كَمَا أَخْرَجَكَ رَبُّكَ مِن بَيْتِكَ بِالْحَقِّ وَإِنَّ فَرِيقًا مِّنَ الْمُؤْمِنِينَ لَكَارِهُونَ
(اس معاملہ کو بھی ویسا ہی سمجھ) جس طرح (جنگ بدر میں) یہ بات ہوئی تھی کہ تیرے پروردگار نے سچائی کے ساتھ تجھے تیرے گھر سے نکالا تھا اور یہ واقعہ ہے کہ مومنوں کا ایک گروہ اس بات سے ناخوش تھا۔
فہم القرآن : (آیت 5 سے 8) ربط کلام : انفال کے بارے چند بنیادی احکام کے بعد غزوۂ بدر کی چند تفصیلات کہ غنیمتیں کیوں اللہ اور اس کے رسول کے لیے ہیں۔ رسول محترم اور آپ کے عظیم رفقاء نے مکہ میں تیرہ سال بے پناہ مصائب و آلام کا سامنا کیا بالآخر مدینہ کی طرف ہجرت کرنے پر مجبور ہوئے مکہ والوں نے آخر وقت تک آپ کو قتل کرنے کی کوشش کی۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے خیر و سلامتی کے ساتھ آپ کو مدینہ طیبہ پہنچا دیا۔ یہاں پہنچ کر رسول معظم (ﷺ) نے مسلمانوں میں مواخات قائم فرمائی اور یہودیوں کے ساتھ میثاق مدینہ کے نام سے ایک معاہدہ کیا۔ جس میں فریقین کے حلیف قبیلے بھی شامل تھے۔ عبداللہ بن ابی جسے آپ کی آمد سے پہلے اہل مدینہ نے اپنا سربراہ بنانے کا فیصلہ کر رکھا تھا۔ آپ کی تشریف آوری کی وجہ سے اس منصب سے ہمیشہ کے لیے محروم ہوگیا۔ اس نے آپ کی شخصیت اور منصوبہ بندی سے مرعوب ہو کر بظاہر کلمہ پڑھا۔ منافقت کا لبادہ پہن کر مدینہ کے یہودیوں اور مکے والوں کے ساتھ ساز باز کا منصوبہ بنایا جس بنا پر مکے والوں کو مدینہ کے بارے میں پل پل کی خبر دیا کرتا تھا۔ عقیدے کا اختلاف اور رسول محترم (ﷺ) کا اہل مکہ سے بچ نکلنا اور مدینہ میں آپ کی منصوبہ بندی کو اہل مکہ کس طرح برداشت کرسکتے تھے اس لیے انھوں نے خفیہ طور پر مدینہ پر حملہ کرنے کا پروگرام بنایا جس کے لیے کثیر سرمایہ کی ضرورت تھی اسی خاطر انھوں نے شام کے لیے ایک تجارتی قافلہ تیار کیا کہ جس کی رقم کا پیشتر حصہ مدینہ فتح کرنے پر لگانا تھا ادھر نبی محترم بھی مکہ والوں کی سرگرمیوں سے پوری طرح آگاہ تھے جناب عباس اور کچھ دوسرے لوگ نبی (ﷺ) کو مکہ کے حالات سے باخبر رکھتے تھے۔ آپ کو تجارتی قافلہ کی غرض و غایت کا علم ہوا تو آپ نے اس قافلہ پر شبخون مارنے کا فیصلہ کیا۔ حالات کی تیزرفتاری کی وجہ سے آپ نے اعلان فرمایا کہ جو لوگ بھی اس ایمر جنسی میں تیار ہو سکتے ہیں وہ ہمارے ہم رکاب ہوجائیں۔ آپ کے اس فیصلے کو اللہ تعالیٰ نے یہ فرما کر اپنی طرف منسوب فرمایا ہے کہ آپ کے رب نے ہی آپ کو آپ کے گھر سے نکالا تھا۔ یہاں گھر سے مراد مدینہ طیبہ کا گھر اور شہر ہے۔ بدر مدینہ طیبہ سے تقریباً ڈیڑھ سو کلو میٹر دور تھا جب آپ بدر کے مقام کے قریب پہنچے تو آپ کے مخبروں نے آپ کو اطلاع دی کہ قافلہ جرنیلی راستہ چھوڑ کر ساحلی راستہ اختیار کرکے یہاں سے نکل چکا ہے۔ راستہ تبدیل کرنے سے پہلے مکی قافلہ کے سربراہ ابو سفیان نے مکہ والوں کو صورت حال سے آگاہ کرتے ہوئے پیغام بھیجا کہ فوری طور پر قافلے کی حفاظت کا بندوبست کیا جائے۔ مکہ والے پہلے ہی ادھار کھائے بیٹھے تھے اس لیے ابو جہل نے حفاظتی دستہ بھیجنے کے بجائے نبی اکرم (ﷺ) کے ساتھ جنگ کرنے کا فیصلہ کیا۔ ابو سفیان کا نمائندہ مکہ پہنچا تو اس نے قدیم روایت کے مطابق شدید ترین ہنگامی صورت حال کا تاثر دینے کے لیے اپنی سواری کا ناک چیر ڈالا اپنا گریبان چاک کیا اور مکہ کے شاہر اہوں میں کھڑے ہو کر دہائی دی کہ قافلہ لٹنے ہی والا ہے۔ اس پر مکہ کے ایک ہزار سورما مرنے مارنے کے لیے تیار ہوگئے۔ رسول معظم (ﷺ) نے بدر کے قریب جا کر اپنے ساتھیوں کو تجارتی قافلے اور مکہ کے لشکر کے بارے میں بتلایا۔ اور مشورہ طلب کیا کہ ان حالات میں ہمیں کیا کرنا چاہیے ؟ اس پر تین سو تیرہ مجاہدین فکری طور پر دو حصوں میں تقسیم ہوگئے۔ ایک حصہ کا خیال تھا جس قافلہ کے لیے ہم آئے تھے وہ ہمارے ہاتھ سے نکل چکا ہے۔ ہم تھوڑے اور بے سروسامان ہیں۔ اس لیے ہمیں واپس پلٹ جانا چاہیے۔ دوسرے فریق کا نکتہ نگاہ اس کے برعکس تھا۔ اس صورت حال میں آپ نے وقفہ، وقفہ کے بعد تین چار مرتبہ صحابہ سے فرمایا : اَشِیْرُوْا عَلیٰ ہٰذَا اَیُّہَا النَّاس لوگومجھے مشورہ دو۔ جس پر حضرت ابو بکر (رض)، حضرت عمر (رض) نے عرض کی کہ اللہ کے رسول (ﷺ) ہم آخر دم تک آپ کے ساتھ کھڑے رہیں گے۔ لیکن آپ کا مطمع نظریہ تھا کہ انصار کے نمائندے اپنے خیالات کا اظہار فرمائیں۔ جس کی مؤرخین نے یہ توجیہ بیان کی ہے کہ بیعت عقبہ کے موقع پر یہ بات طے پائی تھی کہ آپ ہجرت کرکے مدینہ آئیں اگر کوئی آپ پر حملہ آور ہوا تو انصار اس کا دفاع کریں گے۔ اس لیے آپ نے مناسب جانا کہ انصار بھی اپنے خیالات کا اظہار کریں۔ جونہی انصار نے آپ کا نقطہ نظر جانا تو وہ تڑپ گئے۔ ان کے نمائندے سعد بن معاذ (رض) نے اٹھ کر عرض کی یا رسول اللہ ! اس ذات کی قسم جس نے آپ کو دین حق کے ساتھ مبعوث فرمایا ہے، اگر آپ ہمیں سمندر میں چھلانگ لگانے کا حکم دیں تو ہمیں اس کے لیے بھی تیار پائیں گے۔ کل جب دشمن سے مقابلہ ہوگا تو ہم اس طرح اپنی جان پر کھیل جائیں گے۔ جس سے آپ کی آنکھیں ٹھنڈی ہوجائیں گی پھر حضرت مقداد (رض) اٹھے اور انھوں نے آپ کی خدمت میں عرض کی کہ آپ ہمیں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی قوم کی طرح نہیں پائیں گے جنھوں نے کہا تھا کہ اے موسیٰ ! آپ اور آپ کا خدا لڑیں ہم یہاں بیٹھے ہیں۔ اے اللہ کے رسول! آپ حبشہ کے دو دراز علاقہ ” برق الغماد“ تک جانا چاہیں تو ہم اس کے لیے بھی تیار ہیں۔ ان جذبات اور بھرپور تائید کے ساتھ آپ نے بدر کی طرف پیش قدمی فرمائی۔ جس کی تائید کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ آپ کا گھر سے نکلنا اور بدر کی طرف روانہ ہونا۔ اللہ تعالیٰ ہی کا آپ کو حق کے ساتھ نکالنا تھا۔ حق سے مراد دین کی سربلندی کے لیے بروقت نکلنا اور صحیح فیصلہ کرنا ہے۔ حضرت مقدار (رض) کا دلیرانہ جواب : (عَنْ عَبْدِ اللَّہِ قَالَ قَالَ الْمِقْدَادُ (رض) یَوْمَ بَدْرٍ یَا رَسُول اللّٰہِ إِنَّا لَا نَقُولُ لَکَ کَمَا قَالَتْ بَنُو إِسْرَاءِیلَ لِمُوسٰی ﴿فَاذْہَبْ أَنْتَ وَرَبُّکَ فَقَاتِلَا إِنَّا ہَا ہُنَا قَاعِدُونَ﴾ وَلَکِنْ امْضِ وَنَحْنُ مَعَکَ فَکَأَنَّہُ سُرِّیَ عَنْ رَسُول اللّٰہِ (ﷺ) [ رواہ البخاری : کتاب المغازی، باب قول اللّٰہ ﴿ إِذْ تَسْتَغِيثُونَ رَبَّكُمْ ﴾] ” حضرت عبداللہ (رض) بیان کرتے ہیں حضرت مقداد (رض) نے بدر کے دن رسول معظم (ﷺ) سے کہا ہم اس طرح نہیں کہیں گے جیسے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی قوم نے ان سے کہا تھا تم اور تمھارا پروردگار دونوں جاؤ اور لڑو۔ ہم یہاں بیٹھے ہوئے ہیں آپ نکلیں ہم آپ کے ساتھ ہیں رسول معظم (ﷺ) اس بات سے خوش ہوگئے۔“ یہاں جھگڑا کرنے سے مراد بحث و تکرار ہے۔ صحابہ (رض) کی دوسری جماعت کا خیال تھا کہ ہم سراسر موت کے منہ میں جا رہے ہیں اسی پر تبصرہ کرتے ہوئے قرآن کہہ رہا ہے کہ گویا کہ وہ موت کو اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے تھے۔ جبکہ اللہ تعالیٰ نے نبی اکرم (ﷺ) سے وعدہ کیا تھا کہ دو جماعتوں میں کوئی ایک جماعت تمھارے ہاتھ لگے گی۔ یعنی تجارتی قافلہ یا مکے کے لشکر سے مڈ بھیڑ ہوگی۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فیصلہ کر رکھا تھا کہ آج حق کو اپنے حکم کے ساتھ بالا کر دے اور کفار کی جڑ کاٹ دے حق و باطل کے درمیان ہمیشہ کے لیے فیصلہ اور امتیاز ہوجائے خواہ یہ بات مجرموں کے لیے کتنی ہی ناپسند کیوں نہ ہو۔ مسائل :1۔ اللہ تعالیٰ نے حق کو ثابت کرنے کے لیے نبی اکرم (ﷺ) کو غزوۂ بدر کے لیے نکالا۔ 2۔ اللہ تعالیٰ مومنین کو مشکل وقت میں کبھی اکیلا نہیں چھوڑتا۔ 3۔ اللہ تعالیٰ حق کو سچا ثابت کرتا ہے اگرچہ یہ بات کافروں کو کتنی ہی ناپسند ہو۔ تفسیر بالقرآن :اللہ کے وعدے : 1۔ اللہ تعالیٰ نے مومنوں کے ساتھ زمین میں خلیفہ بنانے کا وعدہ کیا ہے۔ (النور :55) 2۔ مومنوں کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے مغفرت اور اجر عظیم کا وعدہ کیا ہے۔ (المائدۃ: 9، الفتح :29) 3۔ اللہ تعالیٰ مومن مرد مومن عورتوں کے ساتھ جنت کا وعدہ کرتا ہے۔ (التوبۃ:72) 4۔ ہر مومن کے ساتھ اللہ نے اچھا وعدہ فرمایا ہے۔ (النساء :95) 5۔ اللہ تعالیٰ کا وعدہ سچا ہے۔ (ابراہیم :22) 6۔ اے اللہ ہمیں اس جنت میں داخل فرما جس کا تو نے وعدہ فرمایا ہوا ہے۔ (المومن :8) 7۔ اللہ اپنے وعدے کی خلاف ورزی نہیں کرے گا۔ (آل عمراٰن :9) 8۔ اللہ تعالیٰ کا وعدہ سچا ہے لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے۔ (یونس :55) 9۔ اے لوگو! اللہ تعالیٰ کا وعدہ سچا ہے تمہیں دنیا کی زندگی دھوکے میں مبتلانہ کرے۔ (فاطر :5) 10۔ اللہ تعالیٰ کا وعدہ سچا ہے کون ہے جو اللہ سے بڑھ کر سچی بات کرنے والا ہو۔ (النساء :122) 11۔ اللہ نے تمہارے ساتھ اپناوعدہ سچا کر دکھایاجب تم کفار کو اس کے حکم سے کاٹ رہے تھے۔ (آل عمراٰن :152)