الَّذِينَ اتَّخَذُوا دِينَهُمْ لَهْوًا وَلَعِبًا وَغَرَّتْهُمُ الْحَيَاةُ الدُّنْيَا ۚ فَالْيَوْمَ نَنسَاهُمْ كَمَا نَسُوا لِقَاءَ يَوْمِهِمْ هَٰذَا وَمَا كَانُوا بِآيَاتِنَا يَجْحَدُونَ
(کیونکہ وہ فرماتا ہے) جن لوگوں نے اپنے دین کو کھیل تماشا بنا لیا تھا (یعنی عمل حق کی جگہ ایسے کاموں میں لگے رہے جو کھیل تماشے کی طرح حقیقت سے خالی تھے) اور دنیا کی زندگی نے انہیں دھوکے میں ڈالے رکھا تو جس طرح انہوں نے اس دن کا آنا بھلا دیا تھا آج وہ بھی بھلا دیئے جائیں گے نیز اس لیے کہ وہ ہماری آیتوں سے جان بوجھ کر انکار کرتے تھے۔
فہم القرآن : (آیت 51 سے 52) ربط کلام : جہنمیوں کا جہنم میں جانا اور ان پر جنت کی نعمتوں کا حرام ہونا اس لیے ہوگا کہ یہ دین کو کھیل تماشا سمجھتے ہوئے دنیا کی عیش و عشرت میں غرق ہو کر آخرت کو بھول چکے تھے۔ کھیل تماشا وقتی طور پر دل بہلانے اور ایک حد تک صحت کے لیے مفید ہوتا ہے بشرطیکہ اس میں وقت اور دولت کا ضیاع اور بے حیائی کا عنصر شامل نہ ہو۔ اگر یہ چیزیں کسی کھیل اور گیم میں شامل ہوجائیں تو فائدہ کے بجائے صحت اور وقت کا نقصان ہوتا ہے۔ پھر یہ بھی حقیقت ہے کہ کھیل کود انسان پوری زندگی اختیار نہیں کرسکتا کیونکہ کھیلنے کودنے سے آدمی کا پیٹ نہیں بھرتا اور نہ ہی زندگی بھر کوئی شخص اسے اختیار کرسکتا ہے۔ یہاں کھیل تماشا کا ذکر کرکے یہ بتلانا مقصود ہے کہ سنجیدہ انسان کے سامنے ایسی چیزوں کی کوئی حیثیت اور حقیقت نہیں ہوتی۔ جہنم میں داخل ہونے والوں کا دین کے ساتھ یہی رویہ تھا کہ انھوں نے اللہ تعالیٰ کی عبادت کو وقت کا ضیاع سمجھا، دین کے احکام کو ناروا پابندی جانا، اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کو اپنے لیے غلامی تصور کرتے ہوئے اس سے روگردانی کی اور دنیا کی لذّات، جاہ و حشمت اور ترقی میں اس طرح غرق ہوئے کہ دنیا کی زندگی کو آخرت کے مقابلہ میں دائمی تصور کرلیا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ جب انھیں سمجھانے والا سمجھانے کی کوشش کرتا تو اس کے ساتھ استہزاء اور جھگڑا کیا کرتے تھے جس کے بدلہ میں آج جہنم میں ان کی آہ وزاریوں کو یکسر فراموش کردیا جائے گا۔ اللہ تعالیٰ کے بھولنے سے مراد کسی قسم کا نسیان نہیں بلکہ اس کے بھولنے سے مراد یکسر طور پر مسترد کردینا ہے۔ بظاہر ” ھم“ کا اشارہ اہل مکہ کی طرف ہے لیکن قرآن مجید میں متعدد مقامات پر بنی نوع انسان کو رہتی دنیا تک مخاطب کیا گیا ہے کیونکہ انسان کی رہنمائی کے لیے یہ اللہ تعالیٰ کی آخری کتاب ہے اس لیے اس میں ہدایت کے متعلق تمام تفصیلات اور ہدایات بیان کردی گئی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید کو اپنے قطعی اور جامع علم کے مطابق نازل فرمایا ہے یہی وجہ ہے اس کی ہدایت کے مقابلہ میں کوئی ہدایت اور رہنمائی نہیں ہو سکتی جو کچھ اس میں دنیا اور آخرت کے حوالے سے حقائق بیان کیے گئے ہیں۔ وہ من و عن آج تک پورے ہوئے ہیں اور ہمیشہ عقل، علم اور سچائی کے اصولوں پر پورے اترتے رہیں گے۔ جو فرد اور قوم اس کی رہنمائی میں اپنی انفرادی اور اجتماعی زندگی گزارے گی۔ وہ دنیا میں اللہ تعالیٰ کی رحمت کے سزاوار ہوگی۔ ہر قسم کی کامیابی پاکر آخرت میں سرخرو ہوگی۔ لیکن رحمت اور ہدایت انھی لوگوں کو حاصل ہوگی جو قرآن مجید پر کامل ایمان لائیں گے۔ مسائل : 1۔ قرآن مجید تمام بنی نوع انسان کے لیے ہدایت کا سرچشمہ ہے۔ 2۔ دین کو کھیل اور تماشا سمجھنے والا آخرت میں نقصان اٹھائے گا۔ 3۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں ہدایت کے متعلق ہر بات کھول کر بیان کردی ہے۔ تفسیر بالقرآن : قرآن مجید کے اوصاف کی ایک جھلک : 1۔ قرآن مجید لاریب کتاب ہے۔ (البقرۃ:1) 2۔ قرآن مجید برہان اور نور مبین ہے۔ (النساء :174) 3۔ قرآن مجید لوگوں کے لیے ہدایت اور نصیحت ہے۔ (آل عمران :138) 4۔ قرآن مجید اللہ تعالیٰ کی طرف سے واضح کتاب ہے۔ (ھود :1) 5۔ قرآن مجید لوگوں کے لیے ہدایت کا سرچشمہ ہے۔ (البقرۃ:185) 6۔ قرآن مجید کے نزول کا مقصد لوگوں کو اندھیروں سے نکال کر روشنی کی طرف لانا ہے۔ (ابراہیم :1)