يَسْأَلُونَكَ عَنِ السَّاعَةِ أَيَّانَ مُرْسَاهَا ۖ قُلْ إِنَّمَا عِلْمُهَا عِندَ رَبِّي ۖ لَا يُجَلِّيهَا لِوَقْتِهَا إِلَّا هُوَ ۚ ثَقُلَتْ فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ۚ لَا تَأْتِيكُمْ إِلَّا بَغْتَةً ۗ يَسْأَلُونَكَ كَأَنَّكَ حَفِيٌّ عَنْهَا ۖ قُلْ إِنَّمَا عِلْمُهَا عِندَ اللَّهِ وَلَٰكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُونَ
(اے پیغمبر) لوگ تم سے (قیامت کے) آنے والے وقت کی نسبت پوچھتے ہیں کہ آخر وہ کب قرار پائے گا؟ تم کہہ دو اس کا علم تو میرے پروردگار کو ہے، وہی ہے جو اس بات کو اس کے وقت پر نمایاں کرنے و الا ہے۔ وہ بڑا بھاری حادثہ ہے جو آسمانوں اور زمین میں واقع ہوگا، وہ تم پر نہیں آئے گا مگر اچانک۔ (اے پیغمبر) یہ لوگ تم سے اس طرح پوچھ رہے ہیں گویا تم اس کی کاوش میں لگے ہوئے ہو، تم کہو حقیقت حال اس کے سوا کچھ نہیں ہے کہ صرف خدا ہی یہ ابت جانتا ہے، لیکن اکثر آدمی ایسے ہیں جو اس حقیقت سے انجان ہیں۔
فہم القرآن : ربط کلام : کفار نہ صرف عقیدہ توحید کے منکر تھے بلکہ قیامت کے برپا ہونے پر بھی یقین نہیں رکھتے تھے جس وجہ سے وہ آپ کا مذاق اڑاتے ہوئے پوچھتے کہ قیامت کب آئے گی۔ یہاں اس کا جواب دیا گیا ہے۔ کفار قیامت کے قائم ہونے کا استہزاء اڑانے اور نبی اکرم (ﷺ) کو پریشان کرنے کے لیے آپ سے مطالبہ کرتے کہ جس قیامت کے برپا ہونے سے آپ ہمیں ڈراتے اور دھمکاتے ہیں یہ کب آئے گی اگر تیرے پاس کوئی اختیار ہے تو اسے ہم پر برپا کر دے۔ اس کا جواب آپ کی زبان اطہر سے یوں دلوایا جا رہا ہے کہ آپ انھیں فرمائیں کہ قیامت کے برپا ہونے کا وقت میرے رب کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ میرارب ہی اسے اس کے وقت پر برپا کرے گا لیکن یاد رکھو قیامت کا برپا ہونا زمین و آسمان اور ان کی ہر چیز پر بھاری ہوگا۔ کوئی چیز بھی اس کی ہولناکیوں کو برداشت نہ کرسکے گی۔ جس قیامت کا تم مذاق اڑاتے ہو وہ تمھارے پاس اچانک اور آناً فاناً آجائے گی۔ جسے کسی کا تکبر اور بڑائی ٹال نہیں سکے گی۔ اے رسول! یہ تو قیامت کے بارے میں آپ سے اس طرح سوال کرتے ہیں جیسے آپ ہر وقت اس کی تلاش میں لگے ہوئے ہوں۔ انھیں بتائیں کہ قیامت کے دن کا علم اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ یہ اچانک اور ہر حال میں برپا ہونے والی ہے لیکن اس کے باوجود لوگوں کی اکثریت اس حقیقت کو جاننے یعنی اس کے لیے اپنے آپ کو تیار کرنے کے لیے آمادہ نہیں ہوتی۔ اس آیت میں کفار کے مزاج اور انکار کا اندازہ ہوتا ہے کہ وہ کس تکرارو استکبار کے ساتھ آپ سے قیامت کے برپا ہونے کا مطالبہ کرتے تھے جس کے جواب میں دو باتیں ارشاد فرمائی گئی ہیں۔ 1۔ قیامت کا علم صرف اللہ تعالیٰ کے پاس ہے۔ 2۔ قیامت کی ہولناکیوں کو زمین و آسمان بھی برداشت نہیں کرسکیں گے۔ جب یہ اتنا بھاری اور ہولناک واقعہ ہوگا تو اس کا مذاق اڑانا اور اس کے لیے جلدی کرنا سوائے حماقت کے اور کچھ نہیں ہوسکتا۔ ﴿اِنَّ اللّٰہَ عِنْدَہٗ عِلْمُ السَّاعَۃِ وَیُنَزِّلُ الْغَیْثَ وَ یَعْلَمُ مَا فِی الْاَرْحَامِ وَمَا تَدْرِیْ نَفْسٌ مَّا ذَاتَکْسِبُ غَدًا وَمَا تَدْرِیْ نَفْسٌ بِاَیِّ اَرْضٍ تَمُوْتُ اِنَّ اللّٰہَ عَلِیْمٌ خَبِیْرٌ۔﴾ ” اس گھڑی کا علم اللہ ہی کے پاس ہے، وہی بارش برساتا ہے، وہی جانتا ہے کہ ماؤں کے پیٹوں میں کیا پرورش پا رہا ہے، کوئی متنفس نہیں جانتا کہ کل وہ کیا کمائی کرنے والا ہے اور نہ کسی شخص کو یہ خبر ہے کہ کس سر زمین میں اس کو موت آنی ہے، اللہ ہی سب کچھ جاننے والا اور باخبر ہے۔“ (عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ قَالَ کَان النَّبِیُّ (ﷺ) بَارِزًا یَوْمًا للنَّاسِ فَأَتَاہُ جِبْرِیلُ۔۔ فقَالَ مَتَی السَّاعَۃُ قَالَ مَا الْمَسْئُولُ عَنْہَا بِأَعْلَمَ مِنَ السَّائِلِ)[ رواہ البخاری : کتاب الایمان باب سؤال جبریل ] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں ایک دن نبی اکرم (ﷺ) صحابہ کرام (رض) کے پاس بیٹھے تھے۔ جبرائیل (علیہ السلام) آئے۔۔ انہوں نے پوچھا کہ قیامت کب آئے گی؟ نبی اکرم (ﷺ) نے فرمایا جس سے سوال کیا گیا ہے وہ سائل سے زیادہ نہیں جانتا۔“؟ (عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ قَالَ قَالَ رَسُول اللّٰہِ (ﷺ) لَتَقُومَنَّ السَّاعَۃُ وَثَوْبُہُمَا بَیْنَہُمَا لَا یَطْوِیَانِہٖ وَلَا یَتَبَایَعَانِہٖ وَلَتَقُومَنَّ السَّاعَۃُ وَقَدْ حَلَبَ لِقْحَتَہٗ لَا یَطْعَمُہٗ وَلَتَقُومَنَّ السَّاعَۃُ وَقَدْ رَفَعَ لُقْمَتَہٗ إِلٰی فیہٖ وَلَا یَطْعَمُہَا وَلَتَقُومَنَّ السَّاعَۃُ وَالرَّجُلُ یَلِیطُ حَوْضَہٗ لَا یَسْقِی مِنْہٗ )[ رواہ احمد] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں رسول معظم (ﷺ) نے فرمایا کپڑا بیچنے اور خریدنے والے ابھی سمیٹ نہیں سکیں گے کہ قیامت آجائے گی۔ ایک آدمی اپنی اونٹنی کا دودھ دوہ رہا ہوگا اور وہ اس کو پی نہیں سکے گا کہ قیامت قائم ہوجائے گی۔ کھانا کھانے والا لقمہ اپنے منہ کی طرف اٹھائے گا۔ اس کو کھا نہیں سکے گا تو قیامت قائم ہوجائے گی۔ ایک آدمی اپنا حوض ٹھیک کر رہا ہوگا وہ اس سے پانی پی نہیں سکے گا کہ قیامت قائم ہوجائے گی۔“ (عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ (رض) عَنِ النَّبِیِّ (ﷺ) قَالَ لَا تَقُوم السَّاعَۃُ إِلَّا عَلٰی شِرَار النَّاسِ ) [ رواہ مسلم : کتاب الفتن واشراط الساعۃ باب قرب الساعۃ] ” حضرت عبداللہ (رض) نبی معظم (ﷺ) کا فرمان نقل کرتے ہیں کہ قیامت صرف برے لوگوں پر قائم ہوگی۔“ (عَنْ اَنَسٍ (رض) اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ (ﷺ) قَالَ لَا تَقُوْمُ السَّاعَۃُ حَتّٰی لَا یُقَالَ فِیْ الْاَرْضِ اَللّٰہُ اَللّٰہُ وَفِیْ رِوَایَۃٍ قَالَ لَا تَقُوْمُ السَّاعَۃُ عَلٰی اَحَدٍ یَقُوْلُ اَللّٰہُ اَللّٰہُ۔)[ رواہ مسلم : باب ذَہَابِ الإِیمَانِ آخِرَ الزَّمَانِ) حضرت انس (رض) بیان کرتے ہیں‘ رسول محترم (ﷺ) نے فرمایا قیامت اس وقت تک قائم نہ ہوگی جب تک زمین پر اللہ اللہ کی آواز آنا ختم نہ ہوجائے گی ایک روایت میں ہے قیامت ایسے شخص پر قائم نہیں ہوگی، جو اللہ اللہ کہنے والا ہوگا۔ مسائل : 1۔ قیامت وقت مقررہ سے ایک لمحہ بھی آگے پیچھے نہیں ہوسکے گی۔ 2۔ قیامت اچانک واقع ہوگی۔ تفسیر بالقرآن : قیامت کی ہولناکیاں : 1۔ جب زمین کو ہلا دیا جائے گا پوری طرح ہلا دینا۔ (الزلزال :1) 2۔ جب واقعہ ہوگی واقعہ ہونے والی۔ (الواقعۃ:1) 3۔ لوگو! اپنے رب سے ڈر جاؤ قیامت کا زلزلہ بہت سخت ہے۔ (الحج :1) 4۔ قیامت زمین و آسمانوں پر بھاری ہوگی۔ (الاعراف :187) 5۔ قیامت کے دن لوگ اڑتے پروانوں کی طرح ہوں گے۔ (القارعۃ :4) 6۔ قیامت کے دن پہاڑ اون کی طرح ہوں گے۔ (القارعۃ:5) 7۔ قیامت کا دن انتہائی دردناک ہوگا۔ (ھود :26) 8۔ زمین کو ہلا کر تہہ و بالا کردیا جائے گا۔ (واقعۃ : 3، 4) 9۔ پہاڑ ریزہ ریزہ ہو کر پر اگندہ غبار کی طرح ہوجائیں گے۔ (الواقعۃ: 5، 6) 10۔ زمین چٹیل میدان بنا دی جائے گی۔ ( الواقعہ :4)