سورة الاعراف - آیت 53

هَلْ يَنظُرُونَ إِلَّا تَأْوِيلَهُ ۚ يَوْمَ يَأْتِي تَأْوِيلُهُ يَقُولُ الَّذِينَ نَسُوهُ مِن قَبْلُ قَدْ جَاءَتْ رُسُلُ رَبِّنَا بِالْحَقِّ فَهَل لَّنَا مِن شُفَعَاءَ فَيَشْفَعُوا لَنَا أَوْ نُرَدُّ فَنَعْمَلَ غَيْرَ الَّذِي كُنَّا نَعْمَلُ ۚ قَدْ خَسِرُوا أَنفُسَهُمْ وَضَلَّ عَنْهُم مَّا كَانُوا يَفْتَرُونَ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

(پھر) کیا یہ لوگ اس بات کے انتظار میں ہیں کہ (فساد و بدعملی کے جس نتیجہ کی اس میں خبر دی گئی ہے) اس کا مطلب وقوع میں آجائے؟ (اگر اسی بات کا انتظار ہے تو جان رکھیں) جس دن اس کا مطلب وقوع میں آئے گا اس دن وہ لوگ کہ اسے پہلے سے بھولے بیٹھے تھے (نامرادی و حسرت کے ساتھ) بول اٹھیں گے، بلا شبہ ہمارے پروردگار کے پیغمبر ہمارے پاس سچائی کا پیام لے کر آئے تھے (مگر افسوس کہ ہم نے انہیں جھٹلایا) کاش شفاعت کرنے والوں میں سے کوئی ہو جو آج ہماری شفاعت کرے ! یا کاش ایسا ہی ہو کہ ہم پھر دنیا میں لوٹا دیئے جائیں اور جیسے کچھ کام کرتے رہے ہیں اس کے برخلاف (نیک) کام انجام دیں، بلا شبہ ان لوگوں نے اپنے ہاتھوں اپنے کو تباہی میں ڈالا اور دنیا میں جو کچھ افترا پردازیاں کیا کرتے تھے وہ سب (آج) ان سے کھوئی گئیں۔

تفسیر فہم القرآن - میاں محمد جمیل ایم اے

فہم القرآن : ربط کلام : قرآن مجید کی ہدایت سے روگردانی کرنے اور آخرت کو بھول جانے کا انجام اور جہنمیوں کی حسرتوں کا بیان۔ قرآن مجید میں لفظ تاویل سترہ آیات میں آیا ہے ان مقامات کی تلاوت سے یہ حقیقت عیاں ہوئی ہے کہ یہ لفظ مختلف معانی کے لیے استعمال ہوا ہے۔ سورۃ آل عمران آیت 7میں تفسیر اور تشریح کے لیے استعمال ہوا۔ سورۃ النساء، آیت : 59میں نتیجہ اور انجام مراد ہے۔ الاعراف، آیت : 53سورۃ یونس، آیت : 39میں ایسے واقعہ کا ظہور پذیر ہونا جس کی کسی رسول یا نبی نے خبر دی ہو۔ سورۃ یوسف میں تین دفعہ خواب کی تعبیر کے معنی میں آیا ہے، سورۃ الکہف، آیت : 78اور 83میں کسی کام کے محرک اور سبب کے لیے استعمال ہوا ہے۔ مندرجہ بالا حوالہ جات میں اس آیت کا حوالہ بھی شامل ہے یہاں دو مرتبہ تا ویل کا لفظ استعمال ہوا ہے جس کا مفہوم یہ ہے کہ جو کچھ انبیاء (علیہ السلام) بیان کیا کرتے تھے۔ اس کا من و عن سچا ثابت ہونا۔ دنیا کے اسباب و وسائل اور ان کی ہوس میں مدہوش ہو کر آخرت کو بھول جانے والے قیامت کے دن جب کھلی آنکھوں سے اپنا انجام اور جہنم کی ہولناکیاں دیکھیں گے تو اس بات کا برملا اظہار کریں گے کہ واقعی ہمارے رب کے فرستادہ رسول قیامت کے بارے میں حق اور سچ فرماتے تھے۔ لیکن ہماری بدبختی کہ ہم نے انکار کردیا۔ اس اعتراف کے باوجود مجرموں کو اس کا کچھ فائدہ نہیں پہنچے گا پھر وہ بڑی حسرت اور آہ و زاری کے ساتھ اس بات کا اظہار کریں گے کہ کاش آج کوئی سفارش کرنے والا ہماری سفارش کرے تاکہ ہم جہنم سے نجات پائیں یا ہمیں ایک دفعہ دنیا میں واپس لوٹایا جائے تاکہ ہم برے اعمال کے بجائے صالح اعمال کرسکیں۔ یہ فریاد بھی مسترد کردی جائے گی۔ سورۃ الانعام آیت 27، 28 میں بیان ہوا ہے کاش آپ دیکھیں جب یہ لوگ جہنم کی آگ کے سامنے کھڑے کیے جائیں گے تو وہ فریاد کریں گے۔ کاش ہمیں واپس لوٹایاجائے اور ہم اپنے رب کی آیات کی تکذیب ہرگز نہ کریں گے اگر انھیں دنیا میں ایک دفعہ لوٹا بھی دیا جائے تو یہ وہی کچھ کریں گے جو پہلے کرتے رہے ہیں۔ کیونکہ یہ بڑے جھوٹے ہیں۔ ایسے لوگ اپنے آپ کو ہی نقصان پہنچانے والے ہیں اور دنیا میں جو دعوے کیا کرتے اور جن کو دستگیر اور مشکل کشا سمجھتے تھے سب کو بھول جائیں گے۔ مسائل : 1۔ مجرم اپنا انجام دیکھ کر قیامت کے دن اعترافِ حق کریں گے۔ 2۔ مجرم خواہش کے باوجود کسی کو اپنا سفارشی نہیں پائیں گے۔ 3۔ مجرم دنیا میں واپس آنے کی خواہش کریں گے جو کبھی قبول نہ ہوگی۔ 4۔ کافر اور مشرک ایک دوسرے سے کیے ہوئے وعدے بھول جائیں گے۔ تفسیر بالقرآن : مجرموں کا افسوس کرنا : 1۔ عذاب کے وقت کفار کا حسرت و افسوس کرنا۔ (البقرۃ:167) 2۔ موت کے وقت آہ و زاریاں کرنا۔ (المومنون :99) 3۔ محشر کے میدان میں حسرت و افسوس کا اظہار کرنا۔ (النباء :40) 4۔ جہنم میں ان کا آہ و بکا کرنا۔ (فاطر :37)