سورة الاعراف - آیت 188

قُل لَّا أَمْلِكُ لِنَفْسِي نَفْعًا وَلَا ضَرًّا إِلَّا مَا شَاءَ اللَّهُ ۚ وَلَوْ كُنتُ أَعْلَمُ الْغَيْبَ لَاسْتَكْثَرْتُ مِنَ الْخَيْرِ وَمَا مَسَّنِيَ السُّوءُ ۚ إِنْ أَنَا إِلَّا نَذِيرٌ وَبَشِيرٌ لِّقَوْمٍ يُؤْمِنُونَ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

(اے پیغمبر) تم کہہ دو میرا حال تو یہ ہے کہ کود اپنی جان کا نفع نقصان بھی اپنے قبضے میں نہیں رکھتا، وہی ہو کر رہتا ہے جو خدا چاہتا ہے، اگر مجھے غیب کا علم ہوتا تو ضرور ایسا کرتا کہ بہت سی منفعت بٹور لیتا اور (زندگی میں) کوئی گزند مجھے نہ پہنچتا۔ میں اس کے سوا کیا ہوں کہ ماننے والوں کے لیے خبردار کردینے والا اور بشارت دینے والا ہوں۔

تفسیر فہم القرآن - میاں محمد جمیل ایم اے

فہم القرآن : ربط کلام : کفار نے نبی اکرم (ﷺ) سے پوچھا کہ قیامت کب آئے گی آپ (ﷺ) سے کہلوایا گیا کہ اس کا علم تو میرے رب کے پاس ہے اب اس کا مزید جواب دیا جار ہا ہے۔ باطل فرقوں کی ہمیشہ سے عادت رہی ہے کہ وہ انبیاء کرام (علیہ السلام) کے ذمہ وہ بات لگاتے اور ان سے مافوق الفطرت کاموں کی توقع اور ایسے مطالبات کرتے رہے کہ جس کا انھوں نے کبھی دعویٰ نہیں کیا۔ یہی حالت اہل مکہ کی تھی۔ کبھی آپ سے یہ مطالبہ کرتے کہ ہم آپ پر تب ایمان لائیں گے جب تک آپ ہمارے لیے زمین سے چشمہ جاری نہ کردیں یا پھر آپ کے پاس کھجوروں کا ایسا باغ ہونا چاہیے جس میں نہریں جاری ہوں، یہ نہیں تو آپ اپنے دعویٰ کے مطابق آسمان ٹکڑے ٹکڑے کرکے ہم پر گرا ڈالیں۔ اگر یہ کام نہیں کرسکتے تو اللہ تعالیٰ اور ملائکہ کو ہمارے سامنے لے آئیں تاکہ ہم ان سے ہم کلام ہونے کے ساتھ انھیں دیکھ لیں۔ اگر یہ بھی نہیں ہوسکتا تو آپ کا گھر سونے کا ہونا چاہیے۔ آخری بات انھوں نے یہ کہی کہ آپ ہمارے دیکھتے ہی دیکھتے آسمان پر چڑھ جائیں لیکن یاد رکھنا ہم پھر بھی آپ پر ایمان نہیں لائیں گے جب تک آپ ہمارے لیے ایسی لکھی لکھائی کتاب نہ لائیں جس کو ہم خود دیکھ کر پڑھ سکیں۔ ان بے ہودہ سوالات کے جواب میں آپ کو صرف اتنا کہنے کا حکم ہوا کہ آپ انھیں فرمائیں کہ میرا رب یہ کرنا چاہے تو اس کے پاس ایسا کرنے کا پورا اختیار اور طاقت ہے۔ کیونکہ وہ ہر کمزوری سے مبرا اور پاک ہے لیکن مجھے تو میرے رب نے صرف ایک انسان اور رسول بنایا ہے۔ ” اور کہنے لگے : ہم آپ پر ایمان نہ لائیں گے جب تک آپ ہمارے لیے زمین سے چشمہ نہ جاری کردیں۔ یا آپ کا کھجوروں اور انگوروں کا باغ ہو جس میں نہریں بہا دے۔ یا آپ آسمان کو ٹکڑے ٹکڑے کرکے ہم پر گرا دیں جیسے آپ کا دعویٰ ہے یا اللہ اور فرشتوں کو سامنے لے آئیں۔ یا آپ کے لیے سونے کا کوئی گھر ہو یا آپ آسمان میں چڑھ جائیں اور ہم آپ کے چڑھنے کو بھی نہ مانیں گے حتیٰ کہ آپ ہم پر کتاب اتار لائیں جس کو ہم پڑھ لیں کہیے : پاک ہے میرا رب ! میں تو محض ایک انسان ہوں پیغام پہنچانے والا۔“ [ بنی اسرائیل : 90تا93] یعنی نہ میں نے کبھی ایسی باتوں کا وعدہ اور دعویٰ کیا ہے اور نہ ہی یہ چیزیں میرے اختیار میں ہیں۔ یہاں تک کہ میں اپنے نفع و نقصان کا بھی اختیار نہیں رکھتا مگر جو اللہ تعالیٰ چاہے اگر میں غیب جاننے والا ہوتا تو یقیناً اپنے لیے بہت سی خیر جمع کرلیتا اور مجھے کبھی نقصان نہ پہنچتا۔ میرا دعویٰ صرف یہ ہے میں ایمان لانے والوں کے لیے ڈرانے اور خوشخبری دینے والا بنا کر بھیجا گیا ہوں۔ قرآن مجید نے متعدد مقامات پر عقیدۂ توحید کی وضاحت کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے سوا خواہ کوئی ولی، نبی اور فرشتہ ہی کیوں نہ ہو۔ اسے اپنے یا دوسرے کے نفع و نقصان کا کوئی اختیار حاصل نہیں۔ لیکن افسوس فرقہ واریت کی لہر میں بہہ کر بڑے بڑے علماء کھلم کھلا اپنے بزرگوں کے ایسے اقوال نقل کرتے ہیں جو واضح طور پر قرآن و سنت کے منافی ہوتے ہیں۔ جیسا کہ اس مقام پر ایک عالم نے کچھ اقوال کے ذریعے اپنا کمزور عقیدہ ثابت کرنے کی لاحاصل کوشش کی ہے۔ اس آیت کریمہ میں حضور اکرم (ﷺ) اپنی ذات مقدسہ سے الوہیت کی نفی فرما رہے ہیں کہ میں خدا نہیں۔ کیونکہ خدا وہ ہے جس کی قدرت کامل اور اختیار مستقل ہے جو چاہے کرسکتا ہے۔ نہ کسی کام سے اسے کوئی روک سکتا ہے اور نہ اسے کسی کام پر مجبور کرسکتا ہے۔ اور مجھ میں یہ اختیار کامل اور قدرت مستقلہ نہیں پائی جاتی۔ میرے پاس جو کچھ ہے میرے رب کا عطیہ ہے اور میرا سارا اختیار اسی کا عنایت فرمودہ ہے۔ ﴿ لَا اَمْلِکُ﴾ کے کلمات سے اپنے اختیار کامل کی نفی فرمائی اور ﴿اِلَّا مَا شَاء اللّٰہُ﴾ سے اس غلط فہمی کا ازالہ کردیا کہ کوئی نادان یہ نہ سمجھے کہ حضور کو نفع و ضرر کا کچھ اختیار ہی نہیں۔ فرمایا مجھے اختیار ہے اور یہ اختیار اتنا ہی ہے جتنا میرے رب کریم نے مجھے عطا فرمایا ہے۔ اب رہی یہ بات کہ کتنا عطا فرمایا ہے تو انسانی عقل کا کوئی پیمانہ اور کوئی اندازہ اس کا احاطہ نہیں کرسکتا۔ کوئی بناوٹی حد قائم نہیں کی جا سکتی۔ اس ایک آیت کریمہ میں ہی غور فرمائیے ﴿وَلَسَوْفَ یُعْطِیکَ رَبُّکَ فَتَرْضٰی﴾۔”(اے حبیب (ﷺ) تیرا رب تجھے اتنا دے گا کہ تو راضی ہوجائے گا۔“ کیا لطف ہے حضور (ﷺ) نے اپنی ساری توانائیوں اور قوتوں سے برأت کرتے ہوئے ہر بات اپنے خالق و مالک کی مرضی اور مشیت کے سپرد کردی اور اس بندہ نواز نے اپنی مشیت کو اپنے محبوب بندے کی رضاو خوشنودی پر منحصر کردیا۔ بتا دیا تجھے دینے والا میں ہوں۔ خود تمھیں دوں گا اور اتنا دوں گا جتنا تو چاہے گا۔ اب اس عالی ظرف آقا کی وسعت ظرف کو ملاحظہ فرمائیے۔ جب ﴿وَلَسَوْفَ یُعْطِیکَ رَبُّکَ فَتَرْضٰی﴾ کا مژدہ پہنچا تو عرض کی اے کریم ! میں تو اس وقت تک راضی نہیں ہوں گا جب تک میری امت کا آخری فرد بھی جنت میں نہ پہنچ جائے۔ انصاف کردیا۔ کیا آتش جہنم سے بچا لینا دفع ضرر باذن اللہ نہیں۔ کیا جنت میں پہنچا دینا نفع رسانی باذن اللہ نہیں ؟ ہے اور یقیناً ہے۔ یہاں آپ (ﷺ) کو مختار کل ثابت کرنے کے لیے ایک حدیث کا حوالہ دیا ہے اور آپ کے بارے میں علم الغیب ثابت کرنے کے لیے عطائی علم کی اصطلاح کا سہارا لیا ہے یہ ایسا ہی کمزور سہارا ہے جس طرح مرزائی مرزا کو اصلی نبی نہیں کہتے بلکہ عوام الناس کو دھوکا دینے اور مرزا کی نبوت ثابت کرنے کے لیے ظلی اور بروزی نبی کی اصطلاح استعمال کرتے ہیں۔ الفاظ کے ہیر پھیر کے سوا اس عقیدہ کی کوئی بنیاد نہیں ان کی دیکھا دیکھی ایک طبقہ نے نبی اکرم (ﷺ) کو عالم الغیب ثابت کرنے کے لیے عطائی علم کی اصطلاح اپنائی ہے۔ جس کا معنی ہے کہ آپ واقعی غیب نہیں جانتے تھے سوائے اس کے جو اللہ تعالیٰ نے آپ کو عطا کیا تھا اس کے لیے قرآن مجید کی واضح اور دو ٹوک آیات کو چھوڑ کر لوگوں کو مغالطہ دینے کے لیے ایک دو ایسی آیات کا حوالہ دیتے ہیں جو متشابہات میں سے ہیں۔ متشابہات آیات کے بارے میں وضاحت کی گئی ہے کہ ان آیات کو قرآن مجید کی مرکزی آیات کے ساتھ ملا کر سمجھنا چاہیے لیکن جن لوگوں کے دلوں میں ٹیڑھ پن ہے اور وہ امت میں فتنہ پیدا کرنا چاہتے ہیں وہ ان آیات کی تفسیر اپنی مرضی سے کرتے ہیں۔ (آل عمران، آیت : ٥) (عَنِ ابْنِ دَارَّۃَ مَوْلٰی عُثْمَانَ (رض) قَالَ إِنَّا لَبِالْبَقِیعِ مَعَ أَبِی ہُرَیْرَۃَ إِذْ سَمِعْنَاہُ یَقُولُ أَنَا أَعْلَمُ النَّاسِ بِشَفَاعَۃِ مُحَمَّدٍ () یَوْمَ الْقِیَامَۃِ قَالَ فَتَدَاکَّ النَّاسُ عَلَیْہِ فَقَالُوا إِیہٍ یَرْحَمُکَ اللّٰہُ قَالَ یَقُول اللّٰہُمَّ اغْفِرْ لِکُلِّ عَبْدٍ مُسْلِمٍ لَقِیَکَ یُؤْمِنُ بِی وَلَایُشْرِکُ بِکَ )[ رواہ احمد] ” ابن دارہ جو کہ حضرت عثمان (رض) کے غلام ہیں فرماتے ہیں کہ ہم ابوہریرہ (رض) کے ساتھ بقیع میں بیٹھے ہوئے تھے تو انہوں نے کہا میں لوگوں سے زیادہ جانتاہوں قیامت کے دن محمد (ﷺ) کس کے ساتھ سفارش کریں گے۔ ابن دارہ کہتے ہیں لوگ ان کی طرف متوجہ ہوئے اور کہا بتائیے اللہ تعالیٰ آپ پر رحم کرے انہوں نے کہا اے اللہ ہر مسلمان بندے کو بخش دے جو تجھے اس حال میں ملے کہ تجھ پر ایمان لاکر اس نے شرک نہ کیا ہو۔“ (عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ قَالَ قَالَ رَسُول اللّٰہِ () لِکُلِّ نَبِیٍّ دَعْوَۃٌ مُسْتَجَابَۃٌ فَتَعَجَّلَ کُلُّ نَبِیٍّ دَعْوَتَہٗ وَإِنِّی اخْتَبَأْتُ دَعْوَتِی شَفَاعَۃً لِأُمَّتِی یَوْمَ الْقِیَامَۃِ فَہِیَ نَائِلَۃٌ إِنْ شَاء اللّٰہُ مَنْ مَاتَ مِنْ أُمَّتِی لَا یُشْرِکُ باللّٰہِ شَیْئًا) [ رواہ مسلم : کتاب الایمان، باب اختباء النبی دعوۃ الشفاعۃ لأمتہ] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں نبی معظم (ﷺ) نے فرمایا ہر نبی کے لیے ایک ایسی دعا ہوتی ہے جو قبول کی جاتی ہے سارے انبیاء نے اپنی دعاؤں میں جلدی کی اور میں نے اپنی دعا کو آخرت کے لیے اپنی امت کی سفارش کے لیے بچا کر رکھا ہے میری دعا ہر اس شخص کو فائدہ دے گی جو اس حالت میں فوت ہوا کہ اس نے اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرایا ہو۔“ (عَنْ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا قَالَتْ مَنْ حَدَّثَکَ أَنَّ مُحَمَّدًا () رَأٰی رَبَّہٗ فَقَدْ کَذَبَ وَہُوَ یَقُولُ لَا تُدْرِکُہُ الْأَبْصَارُ وَمَنْ حَدَّثَکَ أَنَّہٗ یَعْلَمُ الْغَیْبَ فَقَدْ کَذَبَ وَہُوَ یَقُولُ لَا یَعْلَمُ الْغَیْبَ إِلَّا اللّٰہُ )[ رواہ البخاری : کتاب التوحید، باب قول اللہ تعالیٰ ﴿ عَالِمُ الْغَيْبِ فَلَا يُظْهِرُ عَلَى غَيْبِهِ أَحَدًا ﴾] ” حضرت عائشہ (رض) بیان کرتی ہیں کہ جو تمہیں یہ کہے کہ محمد (ﷺ) نے اپنے رب کو دیکھا ہے تو بلاشبہ وہ جھوٹ بولتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے ” اس کو آنکھیں نہیں دیکھ سکتیں“ اور جو کوئی تمہیں یہ کہے کہ آپ (ﷺ) غیب جانتے ہیں تو وہ بھی جھوٹا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے ” اللہ کے علاوہ کو غیب نہیں جانتا“۔ مسائل : 1۔ نبی اکرم (ﷺ) کسی کو نفع یا نقصان نہیں دے سکتے۔ 2۔ پیغمبر بھی عام لوگوں کی طرح بیمار ہوتے اور مالی نقصان اٹھاتے تھے۔ 3۔ نبی اکرم (ﷺ) جنت کی خوشخبری اور جہنم سے ڈرانے کے لیے بھیجے گئے تھے۔ تفسیر بالقرآن : نبی اکرم (ﷺ) نفع و نقصان کے مالک نہیں : 1۔ آپ (ﷺ) فرما دیں میں تمھارے نفع و نقصان کا مالک نہیں ہوں۔ (الجن : 21تا22) 2۔ آپ (ﷺ) فرما دیں کہ اپنے متعلق بھی نفع و نقصان کا مالک نہیں ہوں۔ (الاعراف :188) 3۔ اگر مجھے کوئی اللہ کی طرف سے تکلیف پہنچے تو اسے اللہ کے سوا کوئی دور نہیں کرسکتا۔ (الانعام :17) 4۔ آپ (ﷺ) کہہ دیں کہ میں اپنے نفع و نقصان کا مالک نہیں ہوں۔ (یونس :49) 5۔ حضرت نوح (علیہ السلام) اور حضرت لوط (علیہ السلام) اپنی بیویوں کو کوئی فائدہ نہ پہنچا سکے۔ (التحریم :10) 6۔ ابراہیم (علیہ السلام) نے کہا مجھے اللہ کے سامنے کسی قسم کا اختیار نہیں ہے۔ (الممتحنۃ:4) 7۔ کہہ دیجئے اگر اللہ عیسیٰ ابن مریم اور اس کی والدہ کو ہلاک کرنا چاہے تو انہیں کون بچا سکتا ہے ؟ (المائدۃ:17)