سورة الانفال - آیت 30

وَإِذْ يَمْكُرُ بِكَ الَّذِينَ كَفَرُوا لِيُثْبِتُوكَ أَوْ يَقْتُلُوكَ أَوْ يُخْرِجُوكَ ۚ وَيَمْكُرُونَ وَيَمْكُرُ اللَّهُ ۖ وَاللَّهُ خَيْرُ الْمَاكِرِينَ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

اور (اے پیغمبر) وہ وقت یاد کرو جب (مکہ میں) کافر تیرے خلاف اپنی چھپی تدبیروں میں لگے تھے تاکہ تجھے گرفتار کر رکھیں یا قتل کر ڈالیں یا جلا وطن کردیں اور وہ اپنی مخفی تدبیریں کر رہے تھے اور اللہ اپنی مخفی تدبیریں کر رہا تھا، اور اللہ بہتر تدبیر کرنے والا ہے۔

تفسیرفہم قرآن - میاں محمد جمیل

فہم القرآن : ربط کلام : سابقہ حالات پر تبصرہ جاری ہے۔ اس سے پہلے مسلمانوں کو مکی حالات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے احساس دلایا گیا کہ اپنا ماضی یاد کرو جب تم کمزور اور قلیل تھے تمھیں ہر وقت خطرہ لاحق رہتا تھا کہ تمھارا دشمن تمھیں نیست و نابود نہ کردے۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے تمھاری نصرت و حمایت کی اس آیت میں نبی کریم (ﷺ) کو مخاطب کرتے ہوئے آپ کے سامنے آپ کی ہجرت کا پس منظر رکھا گیا ہے۔ اے نبی ! وہ وقت یاد کیجیے جب کفار نے یہ طے کیا تھا کہ آپ کو ہمیشہ کے لیے قید و بند کردیا جائے یا آپ کو قتل کردیا جائے یا پھر جلا وطن کردیا جائے۔ جب وہ آپ کے خلاف مکر و فریب اور سازشیں کر رہے تھے تو اللہ تعالیٰ نے بھی ایک فیصلہ کر رکھا تھا اور اللہ تعالیٰ سے بڑھ کر کوئی فیصلہ اور تدبیر کرنے والا نہیں ہے۔ اہل مکہ آپ کی عظیم اور پر خلوص جدوجہد سے تنگ آکر۔ دارالندوہ میں بھرپور نمائندہ اجتماع کرتے ہیں۔ جس کا ایجنڈا یہ تھا کہ ہم نے محمد (ﷺ) اور اس کے ساتھیوں کے بارے میں ہر حر بہ استعمال کیا مگر وہ بڑھتے ہی جا رہے ہیں ان حالات میں ہمیں فیصلہ کن اور آخری قدم اٹھانا چاہیے۔ مکہ کے ایک سردار نے یہ تجویز پیش کی کہ اسے تا حیات قید رکھا جائے۔ جس کی مخالفت کرتے ہوئے دوسروں نے کہا کہ یہ ممکن نہیں کیونکہ اس کے ساتھی اپنی جانوں پر کھیل کر اسے چھڑوا نے کی کوشش کریں گے۔ دوسری تجویز یہ تھی کہ اسے جلاوطن کردیا جائے اس کا جواب یہ آیا کہ اگر ہم نے ایسا کیا تو یہ ہمارے خلاف لوگوں کو منظم کرنے میں کامیاب ہوجائے گا۔ آخری تجویز ابو جہل نے پیش کی کہ اسے قتل کردینا چاہیے جس کی تائید میں مجلس میں بیٹھے ہوئے عجمی شیخ کی صورت میں شیطان نے کہا کہ میں اس تجویز کی تائید کرتے ہوئے یہ اضافہ کرنا چاہوں گا کہ اسے قتل کرنے کے لیے مکہ کے تمام خاندانوں سے ایک ایک جوان لیا جائے تاکہ محمد (ﷺ) کا خاندان خون بہا کا مطالبہ کرے تو یہ ذمہ داری کسی ایک فرد پر عائد نہ ہو سکے اور ہم سب اس کی دیت دے کر اس کے خاندان سے نجات پا جائیں گے۔ چنانچہ اگلی رات آپ کے گھر کا گھیراؤ کرلیا گیا حسب فیصلہ انھوں نے آپ کے گھر کا محاصرہ کیا۔ اس وقت آپ کو بذریعہ وحی اس صورت حال سے آگاہ کیا گیا تو آپ نے حضرت علی (رض) کو حکم دیا کہ وہ آپ کی سبز دھاری دار چادر لے کرچار پائی پر لیٹ جائے۔ پھر آپ نے اللہ تعالیٰ کے حکم سے زمین سے مٹی اٹھاتے ہوئے مکان کے چاروں طرف پھینکی جو کفار کے سروں پر پڑی۔ جس سے وہ مدہوش ہوگئے اس طرح آپ اپنے گھر سے باہر نکلے اور حضرت ابوبکر صدیق (رض) کو لے کر تین دن غار ثور میں روپوش رہے بالآخر مدینہ کی طرف ہجرت فرمائی۔ اس طرح اللہ تعالیٰ نے اپنی تدبیر کو کامیاب فرمایا جس سے آپ (ﷺ) کفار کی دست برد سے محفوظ رہے اور اسلام کا بول بالا ہوا۔ تفصیل کے لیے سیرت کی کتب کا مطالعہ کیا جائے۔ مسائل : 1۔ کفار کی ہر سازش ناکام ہوئی۔ 2۔ اللہ تعالیٰ کا فیصلہ اور تدبیر ہمیشہ غالب رہتی ہے کیونکہ اللہ بہترین تدبیر کرنے والا ہے۔ تفسیر بالقرآن : اللہ تعالیٰ بہترین تدبیر کرنے والا ہے : 1۔ عیسائیوں نے خفیہ تدبیرکی اللہ نے وہ تدبیر انھی پر لوٹا دی اللہ بہترین تدبیر کرنے والا ہے۔ (آل عمران :54) 2۔ ان سے پہلے لوگوں نے بھی تدبیر کی سب تدبیر اللہ ہی کے لیے ہے۔ (الرعد :42) 3۔ انھوں نے مکرو فریب کیا جبکہ اللہ نے بھی تدبیر کی لوگ اس کی تدبیر کو نہیں سمجھتے۔ (النمل :50) 4۔ انھوں نے سازشیں کیں اللہ کے ہاں بہتر تدبیریں ہیں۔ (ابراہیم :36) 5۔ کیا لوگ اللہ کی تدبیر سے بے خوف ہوگئے ہیں۔ (الاعراف :99)