سورة البقرة - آیت 93

وَإِذْ أَخَذْنَا مِيثَاقَكُمْ وَرَفَعْنَا فَوْقَكُمُ الطُّورَ خُذُوا مَا آتَيْنَاكُم بِقُوَّةٍ وَاسْمَعُوا ۖ قَالُوا سَمِعْنَا وَعَصَيْنَا وَأُشْرِبُوا فِي قُلُوبِهِمُ الْعِجْلَ بِكُفْرِهِمْ ۚ قُلْ بِئْسَمَا يَأْمُرُكُم بِهِ إِيمَانُكُمْ إِن كُنتُم مُّؤْمِنِينَ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

اور پھر جب ایسا ہوا تھا کہ ہم نے (دین الٰہی پر قائم رہنے کا) تم سے عہد لیا تھا اور کوہ طور کی چوٹیا تم پر بلند کردی تھیں (تو تم نے اس کے بعد کیا کیا؟ تمہیں حکم دیا گیا تھا کہ) جو کتاب تمہیں دی گئی ہے اس پر مضبوطی کے ساتھ جم جاؤ اور اس کے حکموں پر کاربند ہو، تم نے (زبان سے) کہا سنا اور (دل سے کہا) نہیں مانتے۔ اور پھر ایسا ہوا کہ تمہارے کفر کی وجہ سے تمہارے دلوں میں بچھڑے کی پوجا رچ گئی (اے پیغمبر) ان سے کہو (دعوت حق سے بے نیازی ظاہر کرتے ہوئے) تم اپنے جس ایمان کا دعوی کرتے ہو اگر وہ یہی ایمان ہے تو افسوس اس ایمان پر، کیا ہی بری راہ ہے جس پر تمہارا ایمان تمہیں لے جا رہا ہے

تفسیرفہم قرآن - میاں محمد جمیل

فہم القرآن: ربط کلام : یہود کہتے ہیں کہ ہم تو وہی مانیں گے جو ہم پر نازل ہوا یہ اس بات میں بھی سچے نہیں کیونکہ ان پر طور پہاڑ بلند کرکے عہد لیا گیا تھا اس کے باوجود انہوں نے انکار کردیا تھا۔ ان کے شرک اور دنیا کی ہوس کا نتیجہ ہے۔ اس آیت کی تفسیر آیت 63کے ساتھ ملا کر پڑھیے جس میں یہ واضح کیا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کے لیے جبری ہدایت کی بجائے اختیاری ہدایت کا طریقہ پسند فرمایا ہے۔ جبری ہدایت کے نظریے کی تردید کے لیے بنی اسرائیل کا عملی تجربہ پیش فرمایا ہے جس میں یہ ثابت کیا ہے کہ جبری ہدایت دیر پا نہیں ہوا کرتی جب تک انسان اخلاص اور دل کی صفائی کے ساتھ حقیقت قبول نہ کرے۔ یہودیوں کے سر پر کوہ طور اٹھانے اور ان کے سننے اور سمجھنے کے باوجود انہوں نے ” اللہ“ کی نافرمانی کا اعلان کیا۔ جس کا بنیادی سبب شرک بیان کیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں بیان فرمایا ہے کہ میں نے ہر انسان کے سینے میں دو کی بجائے ایک دل رکھا ہے۔ ظاہر ہے کہ ایک دل میں توحید اور شرک، اللہ کی محبت اور غیر کی محبت بیک وقت نہیں رہ سکتی۔ اللہ کی محبت غالب ہوگی تو انسان توحید کا اقرار کرتے ہوئے اللہ کی غلامی میں لذت محسوس کرے گا اور تابعداری میں آگے ہی بڑھتا جائے گا اگر غیر اللہ کی محبت غالب ہوگی تو انسان اللہ تعالیٰ سے دور اور اس کی نافرمانی کا راستہ اختیار کرے گا کیونکہ شرک توحید کے متوازی نظریے کا نام ہے اسی بنا پر یہودیوں نے بار بار اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کی کیونکہ ان کے دلوں میں گائے پرستی کا نظریہ گھر کرچکا تھا۔ انسان کی ہر حرکت وعمل کے پیچھے نظریہ کی قوت ہی کارفرما ہوتی ہے اور انسان ویسا ہی عمل کرتا ہے جیسے اس کی فکری قوت اس کی راہنمائی کرتی ہے۔ اس لیے فرمایا ہے کہ جس طرح تمہارے عقائد ہیں جنہیں تم نے ایمان کا درجہ دے رکھا ہے ویسے ہی تمہارے اعمال برے ہوچکے ہیں۔ جس وجہ سے تم حقیقی ایمان سے تہی دامن ہوچکے ہو۔ کیونکہ ایمان ایک ایسی چیز ہے اگر وہ مضبوط ہو تو آدمی کے کردار میں نکھار پیدا ہوتا ہے آدمی کے اعمال اچھے ہوں تو ایمان میں تازگی اور احساس بڑھتا ہے۔ آدمی کا کردار اچھانہ ہو تو اس سے اس کا ایمان بھی متاثر ہوتا ہے ۔ مسائل: 1۔ اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل سے پختہ عہد لینے کے لیے ان پر طور پہاڑ کو بلند کیا۔ 2۔ کفر کی وجہ سے بنی اسرائیل کے دلوں میں بچھڑے کی محبت جاگزیں ہوچکی۔ 3۔ اسلام قبول کرنے کے بعد شرک کرنا برے عقیدہ کی نشانی ہے۔ تفسیر بالقرآن : یہودیوں کے جرائم : 1۔ یہودی اپنی جانوں پر ظلم کرنے والے ہیں۔ (آل عمران :117) 2۔ اللہ کی کتاب میں تحریف کرنا ظلم ہے۔ (البقرۃ:75) 3۔ دیہودیوں کا مریم صدیقہ پر الزام لگانا ظلم ہے۔ (النساء :156) 4۔ یہودیوں کا عیسیٰ (علیہ السلام) کو قتل کرنے کا دعویٰ کرنا ظلم ہے۔ (النساء :157) 5۔ آیات اللہ کا انکار کرناظلم ہے۔ (النساء :153) 6۔ یہودیوں کا انبیاء کو بغیر حق کے قتل کرنا ظلم ہے۔ (النساء :155) 7۔ یہودیوں کا ہفتہ کے دن میں زیادتی کرنا ظلم ہے۔ (النساء :154) 8۔ اللہ کی حرام کردہ چیزوں کو حلال کرنا ظلم ہے۔ (النساء :160)