سورة الاعراف - آیت 97

أَفَأَمِنَ أَهْلُ الْقُرَىٰ أَن يَأْتِيَهُم بَأْسُنَا بَيَاتًا وَهُمْ نَائِمُونَ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

کیا شہروں (١) کے بسنے والوں کو اس بات سے امان مل گئی ہے کہ ہمارا عذاب راتوں رات آ نازل ہو او وہ پڑے سوتے ہوں؟

تفسیرفہم قرآن - میاں محمد جمیل

فہم القرآن : (آیت 97 سے 99) ربط کلام : سابقہ آیات میں پانچ اقوام کی تباہی اور اس کے اسباب بیان کرتے ہوئے دنیا میں جزاء و سزا کا ایک عمومی اصول بیان فرمایا اور اس کے بعد ایمان اور تقویٰ کی ترغیب دیتے ہوئے زمین و آسمان کی برکات کی خوشخبری سنائی اب پھر مجرموں کو وارننگ دی جا رہی ہے۔ قرٰی کا واحد ” قَرْیَۃ“ ہے یہ لفظ شہر اور دیہات دونوں کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ قرآن مجید نے اسے شہر اور بستیوں کے لیے استعمال فرمایا ہے سورۃ زخرف آیت : ٣١ میں ہے کہ لوگ شہروں کے رہنے والے ہوں یا دیہاتوں کے بسنے والے انھیں وارننگ اور انتباہ کیا جا رہا ہے کہ تم اللہ تعالیٰ کی بغاوت اور نافرمانیاں کرکے کس طرح پرسکون اور امن میں رہ سکتے ہو ؟ یہ تو اللہ کی حکمت اور اس کی طے شدہ پالیسی ہے کہ وہ باغی اور نافرمانوں کو ایک وقت مقرر تک مہلت دیتا ہے اگر وہ لوگوں کے جرائم اور گناہوں کی وجہ سے پکڑنے پر آجائے تو زمین پر چلنے والی کوئی چیز باقی نہ رہے۔ لیکن اللہ تعالیٰ لوگوں کو مدت معینہ تک مہلت دیتا ہے۔ جب مہلت ختم ہوجاتی ہے تو ایک لمحہ تقدیم یا تاخیر نہیں ہونے پاتی۔ (النحل، آیت :61) اس لیے لوگوں کو یہ یاد رکھنا چاہیے کہ ہمارا عذاب رات کی تاریکیوں میں ان کو نیند کی حالت میں اچک سکتا ہے اور اگر ہم چاہیں تودن دیہاڑے لوگوں کو فنا کی گھاٹ اتار سکتے ہیں۔ سورۃ القصص آیت 71تا 72میں فرمایا : (قُلْ اَرَءَ یْتُمْ اِنْ جَعَلَ اللّٰہُ عَلَیْکُمُ النَّہَارَ سَرْمَدًا اِلٰی یَوْمِ الْقِیٰمَۃِ مَنْ اِلٰہٌ غَیْرُ اللّٰہِ یَاْتِیْکُمْ بِلَیْلٍ تَسْکُنُوْنَ فِیْہِ اَفَلَا تُبْصِرُوْنَ۔ قُلْ اَرَءَ یْتُمْ اِنْ جَعَلَ اللّٰہُ عَلَیْکُمُ النَّہَارَ سَرْمَدًا اِلٰی یَوْمِ الْقِیٰمَۃِ مَنْ اِلٰہٌ غَیْرُ اللّٰہِ یَاْتِیْکُمْ بِضِیَآءٍ اَفَلا تَسْمَعُوْنَ) [ سورۃ القصص، آیت : 71، 72] ” اے نبی لوگوں سے فرما دیجیے اگر اللہ تعالیٰ تم پر رات کو قیامت تک طویل کر دے تو کون ہے صبح کی روشنی لانے والا اور اگر وہ دن کو قیامت تک لمبا کر دے تو کون ہے رات لانے والا جس میں تم سکون پاتے ہو ؟“ قوم لوط پر صبح کے وقت عذاب آیا جو قیامت تک رات کی تاریکی نہیں پا سکتے۔ قوم مدین پر رات کی تاریکیوں میں عذاب نازل ہوا جنھیں قیامت تک صبح دیکھنا نصیب نہیں ہوگی۔ ایسے ہی یہاں عذاب کا اشارہ کیا گیا ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ چاہے تو دن اور رات میں کسی وقت بھی تمھیں پکڑ سکتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے عذاب سے بے خوف ہونے والے نقصان ہی پایا کرتے ہیں، یا درہے مکر کے لفظ کی نسبت لوگوں کی طرف ہو تو اس کا مطلب مکر وفریب ہوتا ہے جب اس لفظ کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف ہو تو اس کا معنی تدبیر ہوا کرتا ہے۔ دنیا کی تاریخ اٹھا کے دیکھیے۔ 2005 ء میں رمضان المبارک کے دوسرے دن کشمیر میں صبح 9 بجے ایسا زلزلہ آیا کہ چالیس سیکنڈ کے اندر 70000 انسان موت کا لقمہ بنے اور لاکھوں مکان زمین بوس ہوگئے۔ 1948 ء میں رات کے وقت بلوچستان میں زلزلہ آیا تو بیس سیکنڈ میں کوئٹہ شہر مکمل طور پر تباہ ہوگیا۔ مسائل : 1۔ پہلی قوموں پر عذاب اس وقت آیا جب وہ اللہ اور آخرت کو بھولے، غفلت اور بدامنی میں پڑے ہوئے تھے۔ 2۔ عذاب الٰہی سے بے خوف ہونا کفر ہے۔ تفسیر بالقرآن: اللہ کے عذاب سے بے خوف ہونے والے دنیا و آخرت میں نقصان اٹھائیں گے : 1۔ جو ایمان لانے کے بعد کفر کرے اس کے تمام عمل برباد اور وہ دنیاء و آخرت میں خسارہ پانے والوں میں ہوگا۔ (المائدۃ:5) 2۔ اللہ کے عذاب سے بے خوف ہونے والے نقصان اٹھاتے ہیں۔ (الاعراف :99) 3۔ جن لوگوں نے اللہ کی آیات کا انکار کیا وہی نقصان اٹھائیں گے۔ (الزمر :62) 4۔ کافروں کی پیروی کرنے والے نقصان اٹھائیں گے۔ (آل عمران :149) 5۔ اللہ کو چھوڑ کر شیطان سے دوستی کرنے والا نقصان اٹھائے گا۔ ( النساء :119)