ذَٰلِكَ الْكِتَابُ لَا رَيْبَ ۛ فِيهِ ۛ هُدًى لِّلْمُتَّقِينَ
یہ الکتاب ہے۔ اس میں کوئی شبہ نہیں۔ متقی انسانوں پر (سعادت کی) راہ کھولنے والی
فہم القرآن : ربط الکلام: فاتحہ دعا ہے اور قرآن اس کا جواب، فاتحہ خلاصہ ہے اور قرآن اس کی تفصیل۔ یہ عظیم سورت مدینہ طیبہ میں نازل ہوئی۔ یہاں یہود ونصارٰی آپ کے مخاطبین تھے۔ اس لیے ہٰذَاکی بجائے اسم اشارہ بعید ذَالِکَ استعمال کیا گیا ہے کہ یہ وہی کتاب ہے جس کا بیان اور تذکرہ تم توراۃ اور انجیل میں پاتے ہو۔ ذَالِکَ کا استعمال اس لیے بھی کیا گیا ہے کہ اس زمانے میں اہل عرب کسی عظیم چیز کی طرف توجہ دلاتے وقت دور کا اشارہ قریب کے لیے استعمال کیا کرتے تھے۔ اس دور میں اہل فارس بھی اپنی زبان میں قریب چیز کے لیے دور کے اشارات استعمال کرتے تھے اور انہی سے متاثر ہو کر اردو میں بھی آں جناب کا لفظ استعمال ہوتا ہے۔ پہلی امتوں بالخصوص یہود و نصارٰی نے آسمانی کتابوں میں اپنے رجحانات اور مفادات کی خاطر کئی قسم کے اضافے‘ التباسات اور مغالطے پیدا کردیے تھے۔ اس وجہ سے ان کتابوں پر لوگوں کا اعتماد ختم ہوچکا تھا۔ اس لیے آغاز ہی میں قرآن مجید کے بارے میں دو ٹوک الفاظ میں یہ وضاحت فرما دی گئی ہے کہ اس کے منزل من اللہ ہونے اور اس کے احکامات اور ارشادات میں کسی قسم کا شک اور تردّد کرنے کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ اس کے نفاذ اور اس پر عمل کرنے سے کسی نقصان کا اندیشہ نہیں ہے بلکہ اس پر عمل کرنے سے یقینا تمہیں دنیا و آخرت میں بہترین نتائج اور ثمرات حاصل ہوں گے۔ یہ کتاب ہر لحاظ سے قیامت تک قابل اعتماد اور اس پر عمل کرنا فرض ہے۔ قرآن مجید کے من جانب اللہ اور مستند ہونے کے بارے میں جرمنی کی بین الاقوامی یونیورسٹی کی رپورٹ۔ ” یونانی زبان میں انجیل کے جتنے نسخے دنیا میں پائے جاتے تھے کامل ہوں یا جزئی ان سب کو جمع کرکے ان کے ایک ایک لفظ کا باہم مقابلہ (موازنہ) (Collation) کیا گیا۔ اس کی جو رپورٹ شائع ہوئی اس کے الفاظ یہ ہیں ” کوئی دو لاکھ اختلافی روایات ملتی ہیں“ اس کے بعد یہ جملہ ملتا ہے ” یہ ہے انجیل کا قصہ“ اس رپورٹ کی اشاعت کے بعد کچھ لوگوں کو قرآن کے متعلق حسد پیدا ہوا۔ اس لیے جرمنی کی میونخ یونیورسٹی میں ایک ادارہ قائم کیا گیا ” قرآن مجید کی تحقیقات کا ادارہ“ اس کا مقصد یہ تھا کہ ساری دنیا سے قرآن مجید کے قدیم ترین دستیاب نسخے خرید کر یا اس کے فوٹو لے کر جس طرح بھی ممکن ہو جمع کیے جائیں۔ جمع کرنے کا یہ سلسلہ کئی سال تک جاری رہا۔ جب 1933ء میں پیرس یونیورسٹی میں تھا تو اس کا تیسرا ڈائریکٹر پریتسل (Pretzl) پیرس آیا تھا کہ پیرس کی پبلک لائبریری میں قرآن مجید کے جو قدیم نسخے پائے جاتے ہیں ان کے فوٹو حاصل کرے۔ اس پروفیسر نے بیان کیا کہ اس وقت ہمارے انسٹی ٹیوٹ میں قرآن مجید کے بیالیس ہزار نسخوں کے فوٹو موجود ہیں اور مقابلے (Collection) کا کام جاری ہے۔ بعد ازاں اس ادارہ نے رپورٹ شائع کی جس کے الفاظ یہ ہیں کہ ” قرآن مجید کے نسخوں میں مقابلے کا جو کام ہم نے شروع کیا تھا اس کا اب تک جو نتیجہ نکلا ہے وہ یہ ہے کہ ان نسخوں میں کہیں کہیں کتابت کی غلطیاں تو ملتی ہیں لیکن اختلاف روایت ایک بھی نہیں۔ گویا کہ قرآن مجید ہر قسم کے ردّ وبدل سے مبرّا ہے۔“ (ماخوذ : خطبات بہاولپور از ڈاکٹر حمیداللہ) بلاشبہ قرآن مجید عظیم اور شک وشبہ سے بالا، انسانوں کی راہنمائی اور خیر خواہی کے لیے آخری آسمانی کتاب ہے لیکن اس سے ہدایت پانے کے لیے تقو ٰی لازم قرار پایا ہے۔ تقویٰ کے بارے میں امیر المومنین حضرت عمر فاروق {رض}نے جناب ابی بن کعب {رض}سے استفسار فرمایا کہ تقویٰ کیا ہے؟ حضرت ابی بن کعب {رض}نے اس سوال کا جواب دینے کی بجائے امیر المومنین سے عرض کی کہ جب آپ کسی ایسی پگڈنڈی پر گزرنے کا موقع پائیں جس کے چاروں طرف خار دار جھاڑیاں ہوں تو اس پر آپ کس طرح گزریں گے؟ امیر المومنین نے فرمایا اس راستے کا راہی دامن بچا کر ہی گزرے گا۔ ابی بن کعب {رض}فرمانے لگے کہ اسی کا نام تقو ٰی ہے۔ اور ایسے شخص کو متقی کہا جائے گا جو گناہوں کی آلائشوں سے بچ کر صراط مستقیم پر ثابت قدمی سے چل کر اپنی منزل پر پہنچ جاتا ہے۔ (تفسیر ابن کثیر) بعض لوگ یہ سوال اٹھاتے ہیں کہ اگر یہ کتاب پرہیزگاروں کے لیے ہے تو پھر اس کا کیا کمال ہے؟ شاید ان کا مقصد یہ ہے کہ کتاب تو ایسی ہونی چاہیے تھی جو فاسقوں‘ فاجروں اور مجرموں کو کھینچ کر صراط مستقیم پر گامزن کر دے۔ دراصل یہ لوگ اس حقیقت کو فراموش کردیتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو عقل و شعور کی صلاحیتوں سے ہمکنار فرما کر یہ اختیار دیا ہے کہ وہ نیکی اور بدی، نفع اور نقصان، دائمی اور عارضی فوائد میں جس کا چاہے انتخاب کرے۔ برائی سے اجتناب نہ کرنے والے کی مثال اس مریض کی طرح ہے جس کو ایک خیر خواہ حکیم اور مہربان والدین بار بار دوائی کھلانے کی کوشش کریں لیکن مریض دوائی کھانے کی بجائے اپنا منہ بند کرلے اور اس کے مرض میں اضافہ ہی ہوتا چلا جائے۔ ایسے حضرات سے پوچھنا چاہیے کہ اس میں حکیم کی حکمت، ماں کی مامتا اور والد کی شفقت کا کیا قصور ہے؟ اس لیے جاننا چاہیے کہ انسان کے لیے ہدایت کو جبری کی بجائے اختیاری بنایا گیا ہے۔ اگر ہدایت آدمی پر مسلط کردی جاتی تو اس کو قبول کرنے میں انسان کا کیا کمال ہوتا؟ پھر حیوان اور انسان میں امتیاز چہ معنی دارد؟ لہٰذا یہ کتاب انہی کے لیے ہدایت ہے جو ہدایت کے طالب اور گناہوں سے بچنے کی کوشش کرتے ہیں۔ مسائل : 1- قرآن مجید میں کوئی عیب اور نقص نہیں اور اس کے منجانب اللہ ہونے میں کسی شک کی گنجائش نہیں۔ 2- اللہ سے ڈرنے اور گناہوں سے بچنے والوں کے لیے قرآن مجید سر چشمۂ ہدایت ہے۔ تفسیر بالقرآن : تقویٰ کیا ہے؟ 1- اللہ کی ذات، احکام اور اس کے شعائرکے احترام کرنے کا نام تقویٰ ہے۔ (الحج :32) 2-تقویٰ نام ہے اللہ کے احکام پر عمل پیرا ہونے اور اس کی نافرمانیوں سے بچنے کا۔ (النور :52) 3- تقویٰ نام ہے سمع و اطاعت کے باوجود اپنے رب سے ڈرتے رہنے کا۔ (التغابن :16) قرآن مجید کی عظمت وصداقت : 1-قرآن مجید سراپا رحمت اور کتاب ہدایت ہے۔ ( لقمان :3) 2-یہ بابرکت اور پہلی کتابوں کی تصدیق کرنے والی ہے۔ ( الانعام :92) 3-اس میں ہدایت کے متعلقہ ہر چیز واضح کی گئی ہے۔ ( النحل :98) 4-یہ روشن اور بین کتاب ہے۔ ( المائدۃ:15) 5-پہلی کتابوں کی حقیقی تعلیم کی نگہبان ہے۔ (المائدۃ:48) قرآن مجید کے اسمائے گرامی : 1-القرآن (الاسراء :88) 2-الفرقان (الفرقان :1) 3-الذکر (الانبیاء :50) 4-التنزیل (الشعراء :192) 5-الحدیث (الزمر :23) 6-الموعظۃ (یونس :57) 7-الحکمۃ (القمر :5) 8-الحکم (الرعد :37) 9-الحکیم (یٰس :2) 10-المحکم (ھود :1) 11-الشفاء (الاسراء :82) 12-الھدیٰ (البقرۃ:2) 13-الھادی (الاسراء :9) 14-الصراط المستقیم (المائدۃ:16) 15-الحبل (آل عمران :103) 16-الرحمۃ (الاسراء :82) 17-الروح (الشوریٰ:52) 18-القصص (یوسف :3) 19-البیان (آل عمران :138) 20-التبیان (النحل :89) 21-المبین (یوسف :1) 22-البصائر (الاعراف :203) 23-قول الفصل (الطارق :13) 24-المثانی (الزمر :23) 25-النعمۃ (الضحی :11) 26-البرہان (النساء :174) 27-البشیر (فصلت :4) 28-النذیر (فصلت :4) 29-القیم (الکھف :2) 30-المھیمن (المائدۃ:48) 31-النور (الاعراف :157) 32-العزیز (فصلت :41) 33-الکریم (الواقعہ :77) 34-العظیم (الحجر :87) 35-المبارک (الانبیاء :50) (بحوالہ تفسیررازی )