وَاعْلَمُوا أَنَّمَا أَمْوَالُكُمْ وَأَوْلَادُكُمْ فِتْنَةٌ وَأَنَّ اللَّهَ عِندَهُ أَجْرٌ عَظِيمٌ
اور یاد رکھو تمہارا مال اور تمہاری اولاد (تمہارے لیے) ایک آزمائش ہے اور یہ بھی نہ بھولو کہ اللہ ہی ہے جس کے پاس (بخشنے کے لیے) بہت بڑا اجر ہے۔
فہم القرآن : ربط کلام : خیانت سے بچنے کا حکم دینے کے ساتھ مال اور اولاد کو آزمائش قرار دیا گیا ہے۔ کیونکہ عموماً انسان ان کی وجہ سے خیانت کا مرتکب ہوتا ہے۔ واعلموا کا معنی ہے اچھی طرح جان لو، اس میں ایک قسم کا انتباہ پایا جاتا ہے کہ اے لوگو تمھارے مال اور تمھاری اولاد تمھارے لیے آزمائش کا باعث ہیں عمومی طور پر انسان اس وقت ہی خیانت کا مرتکب ہوتا اور شریعت کے احکام میں سستی اور غفلت کرتا ہے جب اس کے دل میں مال اور اولاد کی محبت غلو کر جائے۔ اس لیے مناسب سمجھا گیا کہ خیانت سے بچنے کا حکم دینے کے بعد لوگوں کو بتلایا جائے کہ مال اور اولاد خیانت کا سبب بنتے ہیں لہٰذا تمھیں ان کے بارے میں محتاط رہنا چاہیے جو شخص اس آزمائش میں پورا اترے گا اللہ کے ہاں اسے اجر عظیم سے نوازا جائے گا۔ نبی اکرم (ﷺ) کا فرمان ہے کہ ہر امت کے لیے ایک اجتماعی آزمائش ہوا کرتی ہے۔ میری امت کے لیے اجتماعی آزمائش مال ہوگا۔ دوسرے موقع پر آپ نے صحابہ کرام (رض) کو متنبہ کرتے ہوئے فرمایا کہ اے میرے ساتھیو! مجھے آپ کی غربت کے بارے میں کوئی اندیشہ نہیں میں تو تمہارے متعلق کثرت مال سے ڈرتا ہوں۔ اولاد کے متعلق آپ نے یہ آیت کریمہ اس وقت تلاوت فرمائی جب آپ منبر پر کھڑے خطبہ ارشاد فرما رہے تھے سامنے دیکھا تو حسن و حسین لوگوں کے درمیان اچھلتے ہوئے منبر کی طرف آرہے تھے آپ نے خطبہ منقطع کیا اور ان کو سینہ کے ساتھ چمٹاتے ہوئے اس آیت کی تلاوت فرمائی کہ واقعی اولاد انسان کے لیے آزمائش ہے۔ (عَنْ ابْنِ بُرَیْدَۃَ عَنْ أَبِیہٖ قَالَ بَیْنَا رَسُول اللّٰہِ (ﷺ) عَلَی الْمِنْبَرِ یَخْطُبُ إِذْ أَقْبَلَ الْحَسَنُ وَالْحُسَیْنُ عَلَیْہِمَا السَّلَام عَلَیْہِمَا قَمِیصَانِ أَحْمَرَانِ یَمْشِیَانِ وَیَعْثُرَانِ فَنَزَلَ وَحَمَلَہُمَا فَقَالَ صَدَقَ اللّٰہُ ﴿إِنَّمَا أَمْوَالُکُمْ وَأَوْلَادُکُمْ فِتْنَۃٌ﴾ رَأَیْتُ ہٰذَیْنِ یَمْشِیَانِ وَیَعْثُرَانِ فِی قَمِیصَیْہِمَا فَلَمْ أَصْبِرْ حَتّٰی نَزَلْتُ فَحَمَلْتُہُمَا) [ رواہ النسائی : کتاب العیدین، باب نزول الامام عن المنبر قبل فراغہ من الخطبۃ] ” حضرت ابن بریدہ (رض) اپنے والد سے بیان کرتے ہیں وہ کہتے ہیں ایک دن رسول معظم (ﷺ) منبر پر خطبہ ارشاد فرمارہے تھے اچانک حسن اور حسین ( علیہ السلام) آگئے انہوں نے سرخ قمیصیں پہن رکھی تھیں وہ چلتے اور گرتے پڑتے آرہے تھے نبی اکرم (ﷺ) نے منبر سے اتر کر ان دونوں کو اٹھا لیا اور فرمایا اللہ تعالیٰ سچا ہے تمہارے مال اور اولاد تمہارے لیے آزمائش ہیں میں نے ان دونوں کو گرتے پڑتے اپنے کپڑوں میں الجھتے دیکھا مجھ سے رہا نہ جا سکا یہاں تک کہ میں نے اتر کر ان دونوں کو اٹھا لیا۔“ (عَنْ خَوْلَۃَ بِنْتِ قَیْسٍ وَکَانَتْ تَحْتَ حَمْزَۃَ بْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ تَقُولُ سَمِعْتُ رَسُول اللّٰہِ (ﷺ) یَقُولُ إِنَّ ہٰذَا الْمَالَ خَضِرَۃٌ حُلْوَۃٌ مَنْ أَصَابَہُ بِحَقِّہٖ بُورِکَ لَہٗ فیہِ وَرُبَّ مُتَخَوِّضٍ فیمَا شَاءَ تْ بِہٖ نَفْسُہٗ مِنْ مَال اللّٰہِ وَرَسُولِہٖ لَیْسَ لَہٗ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ إِلَّا النَّارُ) [ رواہ الترمذی : کتاب الزہد، باب ماجاء فی أخذ المال بحقہ] ” حضرت خولہ بنت قیس (رض) جو کہ حمزہ بن عبدالمطلب (رض) کی بیوی تھیں فرماتی ہیں میں نے رسول معظم (ﷺ) کو سنا آپ فرمارہے تھے بلاشبہ یہ مال خوشنما اور دلفریب چیز ہے جو کوئی اس کو حق کے ساتھ لے گا تو اس کے لیے برکت کی جائے گی اور کتنے ہی متکلف لوگوں کے دل اللہ اور اس کے رسول کے مال سے چاہ رہے ہوتے ہیں لیکن قیامت میں آگ کے سوا ان کے لیے کچھ نہ ہوگا۔“ (عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عُمَرَ (رض) قَالَ أَخَذَ رَسُول اللّٰہِ (ﷺ) بِمَنْکِبِی فَقَالَ کُنْ فِی الدُّنْیَا کَأَنَّکَ غَرِیبٌ أَوْ عَابِرُ سَبِیلٍ وَکَانَ ابْنُ عُمَرَ یَقُولُ إِذَا أَمْسَیْتَ فَلَا تَنْتَظِرْ الصَّبَاحَ وَإِذَا أَصْبَحْتَ فَلَا تَنْتَظِرْ الْمَسَاءَ وَخُذْ مِنْ صِحَّتِکَ لِمَرَضِکَ وَمِنْ حَیَاتِکَ لِمَوْتِکَ) [ رواہ البخاری : کتاب الرقاق، باب قول النبی کن فی الدنیا کانک غریب] ” حضرت عبداللہ بن عمر (رض) بیان کرتے ہیں رسول معظم (ﷺ) نے میرے کندھے سے پکڑتے ہوئے فرمایا دنیا میں اس طرح رہو جس طرح تم اجنبی یا مسافر ہو اور عبداللہ بن عمر (رض) فرماتے تھے جب تم شام کرو تو صبح کا انتظار نہ کرو اور جب تم صبح کرو تو شام کا انتظار نہ کرو اپنی صحت کو مرض سے پہلے غنیمت جانو اور اپنی زندگی کو موت سے پہلے غنیمت سمجھو۔“ مسائل : 1۔ مال اور اولاد انسان کے لیے آزمائش ہیں۔ 2۔ آزمائش میں پورا اترنے والے کے لیے اجر عظیم ہے۔