سورة الاعراف - آیت 85

وَإِلَىٰ مَدْيَنَ أَخَاهُمْ شُعَيْبًا ۗ قَالَ يَا قَوْمِ اعْبُدُوا اللَّهَ مَا لَكُم مِّنْ إِلَٰهٍ غَيْرُهُ ۖ قَدْ جَاءَتْكُم بَيِّنَةٌ مِّن رَّبِّكُمْ ۖ فَأَوْفُوا الْكَيْلَ وَالْمِيزَانَ وَلَا تَبْخَسُوا النَّاسَ أَشْيَاءَهُمْ وَلَا تُفْسِدُوا فِي الْأَرْضِ بَعْدَ إِصْلَاحِهَا ۚ ذَٰلِكُمْ خَيْرٌ لَّكُمْ إِن كُنتُم مُّؤْمِنِينَ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

اور (اسی طرح) مدین (١) کی بستی میں شعیب بھیجا گیا کہ انہی کے بھائی بندوں میں سے تھا، اس نے کہا : بھائیو ! اللہ کی بندگی کرو، اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں، دیکھو تمہارے پروردگار کی طرف سے واضح دلیل تمہارے سامنے آچکی ہے، پس چاہیے کہ ماپ تول پورا پورا کیا کرو، لوگوں کو (خریدو فروخت میں) ان کی چیزیں کم نہ دو، ملک کی درستی کے بعد (کہ دعوت حق کے قیام سے ظہور میں آرہی ہے) اس میں خرابی نہ ڈالو، اگر تم ایمان رکھتے ہو تو یقین کرو اسی میں تمہارے لیے بہتر ہے۔

تفسیر فہم القرآن - میاں محمد جمیل ایم اے

فہم القرآن : (آیت 85 سے 87) حضرت شعیب (علیہ السلام) : حضرت شعیب (علیہ السلام) کو مؤرخین اور سیرت نگاروں نے خطیب الانبیاء کے نام سے یاد کیا ہے۔ آپ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے بیٹے ” مدیان“ کی اولاد سے تعلق رکھتے ہیں۔ جس کی بنا پر ان کو قوم مدین کہا جاتا ہے۔ اس قوم کا سب سے بڑا شہر ان کے قومی نام مدین سے ہی معروف تھا۔ اس لیے قرآن مجید نے انھیں اہل مدین کے نام سے پکارا ہے۔ حضرت شعیب (علیہ السلام) کو ان کی قوم میں ہی رسول مبعوث کیا گیا تاکہ آپ اپنی قوم کو راہ راست پر لانے کی جدوجہد فرمائیں۔ اہل مدین کو قرآن میں اصحاب الایکہ بھی کہا گیا ہے۔ (الشعراء :176) اہل مدین کا عقیدہ اور گھناؤنا کردار : 1۔ اہل مدین بھی اپنے پیش رو اقوام کی طرح شرک جیسے غلیظ اور بد ترین عقیدہ میں مبتلا تھی۔ شرک وہ بیماری ہے جسے امّ الامراض کہنا چاہیے۔ قوم مدین کے اندر وہ تمام اخلاقی اور اعتقادی بیمار یوں نے جنم لیا۔ جن میں قوم نوح سے لے کر قوم لوط کے لوگ ملوث چلے آرہے تھے۔ اس امّ الامراض کی جڑ کاٹنے کے لیے حضرت شعیب (علیہ السلام) اپنی دعوت کا آغاز دعوت توحید سے کرتے ہیں۔ (الاعراف، آیت :85) 2۔ قوم مدین نہ صرف عقیدہ کی خیانت میں مرتکب ہوئی بلکہ گاہک سے پوری قیمت وصول کرنے کے باوجود ماپ تول میں کمی بیشی کرتے تھے۔ ادائیگی کے وقت چیز مقررہ وزن اور پیمائش سے کم دیتے۔ دوسروں سے لیتے تو طے شدہ وزن سے زیادہ لینے کی مجرمانہ کوشش کرتے۔ (الاعراف، آیت :85) 3۔ یہ لوگ پیشہ ور ڈاکو تھے ان کے علاقے سے گزرنے والے مسافروں کی عزت و آبرو اور مال و جان محفوظ نہیں تھے۔ (الاعراف : 86، ھود :85) 4۔ حضرت شعیب (علیہ السلام) کی زبردست مخالفت اور نافرمانی کرنے والے تھے۔ (ھود :89) حضرت شعیب (علیہ السلام) کی نصیحتیں : 1۔ اے میری قوم ایک اللہ کی عبادت کرو، ماپ تول میں کمی ڈاکہ زنی اور فساد فی الارض سے توبہ کرو۔ اگر میری بات مان جاؤ تو یہ تمھارے لیے بہتر ہے اور اللہ کی نعمت کو یاد کرو کہ جب تم ہر لحاظ سے تھوڑے اور کم تر تھے۔ اللہ تعالیٰ نے تمھیں کثرت سے نوازا۔ (الاعراف، آیت : 85، 86) اے میری قوم اللہ تعالیٰ سے ڈر جاؤ اور میری بات مانو میں نہایت ایمانداری کے ساتھ تمھیں اللہ کا پیغام پہنچا رہا ہوں اور اس پر میں تم سے کوئی اجر نہیں مانگتا۔ میرا اجر میرے رب کے ذمہ ہے۔ (الشعراء، آیت : 176تا180) قوم کا حضرت شعیب (علیہ السلام) کو جواب : اے شعیب کیا تیری نمازیں تجھے یہی کہتی ہیں کہ ہم اپنے باپ دادا کے طریقۂ عبادت کو چھوڑ دیں اور اپنے کاروبار کو اپنے طریقہ کے مطابق نہ کریں ؟ ھود، آیت : 87۔ تم پر اے شعیب ( علیہ السلام) کسی نے جادو کردیا ہے۔ (الشعراء :185) حضرت شعیب (علیہ السلام) کی مزید نصیحت : اے میری قوم میں اپنے رب کی طرف سے واضح دلیل پر ہوں اور اس نے مجھے وافر رزق عطا فرمایا ہے۔ یہ نہیں ہوسکتا کہ میں وہی کچھ کروں جس سے تمھیں منع کرتا ہوں۔ میں اللہ کی توفیق سے صرف اصلاح کی غرض سے یہ بات کہتا ہوں۔ میرا اللہ تعالیٰ پر بھروسہ ہے اور میں ہر حال میں اس کی طرف رجوع کرتا ہوں۔ (ھود :88) قوم کا جواب : اے شعیب! تیری اکثر باتیں ہماری سمجھ میں نہیں آتیں اور ہم تمھیں اپنے آپ میں کمزور دیکھتے ہیں، اگر تیری برادری نہ ہوتی تو ہم تجھے پتھر مار مار کر رجم کردیتے تو ہمارا کچھ نہ بگاڑ سکتا۔ (ھود، آیت :91) حضرت شعیب (علیہ السلام) کا ارشاد : میری قوم کیا تم اللہ تعالیٰ سے میری برادری کو بڑا سمجھتے ہو اور تم باز نہیں آتے۔ تم اپنا کام کرو اور مجھے اپنا کام کرنے دو اور عنقریب تمھیں معلوم ہوجائے گا کہ جھوٹا کون ہے اور کس پر ذلیل کردینے والا عذاب نازل ہوگا۔ (ھود : 90تا95) قوم حضرت شعیب (علیہ السلام) سے عذاب کا مطالبہ کرتی ہے : اے شعیب تو ہمارے جیسا انسان ہے اور ہم تجھے کذّاب سمجھتے ہیں بس تو ہم پر آسمان کا ایک ٹکڑا گرادے اگر تو سچا ہے۔ (الشعراء : 185تا187) قوم شعیب پر اللہ تعالیٰ کا عذاب : قوم نے حضرت شعیب (علیہ السلام) کو جھٹلایا تو ان پر بلاشبہ عذاب عظیم نازل ہوا۔ ( الشعراء :189) ظالموں کو ایک کڑک نے آلیا اور وہ اپنے گھروں میں اوندھے منہ پڑے ہوئے تھے۔ ان کے گھر ایسے ویران ہوئے جیسے ان میں کوئی بسا ہی نہ ہو۔ یاد رکھو اہل مدین پر ایسی ہی پھٹکار ہوئی جس طرح قوم ثمود پھٹکاری گئی۔ مفسرین نے لکھا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ان پر سات راتیں آٹھ دن گرمی اور حبس کا ایسا عذاب مسلط کیا کہ وہ نہ تہہ خانوں میں آرام کرسکتے تھے اور نہ ہی کسی درخت کے سائے تلے ٹھہر سکتے تھے۔ وہ انتہائی کرب کے عالم میں اپنے گھروں سے باہر نکلے تو ایک بادل ان کے اوپر سایہ فگن ہوا۔ جب سب کے سب بادل تلے جمع ہوگئے تو بادل سے آگ کے شعلے برسنے لگے۔ زمین زلزلہ سے لرزنے لگی اور پھر ایسی دھماکہ خیز چنگھاڑ گونجی کہ ان کے کلیجے پھٹ گئے اور اوندھے منہ تڑپ تڑپ کر ذلیل ہو کر مرے۔ حضرت شعیب (علیہ السلام) کا لاشوں کو خطاب : حضرت شعیب (علیہ السلام) ان سے مخاطب ہوتے ہیں۔ اے میری قوم میں نے نہایت خیر خواہی کے ساتھ اپنے رب کا پیغام پہنچا دیا تھا۔ لہٰذا اللہ کے نافرمانوں پر مجھے کوئی افسوس نہیں ہے۔ (الاعراف :93) مسائل : 1۔ قوم شعیب ناپ تول کی کمی بیشی کیا کرتے تھے۔ 2۔ حضرت شعیب (علیہ السلام) اپنی قوم کو پہلی قوموں کے انجام سے ڈراتے تھے۔ 3۔ حق وباطل میں اللہ تعالیٰ فیصلہ کردیتا ہے۔ تفسیر بالقرآن : ناپ تول میں کمی نہیں کرنی چاہیے : 1۔ ماپ تول کو پورا کرو اور لوگوں کو چیزیں کم نہ دو۔ (الاعراف :85) 2۔ ماپ تول کو انصاف سے پورا کرو۔ (الانعام :52) 3۔ ماپ کو پورا کرو اور پورا پورا وزن کرو۔ (الاسراء :35) 4۔ ماپ تول میں کمی نہ کرو۔ (ھود :84) 5۔ ماپ کو پورا کرو اور کمی کرنے والے نہ بنو۔ (الشعراء :181)