سورة الاعراف - آیت 179

وَلَقَدْ ذَرَأْنَا لِجَهَنَّمَ كَثِيرًا مِّنَ الْجِنِّ وَالْإِنسِ ۖ لَهُمْ قُلُوبٌ لَّا يَفْقَهُونَ بِهَا وَلَهُمْ أَعْيُنٌ لَّا يُبْصِرُونَ بِهَا وَلَهُمْ آذَانٌ لَّا يَسْمَعُونَ بِهَا ۚ أُولَٰئِكَ كَالْأَنْعَامِ بَلْ هُمْ أَضَلُّ ۚ أُولَٰئِكَ هُمُ الْغَافِلُونَ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

اور کتنے ہی جن اور انسان ہیں جنہیں ہم نے جہنم کے لیے پیدا کیا (یعنی بالآخر ان کا ٹھکانا جہنم ہونے والا ہے) ان کے پاس عقل ہے مگر اس سے سمجھ بوجھ کا کام نہیں لیتے۔ آنکھیں ہیں مگر ان سے دیکھنے کا کام نہیں لیتے، کان ہیں مگر ان سے سننے کا کام نہیں لیتے۔ وہ (عقل و حواس کا استعمال کھو کر) چارپایوں کی طرح ہوگئے۔ بلکہ ان سے بھی زیادہ کھوئے ہوئے۔ ایسے ہی لوگ ہیں جو یک قلم غفلت میں ڈوب گئے ہیں۔

تفسیرفہم قرآن - میاں محمد جمیل

فہم القرآن : ربط کلام : دین کے بدلے دنیا کمانے والے نقصان پانے کے ساتھ جہنم میں جائیں گے یہاں ان کے جہنم میں جانے کی بنیادی وجہ بیان کی گئی ہے۔ جہنمیوں کے جہنم میں جانے کی وجہ بیان کرنے سے پہلے فرمایا کہ ہم نے بہت سے جنات اور انسانوں کو جہنم کے لیے پیدا کیا ہے۔ اس سے یہ مغالطہ پیدا ہوتا ہے اگر اللہ تعالیٰ نے بہت سے انسانوں اور جنات کو جہنم کے لیے ہی پیدا کیا ہے تو اس میں انسانوں اور جنات کا کیا گناہ ہے ؟ دوسرا سوال یہ کیا جاتا ہے کہ سورۃ الذٰریت آیت 56میں اللہ تعالیٰ نے جنوں اور انسانوں کی تخلیق کا مقصد یہ بیان فرمایا ہے کہ ہم نے ان کو اپنی عبادت کے لیے پیدا کیا ہے۔ اس طرح ایک مغالطہ پیدا ہونے کے ساتھ قرآن مجید کی آیات میں بظاہر تعارض بھی دکھائی دیتا ہے۔ اس مغالطہ اور سوال کا جواب دیتے ہوئے قرآن مجید کے مشہور مفسر امام الرازی (رح) لکھتے ہیں کہ عربی زبان میں حرف لام کسی چیز کا انجام اور اس کی انتہا بیان کرنے کے لیے بھی آتا ہے۔ یہاں لفظ لام جہنم کے ساتھ انجام کے لیے لایا گیا ہے جس کا مفہوم یہ ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے تو انھیں اپنی عبادت کے لیے پیدا فرمایا تھا۔ لیکن انھوں نے اپنے کردار کی وجہ سے اپنا انجام جہنم بنا لیا ہے۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ نے انھیں دل عطا کیے تھے تاکہ غور و فکر کریں انھیں آنکھیں دیں تاکہ ہر معاملہ کو غور سے دیکھیں انھیں کان بخشے گئے تاکہ ہر بات کو توجہ کے ساتھ سنیں لیکن انھوں نے سوچنا، غور سے دیکھنا اور توجہ کے ساتھ سننا گوارا نہ کیا اس طرح جانوروں کی مانند ہوئے کیوں کہ جانوروں کے پاس دل، آنکھیں اور کان موجود ہوتے ہیں۔ لیکن ان میں کھانے، پینے، اٹھنے، بیٹھنے، سونے اور چلنے پھرنے کے علاوہ کوئی صلاحیت نہیں ہوتی۔ لیکن اس کے باوجود اپنے مالک کے وفادار اور اس کے ساتھ محبت کرتے ہوئے اس کا کہنا مانتے اور اس کی ناراضگی سے ڈرتے ہیں۔ انسان اور جنات جانوروں سے اس لیے بدتر ٹھہرے کہ ان کے پاس نہ صرف سوچنے، دیکھنے اور سننے کی صلاحیت چوپاؤں سے کئی گنا زیادہ ہے بلکہ ان کی رہنمائی کے لیے انبیاء اور آسمانی کتب کا انتظام کیا گیا ہے لیکن یہ دنیا کے معاملات میں اس قدر مشغول ہوئے کہ اپنے خالق و مالک اور اس کے احکام سے یکسر غافل ہوگئے جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ جنوں اور انسانوں کی اکثریت نے اپنے عمل سے یہ ثابت کردیا کہ گویا کہ جہنم کے لیے ہی پیدا کیا گیا ہے۔ مسائل : 1۔ جنوں اور انسانوں کی اکثریت جہنم میں جائے گی۔ 2۔ جہنم میں جانے کا بنیادی سبب یہ ہے کہ انھوں نے اپنے دل، آنکھوں اور کانوں کو ہدایت کے لیے استعمال نہیں کیا۔ 3۔ اللہ تعالیٰ کی ذات اور اس کے احکام سے غفلت کرنے والے جانوروں سے بدتر ہیں۔ تفسیر بالقرآن : اندھے، بہرے لوگ اور ان کا انجام : 1۔ اہل ایمان اور کفر کی مثال اندھے بہرے اور دیکھنے سننے والوں کی طرح ہے۔ (ھود :24) 2۔ اللہ کی آیات کی تکذیب کرنے والے اندھے بہرے ہیں۔ (الانعام :39) 3۔ کانوں آنکھوں کا صحیح استعمال نہ کرنے والے لوگ جانوروں سے بھی بدتر ہیں۔ (الاعراف :179) 4۔ اندھے بہرے لوگ عقل نہیں رکھتے۔ (البقرۃ:171) 5۔ بہرے وحی کو نہیں سنتے۔ (الانبیاء :45) 6۔ نبی کریم (ﷺ) بھی اندھے بہرے لوگوں کو ہدایت نہیں دے سکتے۔ (الروم :52) 7۔ اندھے بہرے لوگ ہدایت کی طرف نہیں لوٹتے۔ (البقرۃ:18)