وَقَالُوا لَن يَدْخُلَ الْجَنَّةَ إِلَّا مَن كَانَ هُودًا أَوْ نَصَارَىٰ ۗ تِلْكَ أَمَانِيُّهُمْ ۗ قُلْ هَاتُوا بُرْهَانَكُمْ إِن كُنتُمْ صَادِقِينَ
اور یہودی کہتے ہیں جنت میں کوئی آدمی داخل نہیں ہوسکتا جب تک کہ وہ یہودی نہ ہو۔ اسی طرح عیسائی کہتے ہیں جنت میں کوئی داخل نہیں ہوسکتا جب تک کہ عیسائی نہ ہو۔ (یعنی ان میں سے ہر گروہ سمجھتا ہے آخرت کی نجات صرف اسی کے حصے میں آئی ہے اور جب تک ایک انسان اس کی مذہبی گروہ بندی میں داخل نہ ہو نجات نہیں پاسکتا۔ (اے پیغمبر) یہ ان لوگوں کی جاہلانہ امنگیں اور آرزوئیں ہیں۔ نہ کہ حقیقت حال۔ تم ان سے کہ اگر تم اپنے اس زعم میں سچے ہو تو ثابت کرو تمہارے دعوے کی دلیل کیا ہے
فہم القرآن : (آیت 111 سے 112) ربط کلام : اہل کتاب قرآن کے منکر‘ مسلمانوں کے دشمن اور ایک دوسرے کو کافر کہنے کے باوجود جنت کے ٹھیکیدار بنتے تھے۔ یہاں ان کے دعوے کی قلعی کھولتے ہوئے ایک اصول بیان کیا گیا ہے کہ نیک اور جنت کا وارث وہ ہے جس نے اپنے آپ کو اللہ کے حکم کے تابع کردیا۔ انبیاء کے نافرمان اور نبی آخر الزماں {ﷺ}کے گستاخ اللہ تعالیٰ کے اختیارات پر اعتراضات کرنے والے حسد و بغض کے پیکر یہود و نصاریٰ مسلمانوں کو دولت ایمان سے محروم کرنے کی سازشیں کرنے اور صلوٰۃ و زکوٰۃ سے عملاً انحراف کرنے کے باوجود سمجھتے ہیں کہ ہم ہی جنت کے مالک ہوں گے۔ حالانکہ ” اللہ“ کی جنت اتنی ارزاں اور کم حیثیت نہیں کہ جو چاہے اپنے من ساختہ تصورات، دعوؤں اور نعروں کی بنیاد پر اسے حاصل کرلے یہ تو ایمان، اخلاص کی دولت اور اعمال کی گراں قدر قیمت پیش کرنے سے ہی مل سکے گی۔ لہٰذا اگر تم جنت کے حقدار ہو تو اس کے لیے کوئی ثبوت اور سرمایۂ عمل پیش کرو۔ ہاں جنت میں وہ شخص ضرور جائے گا جس نے اپنے چہرے اور عمل کو اپنے رب کے لیے حوالے کردیا ہے۔ چہرہ حوالے کرنے سے مراد کلی طور پر تابع فرمان ہونا ہے۔ جس میں یہ امر بھی لازم ہے کہ اس کے عمل پر خاتم النبیین {ﷺ}کی سنت کی مہر لگی ہوئی ہو۔ یہودی عیسائی گٹھ جوڑ : 1492 ء تک سارے مغرب میں یہودیوں کا داخلہ بند تھا۔ یہودیوں کے بارے میں عیسائی یہ یقین رکھتے تھے کہ اللہ کی پیدا کردہ مخلوقات میں سب سے بدترین اور شریر ترین مخلوق یہودی ہیں۔ یہودیوں پر سب سے زیادہ تشدد اور ظلم عیسائیوں ہی نے کیا ہے عیسائی انہیں حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کا قاتل سمجھتے تھے یہ دور یہودیوں پر عیسائیوں کے بدترین تشدد کا دور تھا۔ ان کے لیے دنیا میں کوئی جائے پناہ نہ تھی۔ لیکن عجیب اتفاق ہے کہ 1948 ء میں اسرائیل کے قیام کے بعد عیسائیوں کی یہود دشمنی آہستہ آہستہ ختم ہونے لگی۔ بلکہ اس سے آگے بڑھ کر وہ یہودیوں سے بھی زیادہ اسرائیل کی توسیع اور استحکام کے وکیل بنے ہوئے ہیں۔ ان کے بڑے بڑے مبلّغین مثلاً جیری فال ویل اور جمی سوا گراٹ جنہیں امریکہ کی بہت بڑی اکثریت انتہائی انہماک سے سنتی ہے امریکی اسے اپنا مذہبی راہنما قرار دیتے ہیں۔ یہودیوں کی وکالت کر رہے ہیں سابق صدر جمی کارٹر کا کہنا ہے کہ ” اسرائیل کا قیام بائبل کی پیشین گوئی کی تکمیل ہے۔“ اسی طرح سابق صدر رونالڈ ریگن نے بھی کہا تھا کہ ” عنقریب دنیا فنا ہوجائے گی۔“ (صرف عیسائی اور یہودی زندہ رہیں گے) حالانکہ حیرت انگیز طور پر صدر کینیڈی تک امریکہ کے بیشتر صدور اسرائیل اور یہودیوں کے سخت ترین مخالف تھے۔ صدر آئزن ہاور یہودیوں کی توسیع پسندی کے سخت دشمن تھے۔ امریکہ کے ایک صدر جارج بش واشنگٹن نے اپنے عوام کو متنبہ کیا تھا کہ ” یہودی خون چوسنے والی چمگادڑیں ہیں اور اگر تم نے انہیں امریکہ بدر نہ کیا تو دس سال سے بھی کم عرصہ میں یہ تمہارے ملک پر حکمرانی کرنے لگیں گے اور تمہاری آزادی کو سلب کرلیں گے۔“ (بیان ایمسٹرڈم چیمبر 22-9-1654) خوش قسمتی سے اسی زمانے میں کو لمبس نے امریکہ دریافت کیا تھا۔ چنانچہ یہودیوں نے خود کو محفوظ رکھنے کی خاطر امریکہ کو اپنا وطن بنانے کا فیصلہ کرلیا۔ انہوں نے دور اندیشی کی بنیاد پر نیویارک کی بندرگاہوں کو اپنے لیے منتخب کیا تاکہ سمندری و تجارتی راستے سے وہ پہلے امریکہ اور پھر ساری دنیا پر قبضہ کرسکیں۔ ان کے اسی فیصلے کے بعد آج نیو یارک کو جیویارک بھی کہا جاتا ہے۔ دوسری طرف پروٹسٹنٹ عیسائی بھی امریکہ چلے گئے۔ اس طرح امریکہ میں آج تک یہی فرقہ اکثریت میں موجود رہا۔ یہ پروٹسٹنٹ عیسائی ہی تھے جنہوں نے یہودیوں کے لیے عیسائیوں کے دلوں میں نرم گوشہ پیدا کیا اور ان کی حمایت کی۔ ان کے اثرات ہی کی وجہ سے عیسائیوں کی بڑی آبادی اس بات کی قائل ہوئی کہ فلسطین کو یہودیوں کی سرزمین قرار دیا جائے۔ یہودیوں کے ساتھ ان کی ہمدردی کا یہ حال تھا کہ صیہونی (اسرائیلی) تحریک سے پہلے قیام اسرائیل کا مطالبہ کرنے والے یہودی نہیں بلکہ خود عیسائی تھے۔ عیسائیوں کا کہنا تھا کہ ارض مقدس میں یہودیوں کی واپسی نزول مسیح کا پیش خیمہ ہے۔ عیسائیوں کو یہودیوں سے اس لیے بھی ہمدردی ہے کہ وہ سمجھتے ہیں کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی آمد کے بعد تمام یہودی آخر کار عیسائیت اختیار کرلیں گے۔ مسائل: 1۔ یہود و نصاریٰ ایمان و عمل کے بغیر جنت میں جانے کے دعوے دار بنتے ہیں۔ 2۔ جنت میں جانے کے لیے نبی آخرالزماں {ﷺ}پر ایمان اور عمل صالح کی ضرورت ہے۔ تفسیر بالقرآن جنت کے تقاضے : 1۔ جنت دعووں اور نعروں کی بنیاد پر نہیں ملے گی۔ (البقرۃ:111) 2۔ جنت مشکلات برداشت کئے بغیر نہیں ملے گی۔ (البقرۃ :214) 3۔ ایمان اور عمل صالح کی بنیاد پر جنت الفردوس حاصل ہوگی۔ (الکہف :107) 4۔ جنت آزمائش میں گزرے بغیر حاصل نہیں ہوگی۔ (العنکبوت :3)