وَقَالَتِ الْيَهُودُ لَيْسَتِ النَّصَارَىٰ عَلَىٰ شَيْءٍ وَقَالَتِ النَّصَارَىٰ لَيْسَتِ الْيَهُودُ عَلَىٰ شَيْءٍ وَهُمْ يَتْلُونَ الْكِتَابَ ۗ كَذَٰلِكَ قَالَ الَّذِينَ لَا يَعْلَمُونَ مِثْلَ قَوْلِهِمْ ۚ فَاللَّهُ يَحْكُمُ بَيْنَهُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ فِيمَا كَانُوا فِيهِ يَخْتَلِفُونَ
یہودی کہتے ہیں، عیسائیوں کا دین کچھ نہیں ہے، عیسائی کہتے ہیں، یہودیوں کے پاس کیا دھر اہے؟ حالانکہ اللہ کی کتاب دونوں پڑھتے ہیں (اور اصل دین دونوں کے لیے ایک ہی ہے) ٹھیک ایسی ہی بات ان لوگوں نے بھی کہی جو (مقدس نوشتوں کا) علم نہیں رکھتے (یعنی مشرکین عرب نے کہ وہ بھی صرف اپنے طریقہ ہی کو سچائی کا طریقہ سمجھتے ہیں) اچھا، قیامت کے دن اللہ ان کے درمیان حاکم ہوگا اور جس بات میں جھگڑ رہے ہیں اس کا فیصلہ کردے گا
فہم القرآن ربط کلام : اہل کتاب مسلمانوں کے خلاف شروع سے ہی متحد ہیں حالانکہ ان کی باہمی منافرت اور فرقہ واریت کا عالم یہ ہے کہ ایک دوسرے کو کافر گردانتے ہیں۔ مسلمانوں کے مقابلے میں یہود و نصاریٰ اکٹھے ہو کر کہا کرتے تھے کہ ہماری جماعتوں کے علاوہ کوئی شخص جنت میں داخل نہیں ہو پائے گا۔ حالانکہ مسلمانوں کے خلاف اتحاد کے باوجود ان کی باہمی منافرت اور فرقہ وارانہ کشیدگی کا عالم یہ تھا کہ وہ آپس کے جنگ وجدال میں اس حد تک آگے بڑھ چکے تھے کہ یہودیوں نے انجیل کے بارے میں کہا یہ تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل ہی نہیں ہوئی۔ پھر تعصب میں اس قدر اندھے ہوئے کہ جناب عیسیٰ (علیہ السلام) اور ان کی والدہ ماجدہ پر رقیق حملے کیے۔ عیسائیوں نے دو ہاتھ آگے بڑھتے ہوئے نہ صرف تورات کا منزل من اللہ ہونے کا انکار کیا بلکہ حضرت موسیٰ کلیم اللہ کی ذات گرامی پر بھی تہمتیں لگائیں۔ ان کی دیکھا دیکھی مشرکین بھی کہنے لگے کہ جب تک یہ لوگ ہمارے معبودوں کو مشکل کشا اور اللہ تعالیٰ کے ہاں انہیں وسیلہ قرار نہیں دیں گے اس وقت تک ان کی نجات مشکل ہوگی۔ اس صورت حال پر تبصرہ کرتے ہوئے فرمایا جا رہا ہے کہ یہ تو اللہ ہی فیصلہ کرے گا کہ کس کے پلے میں کیا ہے؟ اور حق و باطل کے حوالے سے کوئی کس مقام پر کھڑا تھا؟ اس فرمان میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ امّتِ محمدیہ کے خلاف ابتداء ہی سے کفر کے حامی یکجارہے ہیں۔ تفسیر ابن کثیر میں عبداللہ بن عباس {رض}سے مروی ہے : ” جب نجران کے عیسائی رسول اللہ {ﷺ}کے پاس آئے تو ان کے پاس یہودیوں کے علماء بھی آئے اور انہوں نے رسول اللہ {ﷺ}کے پاس جھگڑا کیا۔ رافع بن حریملہ نے کہا : تم کسی دین پر نہیں ہو اور ساتھ ہی عیسیٰ (علیہ السلام) اور انجیل کے ساتھ کفر کردیا اور اہل نجران کے عیسائیوں میں سے ایک شخص نے یہودیوں کو کہا : تم کسی دین پر نہیں اور اس کے ساتھ ہی موسیٰ (علیہ السلام) اور تورات کے ساتھ کفر کا اظہار کیا۔ اللہ تعالیٰ نے انہی باتوں کے متعلق فرمایا اور یہ آیت نازل فرمائی کہ ( یہود کہتے ہیں کہ نصاریٰ حق پر نہیں اور نصاریٰ کہتے ہیں کہ یہودی حق پر نہیں حالانکہ یہ لوگ تورات پڑھتے ہیں)۔“ عیسائیوں اور یہودیوں کی باہم ہرزہ سرائی :یہودیوں اور عیسائیوں کی دشمنی ہزاروں سال پرانی ہے۔ یہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے دور سے شروع ہوئی تھی اور رسول اللہ {ﷺ}کی بعثت سے تقریباً سو سال پہلے شدو مد سے جاری تھی عیسائیوں کے نزدیک یہودیوں کے درج ذیل بڑے بڑے یہ جرائم تھے اور جن کی بنیاد پریہودی قابل گردن زدنی سمجھے جاتے تھے۔ 1۔ یہودی حضرت مریم ( علیھا السلام) پر (نعوذ باللہ) بدکاری کا الزام لگاتے ہیں۔ 2۔ یہودی حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو تختۂ دار پر لٹکانے کا دعو ٰی کرتے ہیں۔ 3۔ یہودی عیسیٰ (علیہ السلام) کو (نعوذ باللہ) (خاکم بدہن) ناجائز بچہ قرار دیتے ہیں۔ 4۔ قرب قیامت یہودی عیسیٰ (علیہ السلام) کی آمد کو (نعوذ باللہ) دجال کی آمد تصور کرتے ہیں۔ 5۔ یہودی عیسائیت کا انکار کرتے ہیں۔ 6۔ عیسائیوں کے خیال کے مطابق یہودی حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے قاتل ہیں۔ چنانچہ انہی جرائم کی بنیاد پر عیسائیوں کے نزدیک یہودی قوم انتہائی قابل نفرت قوم رہی ہے۔ عیسائی انہیں روئے زمین پر سب سے شریر اور خبیث مخلوق قرار دیتے تھے اور جہاں پاتے تھے قتل کردیتے تھے۔ حال یہ تھا کہ ابتدائی دور میں جب یورپ میں طاعون (یا کالی وبا) پھیلی جس کے باعث لاتعداد ہلاکتیں ہوئیں تو عیسائیوں نے اس کا سبب یہودیوں کو ٹھہرایا حالانکہ خود عیسائی بھی اس مرض میں ہلاک ہو رہے تھے۔ یہودیوں کی جلاوطنی : 586 ء میں شاہ بابل نے یروشلم پر قبضہ کیا اور عبادت خانے کو تباہ کردیا۔ 472 ق م میں یونانی بادشاہ انہولنس نے یروشلم پر حملہ کر کے سلیمانی ہیکل کا نام و نشان مٹا دیا اور اسے بت خانے میں تبدیل کردیا۔ 135 میں رومی بادشاہ ہیڈریان نے یروشلم کو ایک بار پھر تباہ و برباد کردیا۔ 1228 ء اسپین میں یہودیوں کو قانونی طور پر لباس کے اوپر نمایاں نشان آویزاں کرنے کا حکم دیا گیا۔ 1266 ء پولینڈ کے گرجاؤں نے فیصلے صادر کئے کہ یہودی عیسائیوں کے ساتھ اکٹھے نہیں رہ سکتے۔ 1321 ء فرانس میں ایک گڑھے میں 160 یہودی دفن کئے گئے۔ 1355 ء اسپین میں ایک مشتعل ہجوم نے بارہ ہزار یہودیوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا۔ 1391 ء میجور کا جزیرے میں پچاس ہزار یہودی تہ تیغ کئے گئے۔ 1391 ء سسلی میں بڑے پیمانے پر یہودیوں کا قتل عام کیا گیا۔ 1422 ء ” کیسٹائل“ میں یہودیوں کو علیحدہ علاقے میں رہنے اور امتیازی پٹی پہننے پر مجبور کیا گیا۔ 1420 ء لیؤن : فرانس سے یہودیوں کو نکال باہر کیا گیا۔ 1492 ء اسپین میں ایک لاکھ ساٹھ ہزار یہودی ملک بدر کئے گئے۔ 1492 ء سسلی اور مالٹا سے یہودیوں کو نکال باہر کیا گیا۔ پولینڈ نے پہلی مرتبہ یہودی حد بندی کا آغاز کیا۔ (یہودیوں کو ایک مخصوص علاقہ میں محدود کرنے کو یورپ میں Ghetto کی اصطلاح سے پکارا جاتا ہے۔) 1498 ء پرتگال میں ایک بھی یہودی باقی نہ رہنے دیا گیا۔ 1935 ء تا 1941 ء۔ ہٹلر نے ہزاروں یہودیوں کو انسانیت سوز سلوک سے دو چار کر کے عظیم تباہی مچائی۔ (یہودی اس سانحے کو ہولو کاسٹ Holocaust کہہ کر پکارتے اور بے حد مبالغے سے کام لے کر دنیا کی ہمدردیاں سمیٹتے ہیں۔ (حوالہ کتاب : عرب اور اسرائیل‘ ازرون ڈیوڈ صفحہ 75 اور صفحہ 108) مسائل :1۔ یہود و نصاریٰ اپنے آپ کو جنت کا وارث سمجھنے کے باوجود ایک دوسرے کو کافر گردانتے ہیں۔ 2۔ اللہ تعالیٰ روز قیامت ہر قسم کے اختلافات کا فیصلہ فرمائیں گے۔ تفسیر بالقرآن: یہود ونصاریٰ کے باہمی اختلافات : 1۔ مسلمان یہودیوں اور عیسائیوں کو متحد سمجھتے ہیں۔ حالانکہ وہ باہم ایک دوسرے کے خلاف ہیں۔ (البقرۃ:113) 2۔ یہود و نصاری قیامت تک باہم اختلاف کرتے رہیں گے۔ (المائدۃ:14) 3۔ یہودیوں کا حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) اور ان کی والدہ پر الزام۔ (النساء :156) 4۔ یہودی حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو قتل کرنے کے دعویدار ہیں۔ (النساء :157)