سورة الاعراف - آیت 133

فَأَرْسَلْنَا عَلَيْهِمُ الطُّوفَانَ وَالْجَرَادَ وَالْقُمَّلَ وَالضَّفَادِعَ وَالدَّمَ آيَاتٍ مُّفَصَّلَاتٍ فَاسْتَكْبَرُوا وَكَانُوا قَوْمًا مُّجْرِمِينَ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

پس ہم نے ان پر طوفان بھیجا اور ٹڈیوں کے دل اور جوئیں (١) اور مینڈک اور لہو کہ یہ سب الگ الگ نشانیاں تھیں، اس پر بھی انہوں نے سرکشی کی اور ان کا گروہ مجرموں کا گروہ تھا۔

تفسیرفہم قرآن - میاں محمد جمیل

فہم القرآن : (آیت 133 سے 135) ربط کلام : گذشتہ سے پیوستہ۔ آل فرعون کا موسیٰ (علیہ السلام) سے باربار عہد شکنی کرنے کے ساتھ عذاب کا مطالبہ کرنا۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے فرعون اور قوم فرعون کو کئی مرتبہ عظیم الشان معجزات دکھائے بار بار اللہ تعالیٰ کی توحید اور اس کے دین کی دعوت دی۔ موسیٰ (علیہ السلام) کے مقابلہ میں ملک بھر کے نامی گرامی جادو گر نہ صرف شکست فاش کھاچکے بلکہ انھوں نے سرِمیدان پوری قوم کے سامنے موسیٰ (علیہ السلام) اور ہارون (علیہ السلام) کے رب پر ایمان لانے کا اقرار اور اظہار کیا۔ فرعون نے اس پر شدید رد عمل کا اظہار کرتے ہوئے انھیں بد ترین سزاؤں اور الٹا لٹکا دینے کی دھمکیاں دیں، صاحب ایمان لوگوں نے پوری جو ان مردی کے ساتھ آل فرعون کے مظالم کا مقابلہ کیا۔ لیکن فرعون اور اس کی قوم سمجھنیکے بجائے موسیٰ (علیہ السلام) اور ان کے اولوالعزم ساتھیوں کو منحوس قرار دیتے ہوئے جناب موسیٰ (علیہ السلام) سے بار بار عذاب کا مطالبہ کرتے رہے۔ جس پر انھیں ہلکے عذابوں کے بعد پانچ سخت اور ذلیل کردینے والے عذابوں میں مبتلا کیا گیا۔ سیلاب : 1۔ بارش انسانی صحت اور ہر چیز کی نشوونما کے لیے نہایت ضروری ہے۔ اس کے بغیر زمین مردہ اور ہر چیز مرجھائی نظر آتی ہے۔ بشرطیکہ یہ بر وقت اور مناسب مقدار میں ہو۔ اگر یہی بارش بے وقت اور غیر معمولی ہو تو اس سے ہر چیز تباہ ہوجاتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے آل فرعون پر بے موسم اور غیر معمولی بارشیں نازل کیں۔ جس سے ان کی فصلیں تباہ، جانور بدحال اور مکانات گر گئے۔ باد وباراں کے طوفان اس لیے نازل کیے گئے تاکہ یہ لوگ توبہ و استغفار کریں۔ لیکن یہ توبہ کرنے کے بجائے تکبرّاور نافرمانی میں آگے ہی بڑھتے گئے۔ اس کے بعد ٹڈیوں کا عذاب نازل ہوا۔ ٹڈیوں کے جھنڈ : 2۔ ٹڈیوں کے دل کے دل امڈ آئے اور انھوں نے نہ صرف باقی ماندہ کھیتوں اور فصلوں کو تباہ کیا بلکہ درختوں کی ٹہنیاں تک کھاڈالیں سرسبز و شاداب ملک و یرانی اور تباہی کا منظر پیش کرنے لگا۔ جوؤں کی بہتات : 3۔ ان کے لباس اور جسم کی رگ رگ میں اس قدر کثرت کے ساتھ جوئیں پیدا ہوئیں کہ ان کا رات کا سونا اور دن کا سکون غارت ہوگیا۔ ان لوگوں نے خارش کر کر کے اپنے جسم زخمی کرلیے۔ مگر ایمان نہ لائے۔ مینڈکوں کی بہتات : 4۔ جوؤں کے بعد مینڈکوں کا اتنا شدید سیلاب آیا کہ مینڈکوں کے ڈَل کے ڈَل ان کے کھیتوں، کھلیانوں اور گھروں میں اس طرح گھس آئے کہ ان کے لیے چار پائی کے اوپر بستروں میں سونا بھی حرام ہوگیا۔ خوفناک شکل اور بھاری بھرکم مینڈک ملک میں اس طرح پھیل گئے کہ ہر شخص خوف کے مارے چھپتا پھرتا تھا۔ لیکن جائیں تو کہاں جائیں۔ خون ہی خون : 5۔ ہر کھانے پینے والی چیز میں خون ہی خون پیدا ہوا، یہاں تک کہ ماؤں کی چھاتیوں میں دودھ کی بجائے خون اتر آیا حتیٰ کہ آل فرعون میں سے کوئی اگر کسی اسرائیلی سے پانی طلب کرتا تو وہ جونہی اس پانی کو پینے لگتا تو وہ بھی گندے خون میں تبدیل ہوجاتا۔ بعض مفسرین نے یہاں تک لکھا ہے کہ آل فرعون کی ایک عورت نے انتہائی قلق کی حالت میں اپنی پڑوسن اسرائیلی عورت کو کہا کہ پانی کی ایک کلی میرے منہ میں ڈال دے تاکہ مجھے سکون حاصل ہو۔ جب اس کی پڑوسن نے ایسا کیا تو پانی کی کلی آل فرعون کی عورت کے منہ میں جا کر خون میں تبدیل ہوگئی۔ نہ معلوم فرعون نے پہلے پہل ان عذابوں کے بارے میں عوام میں کیا تاثر دیا ہوگا اور ان کے مقابلہ میں سرکاری سطح پر کیا کیا جتن کیے ہوں گے لیکن جب اس کی تمام کوششیں نامراد ہوئیں تو وہ ہر عذاب کے بعد مجبور ہو کر موسیٰ (علیہ السلام) کے پاس حاضر ہو کر انتہائی آہ و زاری اور عاجزی کے ساتھ پختہ وعدہ کرتے ہوئے کہتا کہ اے موسیٰ ! اپنے رب کے حضور دعا کیجیے کہ یہ عذاب ہم سے ٹل جائے ہمیں اس عذاب سے نجات ملے گی تو ہم آپ پر ایمان لاکر بنی اسرائیل کو آزاد کردیں گے۔ لیکن جونہی موسیٰ (علیہ السلام) کی دعا سے عذاب ٹلتا تو وہ عہد شکنی کرتے ہوئے پہلے سے زیادہ شرک و کفر اور بنی اسرائیل کو اذیتیں دیا کرتے تھے۔ قرآن و حدیث میں ان عذابوں کے دورانیہ کی وضاحت نہیں ملتی تاہم تفسیر روح المعانی اور قرطبی کے مؤلفین نے بنی اسرائیل کی روایات کو بنیاد بناتے ہوئے لکھا ہے کہ ہر عذاب کا دورانیہ ایک ہفتہ پر محیط ہوتا تھا۔ اور اس کے بعد ایک مہینہ کی مہلت دی جاتی تھی جونہی وہ لوگ آسودہ حال ہوتے تو پہلے سے زیادہ کفر و شرک اور مظالم کا ارتکاب کرتے تھے۔ ایک موقعہ پر فرعون نے یہاں تک ہرزہ سرائی کرتے ہوئے موسیٰ (علیہ السلام) سے کہا : ﴿وَقَالُوْا یٰاَیُّہَالسّٰحِرُ ادْعُ لَنَا رَبَّکَ بِمَا عَہِدَ عِنْدَکَ اِنَّنَا لَمُہْتَدُوْنَ۔ فَلَمَّا کَشَفْنَا عَنْہُمُ الْعَذَابَ اِذَا ہُمْ یَنْکُثُوْنَ۔ وَنَادٰی فِرْعَوْنُ فِیْ قَوْمِہٖ اَلَیْسَ لِیْ مُلْکُ مِصْرَ وَ ہٰذِہِ الْاَنْہٰرُ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِیْ اَفَلَا تُبْصِرُوْنَ۔ اَمْ اَنَا خَیْرٌ مِّنْ ہٰذَ الَّذِیْ ہُوَ مَہِیْنٌ وَّلَا یَکَادُ یُبِیْنُ۔ فَلَوْلَآ اُلْقِیَ عَلَیْہِ اَسْوِرَۃٌ مِّنْ ذَہَبٍ اَوْ جَآءَ مَعَہُ الْمَلائِکَۃُ مُقْتَرِنِیْنَ۔ [ الزخرف، آیت : 49تا53] ” اے جادوگر اپنے رب سے عذاب ٹلنے کی دعا کیجیے۔ ہم وعدہ کرتے ہیں کہ ہم ضرور ہدایت پائیں گے۔ لیکن جب عذاب ٹل گیا تو اپنی قوم سے مخاطب ہو کر کہنے لگا اے میری قوم کیا تم نہیں دیکھتے کہ مصر کا اقتدار میرے ہاتھ میں ہے اور نہریں میرے محلات کے نیچے چلتی ہیں۔ کیا تم دیکھتے نہیں کہ میں اس شخص سے کہیں بہتر ہوں جو میرے مقابلہ میں ذلیل ہے اور اپنی بات واضح نہیں کرسکتا۔ اگر یہ واقعی سچا ہے تو اس کے لیے سونے کے کنگن اور اس کی اردل میں فرشتے اترنے چاہییں تھے۔“ مسائل : 1۔ فرعون اور اس کی قوم بدترین مجرم اور متکبر لوگ تھے۔ 2۔ فرعون اور اس کی قوم بار بار موسیٰ (علیہ السلام) سے بد عہدی کرتے رہے۔ 3۔ آل فرعون پر یکے بعد دیگرے کئی عذاب آئے لیکن وہ سمجھنے کے بجائے کفر و شرک میں آگے ہی بڑھتے گئے۔