سورة الاعراف - آیت 33

قُلْ إِنَّمَا حَرَّمَ رَبِّيَ الْفَوَاحِشَ مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَمَا بَطَنَ وَالْإِثْمَ وَالْبَغْيَ بِغَيْرِ الْحَقِّ وَأَن تُشْرِكُوا بِاللَّهِ مَا لَمْ يُنَزِّلْ بِهِ سُلْطَانًا وَأَن تَقُولُوا عَلَى اللَّهِ مَا لَا تَعْلَمُونَ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

(اے پیغمبر) ان لوگوں سے کہو، میرے پروردگار نے جو کچھ حرام ٹھہرایا ہے وہ تو یہ ہے کہ : بے حیائی کی باتیں جو کھلے طور پر کی جائیں اور جو چھپا کر کی جائیں۔ گناہ کی باتیں، ناحق کی زیادتی، یہ کہ خدا کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہراؤ جس کی اس نے کوئی سند نہیں اتاری۔ اور یہ کہ خدا کے نام سے ایسی بات کہو جس کے لیے تمہارے پاس کوئی علم نہیں۔

تفسیر اشرف الہواشی - محمد عبدہ لفلاح

ف 7 اوپر کی آیت میں یہ بیان فرمایا کہ لوگوں نے اپنی طرف سے بہت سی چیزیں حرام کر رکھی تھیں اب اس آیت میں محرمات کو بیان فرمادیا، (رازی) جب مسلمانوں نے کپڑے پہن کر طواف کرنا شروع کیا تو کفار نے ان پر عیب لگایا اس پر یہ آیت ناز ل ہوئی ( قر طبی) ٱلۡفَوَٰحِشَ ، یہ فاحشۃکی جمع ہے اور انتہائی قبیح فعل کو کہتے ہیں ٱلۡإِثۡمَ سے تمام چھوٹے بڑے گناہ مراد ہیں اور شراب کو بھی اثم کہہ لیتے ہیں اور ٱلۡبَغۡيَ کے معنی لوگوں پر ظلم اور زیادتی کے ہیں الغرض یہاں محرمات کی پانچ قسمیں بیان فرمائی ہیں وہ بھی إِنَّمَا کلمہ حصر کے ساتھجس کے معنی یہ ہیں کہ ان کے علاوہ اور کوئی چیز حرام نہیں ہے حالانکہ بہت سی دوسری ا شیا کی حر مت بھی قرآن و حدیث میں مذکورہے، امام رازی فرماتے ہیں کہ کہ دراصل جنایات پانچ ہی قسم کی ہیں 1 جنایۃ علی الا نساب اور اس کا سبب زنا ہے اور الفواحش سے یہی مراد ہے دوم جنایۃ علی العقل جس کے دوسرے معنی شراب نوشی کے ہیں اور الاثم میں اسی کی طرف اشارہ ہے سوم جنایۃ علی الاعراض چہارم جنایۃ علی النفوس والا موال اور البغی بغیر الحق میں ان دونوں کی حرمت کی طرف اشارہ ہے پنجم جنایۃ علی الادیان اور یہ دو قسم کی ہے۔ 1۔ توحید میں طعن کرنا جس کی طرف وَأَن تُشۡرِكُواْ بِٱللَّهِ سے اشارہ فرمایا ہے اور 2۔ بغیر علم کے فتویٰ دینا جس کی طرف وَأَن تَقُولُواْ عَلَى ٱللَّهِ مَا لَا تَعۡلَمُونَ ؟ سے اشارہ فرمایا ہے غرض کہ جملہ جنایات میں یہ پانچ اصول کی حیثیت رکھتی ہیں اور باقی ان کے فروع اور توابع ہیں اس بنا پر إِنَّمَا کے ساتھ حصر صحیح ہے اور اس پر کوئی اعتراض لازم نہیں آتا، (کبیر )