا جواز ہے ؟ اس کا جواب ابو جہل یہی دیتا کہ ہم چاہتے ہیں کہ مسلمانوں کا صفایا کردیا جائے۔ اس غرور اور تکبر کے ساتھ وہ آگے بڑھتے رہے اور جہاں پڑاؤ ڈالتے، شراب اور شباب کا دور چلتا۔ مکہ سے نکلتے وقت انھوں نے ناچ گانے اور عیاشی کے لیے کچھ بے حیا عورتوں کو ساتھ لیا ہوا تھا۔ اس گھناؤنے کردار کے ساتھ ان کا جنگ کرنے کا مقصد محض عربوں پر دھاک بٹھانا اور شہرت حاصل کرنا تھا۔ تاکہ لوگ ان کی کامیابی اور قوت و سطوت دیکھ کر اسلام قبول کرنے سے رک جائیں۔ انھیں کیا خبر کہ انسان کی تدبیر اور اس کی کوئی کوشش بھی اللہ تعالیٰ کے احاطۂ قدرت سے باہر نہیں۔ اللہ تعالیٰ کے احاطۂ قدرت کا نتیجہ ہے کہ جب کوئی شخص یا قوم اس کی مقرر کی ہوئی حد سے آگے بڑھتی ہے تو وہ اسے ذلیل و خوار کردیتا ہے۔ کفار کا مقصد لوگوں کو اللہ تعالیٰ کے راستے سے روکنا اور دنیوی رعب اور دبدبہ جمانے کے سوا کچھ نہیں تھا۔ اس لیے شکست اور ذلت ان کا مقدر ٹھہری۔ مسلمانوں کو ان حرکات سے منع کیا گیا ہے۔ ان کے مقابلے میں صحابہ کرام (رض) کا مقصد اللہ تعالیٰ کی رضا اور اس کے دین کو بلند کرنا تھا جس کی وجہ سے وہ تھوڑے اور کمزور ہونے کے باوجود فتح یاب ہوئے۔ (عَنْ أَبِی مُوْسٰی (رض) قَالَ جَاءَ رَجُلٌ إِلَی النَّبِیِّ () فَقَال الرَّجُلُ یُقَاتِلُ حَمِیَّۃً وَیُقَاتِلُ شَجَاعَۃً وَیُقَاتِلُ رِیَاءً فَأَیُّ ذٰلِکَ فِی سَبِیل اللّٰہِ قَالَ مَنْ قَاتَلَ لِتَکُونَ کَلِمَۃُ اللّٰہِ ہِیَ الْعُلْیَا فَہُوَ فِی سَبِیل اللّٰہِ) [ رواہ البخاری : کتاب التوحید، باب قَوْلِہِ تَعَالَی ﴿وَلَقَدْ سَبَقَتْ کَلِمَتُنَا لِعِبَادِنَا الْمُرْسَلِینَ﴾] ” حضرت ابو موسیٰ (رض) بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص نبی اکرم (ﷺ) کی خدمت میں حاضر ہوا۔ اس نے کہا ایک آدمی اس لیے قتال کرتا ہے کہ اسے غیرت مند اور حمیت والا کہا جائے اور وہ بہادری جتلانے کے لیے لڑتا ہے دوسرا آدمی وہ ہے جو لوگوں کے دکھاوے کے لیے لڑتا ہے۔ ان میں سے کون سا قتال فی سبیل اللہ ہے ؟ نبی معظم (ﷺ) نے فرمایا جو اس لیے لڑتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا دین غالب ہو وہ جہاد فی سبیل اللہ ہے۔“ مسائل : 1۔ جہاد صرف اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے ہونا چاہیے۔ 2۔ غرور اور تکبر نہیں کرنا چاہیے۔ تفسیر بالقرآن : اللہ تعالیٰ ہر چیز کا احاطہ کیے ہوئے ہے : 1۔ آسمانوں اور زمین میں جو کچھ ہے وہ اللہ ہی کے لیے ہے۔ اللہ نے ہر چیز کو اپنے احاطہ قدرت میں لے رکھا ہے۔ (النساء :126) 2۔ لوگ جو کچھ کرتے ہیں ان سب چیزوں کو اللہ نے احاطہ میں لے رکھا ہے۔ (النساء :108) 3۔ حضرت شعیب (علیہ السلام) نے کہا کہ بے شک میرے رب نے جو تم کرتے ہو اس کا احاطہ کیا ہوا ہے۔ (ھود :92) 4۔ جو وہ عمل کرتے ہیں اللہ نے اس کا احاطہ کر رکھا ہے۔ (آل عمران :120) 5۔ اللہ تعالیٰ نے ہر چیز کا اپنے علم کے ذریعہ احاطہ کر رکھا ہے۔ (الطلاق :12) 6۔ اللہ تعالیٰ کے علم کا کوئی احاطہ نہیں کرسکتا۔ (البقرۃ:255)