إِنَّ الَّذِينَ كَذَّبُوا بِآيَاتِنَا وَاسْتَكْبَرُوا عَنْهَا لَا تُفَتَّحُ لَهُمْ أَبْوَابُ السَّمَاءِ وَلَا يَدْخُلُونَ الْجَنَّةَ حَتَّىٰ يَلِجَ الْجَمَلُ فِي سَمِّ الْخِيَاطِ ۚ وَكَذَٰلِكَ نَجْزِي الْمُجْرِمِينَ
جن لوگوں نے ہماری نشانیاں جھٹلائیں اور ان کے مقابلہ میں سرکشی کی تو (یاد رکھو) ان کے لیے آسمان کے دروازے کبھی کھلنے والے نہیں۔ ان کا جنت میں داخل ہونا ایسا ہے جیسے سوئی کے ناکے سے اونٹ کا گزر جانا، اسی طرح ہم مجرموں کو ان کے جرموں کا بدلہ دیتے ہیں (یعنی ہم نے اسی طرح قانون جزا ٹھہرا دیا ہے۔
فہم القرآن : (آیت 40 سے 41) ربط کلام : اب مسلسل (11) گیارہ آیات میں اللہ کے باغیوں اور اس کے تابعداروں کا یکے بعد دیگرے کردار اور انجام بیان کیا جاتا ہے۔ عربی زبان میں ” تکذیب“ کا معنی حقیقت کو جھٹلانا یا اس کا انکار کرنا ہے۔ تکبر کا مفہوم یہ ہے کہ حقیقت جاننے کے باوجود اسے تسلیم کرنے سے انکار کردیا جائے۔ جو لوگ اللہ تعالیٰ کے احکام کے ساتھ تکذیب اور تکبر کارویہ اختیار کریں گے ان کے بارے میں دوٹوک اور قطعی طور پر فرما دیا گیا ہے کہ ان کے لیے نہ آسمان کے دروازے کھولے جاتے ہیں اور نہ ہی ان کو جنت میں داخلہ نصیب ہوگا۔ اس فرمان میں قطعیت اور مزید تاکید پیدا کرنے کے لیے فرمایا کہ ان کا جنت میں داخلہ اتنا ہی ناممکن ہے جتنا اونٹ کا سوئی کے ناکے سے گزرنا محال ہے۔ یہ اس لیے ہے تاکہ مجرم اپنے جرائم کی پوری طرح سزا پاتے رہیں مجرموں کے نیچے بھی جہنم کی دہکتی ہوئی آگ اور ان کے اوپر اور چاروں طرف بھی آگ ہی آگ ہوگی۔ جو لوگ اللہ تعالیٰ کی آیات کی تکذیب اور ان کے ساتھ استکبار کا رویہ اختیار کرتے ہیں ایسے ظالموں کو ایسی ہی سزا دی جائے گی۔ ” حضرت براء بن عازب (رض) بیان کرتے ہیں ہم نبی مکرم (ﷺ) کے ساتھ انصار کے کسی آدمی کے جنازہ کے لیے نکلے قبرستان پہنچے تو ابھی قبر کھودی نہیں گئی تھی۔ رسول اکرم (ﷺ) بیٹھ گئے تو ہم بھی آپ کے ارد گرد بیٹھ گئے جیسے ہمارے سروں پر پرندے بیٹھے ہوں، رسول اللہ (ﷺ) کے ہاتھ میں ایک چھڑی تھی آپ اس کے ساتھ زمین کو کرید رہے تھے آپ نے سر اٹھاتے ہوئے دو یا تین مرتبہ فرمایا قبر کے عذاب سے پناہ مانگو پھر فرمایا۔۔ جب کافر دنیا کو چھوڑ کر آخرت کی طرف جا رہا ہوتا ہے تو اس کی طرف آسمان سے سیاہ چہروں والے فرشتے آتے ہیں ان کے ہاتھ میں بدبودار بوری ہوتی ہے وہ حد نگاہ تک اس کے پاس بیٹھ جاتے ہیں، پھر اس کے پاس ملک الموت آتا ہے یہاں تک کہ اس کے سر کے پاس بیٹھ جاتا ہے تو وہ کہتا ہے اے خبیث نفس! اللہ تعالیٰ کی ناراضگی اور غضب کی طرف چل۔ نبی اکرم (ﷺ) نے فرمایا وہ اس کی روح کو اس طرح نکالتے ہیں جس طرح گرم سلائی کو روئی سے نکالا جاتا ہے وہ اس کو نکال کر تھیلے میں ڈالتے ہیں اس سے اتنی بدبو نکلتی ہے جس طرح زمین سے لاش کی گندی بدبو نکلتی ہے وہ اسے کو لے کر آسمانوں کی طرف بڑھتے ہیں ان کا گذر فرشتوں کے جس گروہ کے پاس سے ہوتا ہے وہ دریافت کرتے ہیں یہ خبیث روح کون سی ہے وہ کہتے ہیں یہ فلاں بن فلاں ہے۔ اس کے برے نام لے کر اس کو بلاتے ہیں یہاں تک کہ وہ آسمان دنیا تک پہنچتے ہیں وہ اس کو کھلوانا چاہتے ہیں مگر اسے کھولا نہیں جاتا، پھر نبی معظم (ﷺ) نے اس آیت مبارکہ کی تلاوت فرمائی :” ان کے لیے آسمان کے دروازے نہیں کھولے جائیں گے نہ وہ جنت میں داخل ہوں گے یہاں تک کہ سوئی کے سوراخ میں اونٹ داخل ہوجائے“ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اس کے لیے سجین یعنی زمین کی تہہ میں ٹھکانا لکھو۔ پھر اس کی روح کو نیچے پھینک دیا جاتا ہے پھر نبی معظم (ﷺ) نے اس آیت مبارکہ کی تلاوت فرمائی ” جو اللہ کے ساتھ شرک کرے گا گویا کہ وہ آسمان سے گرا اور اسے پرندے اچک لیں یا اس کو ہوائیں کسی دور دراز مقام پر پھینک دیں“ [ رواہ أحمد] مسائل : 1۔ اللہ تعالیٰ کی آیات کی تکذیب اور ان کے ساتھ تکبر کرنے والا جہنم میں داخل ہوگا۔ 2۔ مکذبین اور متکبرین کے لیے نہ آسمان کے دروازے کھلتے ہیں اور نہ ہی ان کو جنت میں داخلہ نصیب ہوگا۔ 3۔ مجرموں کے اوپر اور نیچے جہنم کی بھڑکتی ہوئی آگ ہوگی۔ تفسیر بالقرآن : ظلم کرنے والوں کا انجام : 1۔ ظالموں کے لیے ہمیشہ کا عذاب ہے۔ (الحشر :17) 2۔ ظالموں کے لیے صرف تباہی ہے۔ (نوح :28) 3۔ ظالم قوم کو سمندر میں غرق کردیا گیا ہے۔ (القصص :40) 4۔ اللہ تعالیٰ ظالموں کو پسند نہیں کرتا۔ (الشوریٰ:40) 5۔ ظلم کرنے والوں کی بستی کو الٹا کر پتھر مارے گئے۔ (العنکبوت :31) 6۔ ظالموں پر لعنت کی جائے گی۔ (غافر :52)