قُلْ إِنَّمَا حَرَّمَ رَبِّيَ الْفَوَاحِشَ مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَمَا بَطَنَ وَالْإِثْمَ وَالْبَغْيَ بِغَيْرِ الْحَقِّ وَأَن تُشْرِكُوا بِاللَّهِ مَا لَمْ يُنَزِّلْ بِهِ سُلْطَانًا وَأَن تَقُولُوا عَلَى اللَّهِ مَا لَا تَعْلَمُونَ
(اے پیغمبر) ان لوگوں سے کہو، میرے پروردگار نے جو کچھ حرام ٹھہرایا ہے وہ تو یہ ہے کہ : بے حیائی کی باتیں جو کھلے طور پر کی جائیں اور جو چھپا کر کی جائیں۔ گناہ کی باتیں، ناحق کی زیادتی، یہ کہ خدا کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہراؤ جس کی اس نے کوئی سند نہیں اتاری۔ اور یہ کہ خدا کے نام سے ایسی بات کہو جس کے لیے تمہارے پاس کوئی علم نہیں۔
ف 7 اوپر کی آیت میں یہ فرمایا کہ لوگوں نے اپنی طرف بہت سی چیزیں چرا کر رکھی تھیں اب اس آیت محرمات کو بیان فرمادیا، (رازی) جب مسلمانوں نے کپڑے پہن کر طواف کرنا شروع کیا تو کفار نے ان پر عیب لگایا اس پر یہ آیت ناز ل ہوئی ( قر طبی) الفواحش، یہ فاحشتہ کی جمع ہے اور انہتائی قبیح فعل کو کہتے ہیں الا ثم سے تمام چھوٹے بڑے گناہ مراد ہیں اور شراب کو بھی اثم کہہ لیتے ہیں اور البغو کے معنی لوگوں پر ظلم اور زیادتی کے ہیں الغرض یہاں محرمات کی پانچ قسمیں بیان فرمائی ہیں وہ بھی انما اور کوئی چیز حرام نہیں ہے حالانکہ بہت سے دوسری شیا کو حر مت بھی قرآن و حدیث میں مذکورہے امام رازی فراتے ہیں کہ کہ دراصل جنایات پانچ ہی قسم کی ہیں 1۔ جنایتہ علی الا نساب اور اس کا سبب زنا ہے اور الفواحش سے یہی مراد ہے دو جنایتہ علی العقل جس کے دوسرے معنی شراب نوشی کے بیں اور الاثم میں اسی طر اشارہ ہے سوم جنایتہ علی الاعراض چہارم جنایتہ علی النفوس والا موال اور البغی بغیر الحق میں ان دونوں کی حرمت کی طر اشارہ ہے بنجم جنایتہ علی الادیان اور یہ دو قسم کی ہے۔ 1۔ توحید میں طع کرنا جس کی طرف وان تشر کو اباللہ سے اشارہ فرمایا ہے اور 2۔ بغیر علم کے فتویٰ دینا جس کی طرف وان تقولو اعلی اللہ مالا تعلمون ؟ سے اشارہ فرمایا ہے غرض کہ جملہ جنایات میں یہ پانچ اصول کی حیثیت رکھتی ہیں اور باقی ان کے فروغ اور تواضع ہیں اس بنا پر انما کے ساتھ حصر صحیح ہے اور اس پر کوئی اعتراض نہیں آتا، (کبیر )