سورة الاعراف - آیت 152

إِنَّ الَّذِينَ اتَّخَذُوا الْعِجْلَ سَيَنَالُهُمْ غَضَبٌ مِّن رَّبِّهِمْ وَذِلَّةٌ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا ۚ وَكَذَٰلِكَ نَجْزِي الْمُفْتَرِينَ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

خدا نے فرمایا جن لوگوں نے بچھڑے کی پوجا کی ان کے حصے میں ان کے پروردگار کا غضب آئے گا اور دنیا کی زندگی میں بھی ذلت و رسوائی پائیں گے، ہم افترا پردازوں کو (ان کی بدعملی کا) اسی طرح بدلہ دیتے ہیں۔

تفسیرفہم قرآن - میاں محمد جمیل

فہم القرآن : (آیت 152 سے 153) ربط کلام : گذشتہ سے پیوستہ۔ جن لوگوں نے بچھڑے کی پرستش کی ان کی سزا۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) جب استغفار سے فارغ ہوئے تو انھوں نے اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق مشرکین کی سزا کا یہ فیصلہ کیا کہ جن لوگوں نے بچھڑے کی پرستش کی ہے ان کی سزا یہ ہے کہ ان کے قریبی عزیز ان کی گردنیں اڑا دیں۔ اس کی تفصیل ” سورۃ البقرہ“ کی آیت ٥٤ میں بیان ہوچکی ہے۔ ان پردنیا میں اللہ کا یہ غضب ہواکہ اپنے ہی اعزاء و اقرباء کے ہاتھوں مارے گئے۔ جو اللہ پر جھوٹ باندھتے ہیں انھیں ایسی ہی سزا ہوتی ہے کیونکہ انھوں نے دین اور ثواب کا جھانسہ دے کر ایک دوسرے کو گمراہ کیا تھا۔ اس مقام پر امام رازی (رض) نے امام مالک بن انس (رح) کا قول نقل کیا ہے کہ جو شخص اپنی طرف سے کوئی مسئلہ گھڑتا ہے یا شریعت سازی کرتا ہے وہ اللہ اور اس کے رسول پر جھوٹ باندھتا ہے۔ یہاں اس سزا کے مستحق جو لوگ بیان کیے گئے ہیں دو قسم کے ہیں۔ 1۔ جو موسیٰ (علیہ السلام) کی کوہ طور سے واپسی سے پہلے فوت ہوگئے انھیں قیامت کو سزا ملے گی۔ 2۔ جو زندہ تھے انھیں دنیا میں ہی موحّدین کے ہاتھوں سزا دلوا کر معاف کردیا گیا۔ مشرکین کی سزا بیان کرنے کے بعد توبہ کے لیے عام اصول بیان کیا جا رہا ہے کہ بے شک شرک جیسا عظیم گناہ ہی کیوں نہ ہو۔ جو سچے دل کے ساتھ توبہ کریں اور آئندہ کے لیے اپنی اصلاح کرلیں ان کے گناہ معاف کردیے جائیں گے کیونکہ اللہ تعالیٰ بخشنے والا نہایت ہی مہربان ہے۔ (عَنْ اَنَسٍ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ () اَللّٰہُ اَشَدُّ فَرَحًا بِتَوْبَۃِ عَبْدِہٖ حِیْنَ یَتُوْبُ اِلَیْہِ مِنْ اَحَدِکُمْ کَانَتْ رَاحِلَتُہُ بِاَرْضِ فُلَاۃٍ فَانْفَلَتَتْ مِنْہُ وَعَلَیْھَا طَعَامُہُ وَشَرَابُہُ فَاَیِسَ مِنْھَا فَاَتٰی شَجَرَۃً فَاضْطَجَعَ فِیْ ظِلِّھَا قَدْ اَیسَ مِنْ رَّاحِلَتِہٖ فَبَیْنَمَا ھُوَ کَذَالِکَ اِذْ ہُوَ بِھَا قَآئِمَۃٌ عِنْدَہُ فَاَخَذَ بِخِطَامِھَا ثُمَّ قَالَ مِنْ شِدَّۃِ الْفَرَحِ اللّٰھُمَّ اَنْتَ عَبْدِیْ وَاَنَا رَبُّکَ اَخْطَاَ مِنْ شِدَّۃِ الْفَرَحِ)[ مسلم] ” حضرت انس (رض) روایت کرتے ہیں کہ رسول کریم (ﷺ) نے فرمایا کوئی اللہ کا بندہ جب توبہ کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کی توبہ کرنے سے اس شخص سے بھی زیادہ خوش ہوتا ہے جس کی سواری اس کے کھانے پینے کے سامان کے ساتھ کسی بے آب وگیاہ میدان میں گم ہوگئی ہو۔ وہ اس کی تلاش سے مایوس ہو کر ایک درخت کے سائے تلے لیٹ جائے۔ مایوسی کے بعد اچانک اس سواری کو اپنے سامنے کھڑا پائے۔ اس کی لگام تھامتے ہوئے اور انتہائی خوشی سے پکار اٹھے۔ اے اللہ! تو میرا بندہ ہے اور میں تیرا پروردگار ہوں۔ اس بے پناہ خوشی کی وجہ سے بے ساختہ اتنی بری بات کہہ دیتا ہے۔“ مسائل : 1۔ مشرک پر اللہ کا غضب ہوتا ہے اور وہ دنیا میں بھی ذلیل ہوتا ہے۔ 2۔ مشرک اللہ تعالیٰ پر جھوٹ باندھتا ہے۔ 3۔ توبہ کرنے والے کے اللہ تعالیٰ گناہ معاف کردیتا ہے کیونکہ اللہ بڑا مہربان، رحم کرنے والا ہے۔ تفسیر بالقرآن : مفتری اور اس کی سزا : 1۔ وہ بہت بڑا ظالم ہے جس نے اللہ پر جھوٹ باندھا یا اس کی آیات کو جھٹلایا۔ (الانعام :21) 2۔ جس نے اللہ پر جھوٹ باندھا وہ ناکام ہوا۔ (طٰہٰ:61) 3۔ وہ بڑا ظالم ہے جس نے اللہ پر جھوٹ باندھا تاکہ بغیر علم کے لوگوں کو گمراہ کرے۔ (الانعام :145) 4۔ وہ بڑا ظالم ہے جس نے اللہ پر جھوٹ باندھا یا نبوت کا دعویٰ کیا۔ (الانعام :93) 5۔ وہ بہت بڑا ظالم ہے کہ جس نے اللہ پر جھوٹ باندھا۔ (الکہف :15) 6۔ ظالموں پر اللہ کی لعنت ہوتی ہے۔ (ھود :18) 7۔ اللہ ظالم قوم کو ہدایت نہیں دیتا۔ (التوبۃ:109) 8۔ اللہ ضرور ظالموں کو ہلاک کرے گا۔ (ابراہیم :13)