بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ
شروع اللہ کے نام سے جو بے حد مہربان اور نہایت رحم والا ہے
فہم القرآن: اللہ کائنات کے رب نے اپنی مخلوق کی پرورش کا بندوبست ایسے مضبوط نظام کے ساتھ فرمایا ہے کہ ہر چیز کو زندگی اور اس کی بقا کے لیے جو کچھ اور جس قد رچاہیے اسے اسی حالت اور مقام پر پہنچایا جارہا ہے۔ پتھر کا کیڑا چاروں طرف بند چٹان کے اندر اپنی خوراک لے رہا ہے، مرغی کا بچہ انڈے میں پل رہا ہے، مچھلیاں دریا میں، پرندے فضا میں اور درندے صحرا میں اپنی اپنی خوراک لے رہے ہیں اور اپنے ماحول میں مطمئن اور خوش وخرم دکھائی دیتے ہیں۔ ہر دانہ اپنی آغوش میں زندگی اور ہر بیج اپنے سینے میں نشوونما کا سامان لیے ہوئے ہے۔ یہاں تک کہ پھول کی کلی کو جس ہوا اور فضا کی ضرورت ہے اسے مہیا کی جارہی ہے۔ زندگی کے لیے ہوا اور پانی اس قدر لازمی جزہیں کہ ان کے بغیر زندگی لمحوں کی مہمان ہوتی ہے۔ یہ اتنے ارزاں اور وافر ہیں کہ اس کا اندازہ ہی نہیں کیا جاسکتا۔ اس لیے قرآن نے اللہ کی ہستی کا تعارف رب اور اس کے نظام ربوبیت سے بات کا آغاز کیا ہے تاکہ انسان کا وجدان پکار اٹھے کہ مجھے اس ہستی کا شکر ادا کرنا اور تابع فرمان رہنا ہے جس نے مجھے پیدا کیا ہے۔ اور یہ نظام اس بات کی دلیل ہے کہ یہ کسی منتظم کے بغیر جاری اور قائم نہیں رہ سکتا ایک زندہ ضمیر شخص جب اپنے چاروں طرف رب کی ربوبیت کے اثرات ونشانات دیکھتا ہے تو اس کے دل کا ایک ایک گوشہ پکار اٹھتا ہے۔ ﴿فَتَبَارَکَ اللّٰہُ أَحْسَنُ الْخَالِقِیْنَ﴾ } المؤمنون : 14 { ” اللہ تعالیٰ برکت والا اور بہترین پیدا کرنے والا ہے۔“ مانگنے کا صحیح طریقہ اور اسلامی تہذیب کا جزو لازم ہے کہ انسان ہر حال میں اپنے رب کا حمد خواں اور شکر گزار رہے۔ حمدگوئی سے یہ بات خود بخود ثابت ہوتی ہے کہ یہ سب کچھ اللہ ہی کی عطا اور ملکیت ہے۔ اور انسان انتہائی ناتواں اور بے بس ہے۔ اس سے انسان کے دل میں یہ عقیدہ بھی جڑ پکڑتا ہے کہ جمال وکمال کسی کا اپنا نہیں بلکہ اللہ ہی کا عطا کردہ ہے۔ اس لیے حقیقی اور ہمہ وقتی حمد وستائش اسی مالک کو زیبا ہے۔ پھر مالک بھی ایسا جو صرف انسانوں اور جنّات کا ہی نہیں وہ تو حیوانات، جمادات، نباتات حتی کہ ارض وسمٰوٰت کا رب ہے۔ جو ابتدا سے انتہا تک ہر چیز کی ضرورت کو کمال رحمت اور ربوبیت سے پورا کررہا ہے۔ حمد میں دوسرے کی ذات کی بڑائی اور اس کے احسانات کا احساس و اعتراف پایا جاتا ہے۔ قرآن مجید ابتداہی میں انسان کو یہ باور کرواتا ہے کہ کائنات کا ذرّہ ذرّہ اپنے رب کی تعریف وتوصیف اور حمد وشکر بیان کرنے میں لگا ہوا ہے۔ ﴿سَبَّحَ لِلّٰہِ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَمَا فِی الْأَرْضِ وَہُوَ الْعَزِیْزُ الْحَکِیْمُ ﴾} الحشر : 1 {” زمین و آسمان میں موجود ہر چیز اللہ کی تسبیح بیان کرتی ہے اور وہ غالب حکمت والاہے۔“ اے انسان! اشرف المخلوقات ہونے کی حیثیت سے تجھے مانگنے سے پہلے اپنے رب کی حمد وشکر اور اس کی عنایت و عطا کا اعتراف کرتے ہوئے پہلے اپنے رب کا شکر ادا کرنا چاہیے۔ کیونکہ شکر گزار ہی تابع فرمان ہوا کرتے ہیں۔ رسول کریم {ﷺ}اللہ تعالیٰ کی حمد وثنا یوں بیان کیا کرتے تھے : (أَللّٰھُمَّ أَعُوْذُ بِرِضَاکَ مِنْ سَخَطِکَ وَبِمُعَافَاتِکَ مِنْ عُقُوْبَتِکَ وَأَعُوْذُ بِکَ مِنْکَ لَآأُحْصِیْ ثَنَاءً عَلَیْکَ أَنْتَ کَمَآ أَثْنَیْتَ عَلٰی نَفْسِکَ) } رواہ مسلم : کتاب الصلاۃ، باب مایقال فی الرکوع والسجود{ ” اے اللہ! میں تیری رضا مندی کے ذریعے تیری ناراضی سے اور تیری معافی کے ذریعے تیری سزا سے پناہ مانگتاہوں اور میں تجھ سے تیری پناہ مانگتاہوں میں اس طرح تیری تعریف نہیں کرسکتا جس طرح تیری شایان شان ہے۔“ (سُبْحَان اللّٰہِ وَبِحَمْدِہٖ عَدَدَ خَلْقِہٖ وَرِضَانَفْسِہٖ وَزِنَۃَ عَرْشِہٖ وَمِدَادَ کَلِمَاتِہٖ) } رواہ مسلم : کتاب الذکر والدعاء والتوبۃ والإستغفار، باب التسبیح أول النھار وعند النوم { ” اللہ کی پاکی اس کی تعریف کے ساتھ اس کی مخلوق کی تعداد، اس کے نفس کی رضا، اس کے عرش کے وزن اور اس کے کلمات کی مقدار کے برابر۔“ مسائل : 1۔ تمام تعریفات اللہ کے لیے ہیں اور کائنات کا ذرّہ ذرّہ اس کی حمد وستائش کرتا ہے۔ تفسیر بالقرآن : حمد اللہ تعالیٰ کے لیے ہے : 1۔ تمام تعریفیں جہانوں کو پالنے والے کے لیے ہیں۔ }الانعام : 45 { 2۔ اللہ کی حمدوثنا بیان کرنا مومنوں کی صفت ہے۔ } التوبۃ: 112 { 3۔ صبح وشام اللہ کی حمد بیان کرنے کا حکم ہے۔ } فاطر : 55 { 4۔ بجلی کی کڑک اور فرشتے بھی اللہ کی حمد بیان کرتے ہیں۔ } الرعد : 13 { 5۔ کائنات کی ہر چیز اللہ کی ثنا خواں ہے۔ }بنی اسرائیل : 44 {