سورة الاعراف - آیت 161

وَإِذْ قِيلَ لَهُمُ اسْكُنُوا هَٰذِهِ الْقَرْيَةَ وَكُلُوا مِنْهَا حَيْثُ شِئْتُمْ وَقُولُوا حِطَّةٌ وَادْخُلُوا الْبَابَ سُجَّدًا نَّغْفِرْ لَكُمْ خَطِيئَاتِكُمْ ۚ سَنَزِيدُ الْمُحْسِنِينَ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

اور پھر (وہ واقعہ یاد کرو) جب بنی اسرائیل کو حکم دیا گیا تھا، اس (٢) شہر میں جاکر آباد ہوجاؤ، (جس کے فتح کرنے کی تمہیں توفیق ملی ہے) اور (یہ نہایت زرخیز علاقہ ہے) جس جگہ سے چاہو اپنی غذا حاصل کرو اور تمہاری زبانوں پر حطۃ (٣) کا کلمہ جاری ہو اور اس کے دروازے میں داخل ہو تو (اللہ کے حضور) جھکے ہوئے ہو۔ ہم تمہاری خطائیں بخش دیں اور نیک کرداروں کو (اس سے بھی) زیادہ اجر دیں گے۔

تفسیر فہم القرآن - میاں محمد جمیل ایم اے

فہم القرآن : (آیت 161 سے 162) ربط کلام : بنی اسرائیل کی نافرمانیوں اور بد اعمالیوں کا بیان جاری ہے۔ سورۃ البقرۃ، آیت : 58میں اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کے بستی میں داخلہ کو یوں بیان فرمایا ہے کہ ہم نے حکم دیا کہ اس بستی میں داخل ہوجاؤ۔ سورۃ المائدۃ، آیت : 21میں ذکر ہوا کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنی قوم کو حکم دیا کہ اس بستی میں داخل ہوجاؤ۔ اللہ تعالیٰ نے اس کی فتح تمہارے مقدر میں لکھ دی ہے۔ یہاں داخل ہونے کا لفظ استعمال کرنے کے بجائے سکونت اختیار کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ قرآن مجید کے تینوں مقامات میں ایسے الفاظ استعمال کیے گئے ہیں کہ جن سے ثابت ہوتا ہے کہ بنی اسر ائیل کو پوری طرح یقین دہانی کروائی گئی تھی کہ ہمت کرو تمھاری فتح یقینی ہے۔ جب بیت المقدس میں تمھارا داخلہ اور سکونت لکھ دی گئی ہے تو دنیا دار فاتحوں کی طرح نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کے حضور سجدہ کرتے اور اس کے شکرگزار بندوں کی طرح شہر میں داخل ہونا۔ اپنی کوتاہیوں اور غلطیوں کی معافی مانگنا اور مفتوح قوم کے ساتھ درگزر کا رویہ اختیار کرنا۔ ہم اس کے بدلہ میں تمھاری خطاؤں کو معاف کرتے ہوئے تمھیں مزید عنایات سے نوازیں گے لیکن اس قوم نے اللہ تعالیٰ کے حضور معافی مانگنے اور مفتوح قوم سے درگزر کرنے کے بجائے اللہ تعالیٰ کے حکم کو بدل دیا تھا۔ حِطَّۃٌ کا معنی مانگنا، لیکن انھوں نے لفظ حِطَّۃٌ کو حِنْطَۃٌ میں بدل دیا جس کا معنیٰ گندم ہے۔ گویا کہ بخشش کے بجائے روٹی روٹی کہنے لگے۔ انھوں نے ذرّہ برابر نہ سوچا کہ جس رب نے ہمیں چالیس سال تک لق ودق صحرا میں بہترین کھانا، پینا اور رہنا نصیب فرمایا تھا۔ اب کھانے، پینے کے لیے کیوں نہ دے گا۔ جب کہ ہم ایک ایسے علاقہ اور شہر میں آچکے ہیں جسے اللہ تعالیٰ نے روحانی اور دنیوی طور پر برکات سے نوازا ہے۔ لیکن یہودی ایسی قوم ہے کہ جن کے نزدیک اللہ کے احکام اور دینی اقدارکی کوئی حیثیت نہیں۔ ان پر طاعون کی صورت میں عذاب مسلط کردیا گیا۔ جس سے فتح کا خمار ان کے دماغوں سے اس طرح نکلا کہ انھیں لینے کے دینے پڑگئے۔ چند دنوں میں ہزاروں کی تعداد میں موت کے گھاٹ اتار دیے گئے کیونکہ یہ لوگ قدم قدم پر اللہ تعالیٰ کے فرامین کی نافرمانی کرکے خود اپنے آپ پر ظلم کرتے تھے۔ مسائل : 1۔ اللہ تعالیٰ سے ہر دم بخشش طلب کرنی چاہیے۔ 2۔ دنیا کی ہر نعمت کے مقابلہ میں اللہ تعالیٰ کی رحمت اور بخشش بہتر ہے۔ 3۔ طاعون ایک آسمانی عذاب ہے۔ 4۔ اللہ تعالیٰ شکر کرنے والوں کو مزید عنایت فرماتا ہے۔ 5۔ اللہ تعالیٰ گناہ معاف کرنے والا ہے۔ 6۔ بنی اسرائیل پر بدترین عذاب نازل کیے گئے۔ تفسیر بالقرآن : بنی اسرائیل پر عذاب نازل ہونے کی وجوہات : 1۔ اللہ تعالیٰ کے حکم کی خلاف ورزی کرنے کی وجہ سے ان پر عذاب نازل ہوا : (البقرۃ:59) 2۔ ہفتہ کے دن شکار سے باز نہ آنے کیوجہ سے انہیں بندر بنادیا گیا۔ (البقرۃ:65) 3۔ انبیاء کی تکذیب کی وجہ سے وہ اللہ کے غضب کے مستحق قرار پائے : (آل عمران :112) 4۔ منکرات سے نہ روکنے کی وجہ سے لعنت کے حقدار ٹھہرے : (المائدۃ: 78۔79)